جنرل ضیا الرحمن اور بنگلہ دیش میں طاقت کی کشمکش کی خون ریز تاریخ


جنرل ضیا کی لاش زمین پر پڑی رہی

صدر ضیاء کی لاش بہت دیر تک اسی جگہ پڑی رہی جہاں انھیں قتل کیا گیا تھا۔

سرکٹ ہاؤس پہنچنے والے بی این پی قائدین چٹگانگ کمشنر، سینیئر پولیس افسران اور بحریہ کے سربراہ کسی نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ جنرل ضیا کی لاش کو زمین سے اٹھا کر بستر پر رکھ دیا جائے۔

بی این پی کے صرف ایک رہنما میزان الرحمٰن چودھری اپنے بستر سے ایک سفید چادر لا کر اسے صدر کی لاش پر ڈال دیا۔

بحریہ کے چیف ایڈمرل محمود عالم خان جو ضیا کے جہاز پر ڈھاکہ سے چٹاگانگ آئے تھے ، ساڑھے پانچ بجے سرکٹ ہاؤس پہنچے۔ انھوں نے پورچ ہی میں کچھ عہدیداروں سے بات کی۔ کچھ لوگوں کے اصرار کے باوجود بھی وہ ضیاء کی لاش دیکھنے پہلی منزل پر نہیں گئے۔

ساڑھے سات بجے تک بی این پی کے تمام رہنما اور اعلی عہدیداروں نے سرکٹ ہاؤس چھوڑ دیا تھا۔ ضیا کے جسم کی نگرانی کے لیے صرف دو جونیئر افسر رہ گئے تھے اور ان کی لاش ابھی بھی زمین پر پڑی ہوئی تھی۔

چٹاگانگ کے کمشنر سیف الدین احمد نے بعد کے انٹرویو میں اینتھونی میسکرینہاس کو بتایا: ‘اس کے بعد میں نے لیفٹیننٹ کرنل محفوظ اور مہتاب اور اے ڈی سی کیپٹن مظہر کو اپنے گھر ناشتے کے لیے لے گیا اور میری اہلیہ نے ان سب کے لیے ناشتہ تیار کیا۔’

جنرل ضیا کی تدفین

بنگلہ دیش کے صدر جنرل ضیا کی آخری آرام گاہ

ایک گھنٹہ کے بعد تین باغی میجر مظفر شوکت علی اور رضا ایک درجن فوجیوں کے ساتھ دو جیپوں اور ایک فوجی وین کے قافلے میں سرکٹ ہاؤس پہنچے۔

انھوں نے صدر کے بیڈ روم کی تلاشی لی وہ جنرل ضیاء کی ذاتی ڈائری کی تلاش میں تھے جس میں صدر اپنے خیالات لکھتے تھے۔

ان لوگوں نے ضیا کے سامان کو ایک پرانی اٹیچی میں بھر دیا اور ضیا کے جسم کو سفید کپڑے میں لپیٹا۔ دو مقتول سکیورٹی آفیسرز لیفٹیننٹ کرنل احسن اور کیپٹن حفیظ کی لاشیں بھی سفید کپڑے میں لپیٹ دی گئیں۔ ساڑھے نو بجے تینوں لاشوں کو بھری ہوئی اور ایک وین میں دفنانے کے لیے لے جایا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp