جنرل ضیا الرحمن اور بنگلہ دیش میں طاقت کی کشمکش کی خون ریز تاریخ


سرکٹ ہاؤس

جنرل ضیا کمرہ نمبر چار میں تھے

اینتھونی میسکرینہاس اپنی کتاب ‘بنگلہ دیش اے لیگسی آف بلڈ’ میں لکھتے ہیں: ‘اس وقت تک جب کرنل مطیع سمیت بیک اپ ٹیم صدر ضیا کی تلاش میں پہلی منزل پر پہنچ گئی تھی انھیں خبر ملی تھی کہ صدر کمرہ نمبر نو میں ہیں۔ جب کیپٹن عبد الستار اس کمرے کے دروازے کو ٹھوکر مار کر کھولا تو انھوں نے وہاں بی این پی کی رہنما ڈاکٹر آمنہ رحمان کو پایا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے ہر دروازہ کھولنا شروع کردیا۔’

‘کیپٹن صلاح الدین کو اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ‘صدر کہاں ہے؟ صدر کہاں ہیں؟’

انھیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ ضیا کمرے نمبر چار میں سو رہے ہیں۔ یہ کمرہ سیڑھیوں کے بالکل قریب تھا اور اس کے دو دروازے تھے۔ ایک سیڑھیوں کے سامنے اور دوسرا برآمدے میں کھلتا تھا اور یہ دروازہ باہر سے بند تھا۔

بعد میں لیفٹیننٹ رفیق الحسن خان نے انکوائری کمیشن کے سامنے گواہی میں کہا ‘اچانک شور مچا کہ صدر باہر آ رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد کسی نے چیخ کر کہا: ‘یہ ہیں وہ ‘سفید پاجامہ پہنے ضیا نیند سے اٹھ کر آئے تھے۔ انھوں نے ہاتھ اٹھایا اوردلیری سے کہا آپ کیا چاہتے ہیں؟’

مشین گن سے ضیا پر حملہ

بعد میں لیفٹیننٹ مصلح الدین نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ‘ضیا کے سب سے قریب میں تھا اور میجر مظفر تھے جو کانپ رہے تھے۔ میں ضیا کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ’پریشان نہ ہوں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم دونوں کو اب تک یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ضیاء کو صرف گرفتار کرنا ہے انھیں قتل نہیں کرنا ہے لیکن کرنل مطیع جو قریب کھڑے تھے ان کے دل میں کوئی رحم نہیں تھا۔

انھوں نے موقع دیے بغیر ہی ضیا کے جسم کے دائیں جانب سے مشین گن سے فائر کردیا۔ ضیا منھ کے بل گر پڑے ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔

مطیع الرحمان نے اپنی مشین گن کے بیرل سے ضیاء کو پلٹا اور پوری میگزین ضیا کے چہرے اور جسم کے اوپری حصے پر خالی کر دی۔

ضیاء کی موت کے فوراً بعد تمام قاتل سرکٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ وہ اپنے دو زخمی ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس پورے واقعہ میں صرف 20 منٹ لگے۔

ضیا کی آنکھوں سینے اور پیٹ میں گولیاں لگیں۔

لیفٹننٹ مصلح الدین نے اپنی شہادت میں مزید کہا ‘میجر مظفر، جو کنٹونمنٹ میں واپس آتے ہوئے بھی کانپ رہے تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہم صدر کو مار ڈالیں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں انھیں گرفتار کرنا ہے’۔

ضیا کے ذاتی معالج لیفٹیننٹ کرنل مہتاب الاسلام نے اپنی گواہی میں کہا ‘فائرنگ بند ہونے کے بعد میں اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گولیوں سے چھلنی صدر کا جسم دروازے کے باہر پڑا تھا’۔

ان کی کی ایک آنکھ مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور ان کے گلے میں گہرا زخم تھا اور سینے، پیٹ اور ٹانگوں میں گولیوں کے بہت سارے نشانات تھے۔ ان کا خون ان کے جسم کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور ان کا چشمہ سیڑھیوں پر ٹوٹا پڑا تھا۔

اے ڈی سی کے کردار پر سوال؟

سول انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ضیاء کے سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محفوظ اور اس کے اے ڈی سی کیپٹن مظہر اُس وقت تک اپنی پہلی منزل کے کمرے سے باہر نہیں نکلے جب تک کہ وائرلیس آپریٹر نائک عبدالبشر نے ان کا دروازہ کھٹکھٹا کر انھیں نہیں بلایا۔ اُس وقت تک حملہ آوروں کو گئے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا۔

ضیاء کی موت کے بعد جاری ہونے والے دستاویز میں کہا گیا کہ ‘ضیا کے اے ڈی سی کیپٹن مظہر ضیا کے ساتھ والے کمرے میں تھے۔ انھوں نے صدر تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم ، انھوں نے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش ضرور کی جس میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔

ان کے کام پر تبصرہ کرتے ہوئے سول انکوائری کمیشن نے کہا ‘صدر اور ان کے اے ڈی سی کے کمروں کو ملانے والا ایک دروازہ تھا۔ صدر کے پاس پہنچنا ان کے لیے بہت آسان تھا۔ جب حملہ آور صدر کے کمرے کے دروازوں کو پیٹ رہے تھے تو وہ اے ڈی سی کے کمرے میں جاکر بچ سکتے تھے۔

اے ڈی سی سے توقع تھی کہ خطرے کو دیکھ کر وہ صدر کو اس دروازے سے اپنے کمرے میں لے جاتے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اے ڈی سی نے کہا کہ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ ان کے اور صدر کے کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp