چوہیا کیسے گا سکتی ہے؟


فنکار کا سماج ،فرد اور دوسرے فنکاروں سے کیا رشتہ ہے؟ اس پر کوئی نئی بات کہنا آسان نہیں۔ لیکن ہمارے آس پاس کچھ نئے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہمیں اس سوال کو نئے سرے سے سمجھنے پر مجبورکرتے ہیں۔ہم اس سوال کو کوئی سو سال پہلے کی ایک تحریر کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ادب کی دنیا میں سو سال معمولی مدت ہے۔ دنیا میں اگر کوئی شے وقت کو مات دینے کی جرآت کرتی اور کامیاب ہوتی ہےتو وہ فن ہے۔ 1924 میں فرانز کافکا نے “گلوکارہ جوزیفین ” کے نام سے ایک افسانہ لکھا جو اس تحریر کے بنیادی سوال کی گرہیں کھولتا ہے۔ فنکار کا سماج میں ہونا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ سوال ، اس لمحے سے ہے ،جب سماج میں کسی فنکار کا اوّلین ظہور ہوا تھا۔ کلاسیکی عہد میں یہ سوال شاعری میں ظاہر ہوتا تھا۔ بیسویں صدی میں ترقی پسندی اور جدیدیت نے اس پر بحثیں کیں۔ مارکس ،فرائیڈ، ژنگ ، اوسپنسکی ، ایرخ فرام اور دیگر کے خیالات اردو میں پہنچے۔پھر لیوی سٹراس، رولاں بارت، میثل فوکو، دریدا ، لیوتار وغیرہ کی بحثیں سامنے آئیں۔اسی سلسلے میں عربی فارسی اور سنسکرت کے قدیم وکلاسیکی متون کی چھان پھٹک ہوئی۔ وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں۔لیکن اس سوال کو ایک بار پھر اوّلین سطح پر دیکھنے میں کیا حرج ہے!

فرانزکافکا “گلوکارہ جوزیفین ” میں چوہوں کی نوع کو منتخب کرتا ہے۔ ایک چوہا، اپنی نوع میں پیدا ہونے والی گلوکارہ جوزیفین کی کہانی بیان کرتاہے۔ جس طرح کافکا “کتے کی تحقیقات ” میں کتے کو بیان کنندہ بنا کر علم کی حدوں اور ان کی افادیت کو معرض سوال میں لاتا ہے، اسی طرح چوہوں کی نوع کے ذریعے ، فنکار اور عوام کے رشتے کو سامنے لاتاہے۔ ایک کتے کا بچپن اس وقت برباد ہوجاتاہے جب وہ سات کتوں کو گاتے ہوئے سنتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی معصومیت کی طرف نہیں لوٹ سکتا۔ اسے مسلسل مزید علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ علم جنت بدرکرتا ہے ۔ ایک نئی جنت خلق کرنے کی مشقت میں مبتلا کرنے کے لیے ۔

“گلوکارہ جوزیفین ” میں بھی کافکا موسیقی کو آرٹ کی بنیادی اور اوّلین صورت تصور کرتا محسوس ہوتا ہے۔کافکا یہ سمجھتے محسوس ہوتے ہیں کہ آرٹ کی اوّلین صورت کی مدد سے ،آرٹ کی باقی صورتوں کو سمجھاجاسکتا ہے۔گویا موسیقی کا علم ، شاعری ،مصوری ، فکشن ، مجسمہ سازی ،رقص کو بھی سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یعنی اصل اور سرچشمے کا علم ، ذیلی ، ضمنی اور جملہ اقسام کو محیط ہوجاتاہے۔ وہی افلاطونی عین۔ عین، مظاہر کی وضاحت کرتا ہے۔بلھے شاہ کا :اکو الف تیرے درکار۔لیکن سوال یہ ہے کہ چیزیں اصل سے جدا ہونے کے بعد ، اصل سے کس قسم کا تعلق رکھتی ہیں۔ محض ظل ہوتی ہیں،نقل ،عکس ،سایہ یا اپنی انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں اور یہ انفرادیت کلی ہے یا منحصر؟

اس سوال کے جوابات افلاطون و ارسطو کے زمانے سے دریدا تک نے دیے ہیں۔ لیکن دنیا بہ حیثیت مجموعی یا تو افلاطون کے ساتھ ہے ( جودنیا کو ظل سمجھتا تھا )یا ارسطو کے جو اشیا کی مادی حیثیت کا قائل تھا۔ لیکن ہم خود کو ادب وزبان تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی سب زبانیں ، زبان کا بنیادی جوہر (ابلاغ بہ ذریعہ ثقافتی کنونشن)تو رکھتی ہیں ،لیکن وہ ایک دوسرے سے متعدد اختلافات بھی رکھتی ہیں،یعنی ابلاغ کے طریقے اور قواعد۔ اس لیے ہماری رائے میں ،اصل سے جدا ہونے کے بعد اشیا ایک نیم خود مختار حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔یعنی ان کی انفرادیت کلی نہیں جزوی ہے۔ لہٰذا محض “اصل” کا علم ، اشیا کے مرکزی ومشترک جوہر کی وضاحت کرتا ہے، لیکن ایک شے کیسے ایک خاص زماں ومکاں میں کوئی مخصوص کردار ادا کرتی ہے، اس کی وضاحت نہیں ہوتی۔یہی مشکل اردو کے ایک ممتاز نقاد کو پیش آتی ہے ،جب وہ ایک صنف کی شعریات وضع یا مرتب کر لیتے ہیں ،یعنی اس صنف کی “اصل ” تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کی مدد سے اس صنف کے جملہ نمونوں کی وضاحت کرنے لگتے ہیں۔ہر فن پارہ ، اپنی اصل یا شعریات سے جدا ہوکر ایک محدود انفرادیت حاصل کرتا ہے۔ یہی صورت تمام فنون کے ساتھ ہے۔

ہم یہاں فن اور سماج وفرد کے تعلق کو اساسی سطح پر گفتگو کا موضوع بنائیں گے۔

“گلوکارہ جوزیفین “کا موضوع وہ ارتعاش ہے جو فنکار کے ظہور سے سماج میں پیداہوتا ہے ۔ فنکار اور سماج میں رشتہ خاصا پیچیدہ ہے،اس لیے کہ فن بہ یک وقت گروہ اور فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ گروہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ،فن قدیم زمانے کی ان رسومات کی یاد دلاتا ہے جن کے ذریعےافراد کی قلب ماہیت ہوجایا کرتی تھی۔آج بھی فرد کی تنہائی میں ، اگر کوئی شے کسی دیرینہ ہم راز کی مانندداخل ہوتی ہے تو وہ فن ہے؛ موسیقی، مصوری، شاعری اورفکشن(یہاں تک سب متحد ہیں لیکن وہ کس زبان میں آدمی سے بات کرتے ہیں ، اور کن حسیات کوزیادہ متاثر کرتے ہیں،وہ الگ ہے)۔فن اور آدمی کے اس پیچیدہ رشتے کو کافکا بنیادی مگر سادہ طریقےبیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جدید حکایت کا طریقہ۔ یہ طریقہ مشرق کے لیے نیا نہیں ہے۔ مشرق میں سری موضوعات کو سادہ حکایات کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔منطق الطیر،مثنوی معنوی ، جاتک کہانیاں اور تصوف کی کتابوں میں حکایات اور قصوںکے ذریعے گہرے سری (اور اخلاقی) مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔وہ لوگ اس یقین کے حامل تھے کہ سادہ حکایت، پیچیدہ روحانی تجربات اور مسائل کا بوجھ اٹھاسکتی ہے۔وہ جانتے تھے کہ کہانی کی منطق ، عقلی منطق سے زیادہ دل چسپ اور قائل کرنے والی ہے۔

عقلی منطق اشرافیائی ہے، یہ علما اور ان کی قطعی رسمی مجالس تک محدود ہوتی ہے؛جب کہ کہانی کی منطق عوامی ہے۔حکایات عام انسانوں کے روزمرہ تجربوں سے اخذ کی جاتی ہیں۔منطق الطیرکی ایک حکایت ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس سونے کی ڈبیا تھی۔وہ دنیا سے چلا گیا۔ ایک رات اس کے بیٹے نے خواب میں ایک چوہے کو ایک جگہ کا چکر لگاتے دیکھا۔یہ کیا معاملہ ہے؟ لڑکے نے سوچا۔ چوہا بولا میں نے یہاں سونا چھپاکر رکھا تھا۔ موت کے بعد میری یہ صورت ہوگئی ہے اور اس جگہ کا چکر لگا رہا ہوں۔ مشرق کی ان حکایات میں وہ پیچ —علامت وتیکنیک کی سطحوں پر—نہیں ہیں جو جدید فکشن کا لازمہ سمجھے جاتے ہیں۔لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مشرق کو انسانی ہستی کے تضادات اور پیچدگیوں کا علم نہیں تھا۔ مولانا روم نے ایک جگہ انسان کی حالت کو ایک ایسے گدھے کی علامت سے بیان کیا ہے جس کی دم پر فرشتے کے پر بندھے ہیں۔ ان حکایات اور آج کے فکشن میں بنیادی فرق ہے ۔ حکایات ، کہانی کی منطق کے جبر کا شکار نہیں ہوتی تھیں۔

محمود الحسن نے “ہم سب” پر شایع ہونے والے تازہ بلاگ میں آصف فرخی کا انتطار حسین کے نام ایک خط شایع کیا ہے ،جس میں آصف فرخی (جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل مٹھی میں آجاتا ہے) نے لکھا کہ ” ان (حکایات )کی افسانویت گویا ان کی significance کے لیے ایک cover-up ہے، ایک فریم ہے، گویا ”سرپوش“ ہے۔”۔ جب کہ آج فکشن انسانی حالت کو سمجھنے کا ذریعہ ہے؛ افسانویت اورمعنویت میں فاصلہ تصور نہیں کیا جاتا ۔شاید اس لیے بھی کہ پہلے حکایات جس معنویت کو پیش کرتی تھیں ، اسے اس دنیا سے الگ، بلند اور بالا اور ارفع تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن جدید فکشن کا تو جنم ہی اس تصور کائنات سے ہوا ہے کہ انسانی دنیا کے سب اندیشے ، مجید امجد کے لفظوں میں اس کے سر کی کھڑکھڑاتی مٹی کے زایئدہ ہیں۔لہٰذا اب افسانویت ہی معنویت ہے۔  اتفاق یہ ہے کہ کافکا بھی چوہوں کی دنیا کو منتخب کرتے ہیں۔ ایک عام سی مخلوق کی دنیا کے ذریعے ، ایک بڑے اور پیچیدہ موضوع کو پیش کرتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments