ہمیں اقلیتوں کی خبروں میں کوئی دلچسپی نہیں


ویسے تو سوشل میڈیا کی حیثیت تمام فکری نظریات کو آزادانہ اور بغیر کسی رقم کی ادائیگی کے پیش کرنے والے ایک اسٹیج کی سی ہے۔ جہاں ہر شخص مفکر، ادیب، خبررساں سے لے کر تجزیہ نگار دانشور اور نہ جانے کیا کیا بنا ہوا ہے۔ لیکن پاکستانی سوشل میڈیا کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ جہاں روز ایک نیا تماشا ٹرینڈ یا ہیش ٹیگ کی صورت میں آپ کو اپنا منتظر ملے گا۔

گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا سے لے کر سڑکوں کی رانی یعنی کرنل کی بیوی، عظمیٰ خان سے لے کر سینتھیا رچی، پی آئی اے طیارہ حادثہ، شوبز میں ہونے والی شادیاں اور طلاق سے لے کر طالبعلموں کی آن لائن کلاسز اور پھر امریکہ میں کالوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے غرض کہ ہر قسم کے حادثات و واقعات اور تماشے ہم کو سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا حصہ نظر آئے۔ اب اتنی سنسی خیز، چٹ پٹی اور ریٹنگ والی خبروں میں بھلا رحیم یارخان میں ہندو جوڑے کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا پشاور کے علاقے سواتی پھاٹک کالونی میں کرسچن خاندان پر کیے گئے قاتلانہ حملے جیسی خبروں کو مین اسٹریم میڈیا میں کیسے جگہ ملے؟

اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے بے خبر ہم امریکہ میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے سوشل میڈیا پر پرزور تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن اپنے ملک میں اقلیتوں کا کیا حال ہے اس میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے منتخب ہوکر آنے والے سیاستدانوں سے لے کر اہم منصب پر بیٹھے بڑے بڑے عہدیداروں کو بھی شاید کوئی خبر یا فکر نہیں۔ خبر بھی کیسے اور کیوں ہو؟ پاکستان میں تو سب اچھا ہے۔ معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، کرپشن میں ملوث ہر شخص سلاخوں کے پیچھے ہے، ہر وزارت کی کاردگی بہترین ہے، بجلی، گیس، صحت، تعلیم اورضرورت عامہ کی ہر سہولت پاکستان کے ہر شہر، گاؤں، گلی کوچے اور گھر میں میسر ہے۔

رحیم یارخان کے چک 121 کے گلاب اور اس کی بیوی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہندو ہیں۔ اس لیے اس گاؤں میں بسنے والے ’مسلماں وں‘ کو دن دھاڑے گلاب پر حملہ کرنے، مارنے اور اس کی بیوی کے کپڑے پھاڑنے اور سرعام جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا لائسنس مل گیا۔ اب گلاب اور اس کے خاندان کا زمین اور گھر اگر رحیم یار خان کے چک میں ہیں تو کیا ہوا؟ ہے تو وہ ہندو! اس لیے گاؤں کے ’مسلمان‘ جب چاہیں گے اس کو ماریں گے، اس کے گھر اور بیوی کی عزت پامال کریں گے اور ریاست مدینہ کا نمونہ پیش کرنے والی ماں جیسی ریاست اپنے ’غیر مسلم‘ بچے کے ساتھ ہونے والے اس ظلم اور زیادتی پر خاموش تماشائی بنی رہے گی۔

گزشتہ ہفتے پشاور کی سواتی پھاٹک کالونی میں کرسچن خاندان کو بھی چھریوں کے وار کے قتل کرنے کی کوشش کرنا قانونی اقدام تھا، کیونکہ یہ بھی تو ’غیر مسلم‘ ہیں اور ان کو کس نے حق دیا کہ ’مسلمانوں‘ کی کالونی میں گھر خریدں! اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کالونی میں بسنے والے ’مسلمانوں‘ کو مکمل طور پر قانونی حق حاصل ہے کہ وہاں کسی ’غیر مسلم‘ کو نہ بسنے دیں ورنہ ’پکے مسلمانوں‘ کا دین اور عقائد سب خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس ہی لیے تو پولیس نے حملہ کرنے والے ’مسلمانوں‘ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں نہ صرف تاخیر کی اور مجرمانہ غفلت برتی بلکہ انسانی حقوق اور اقلیتی وزیر نے بھی مذمتی بیان دینے کی جرات نہیں کی۔

مذہب کے نام پر بننے والے ملک میں مذہبی آزادی عملی طور پر تو کہیں نظر نہیں آتی، لیکن ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والوں کو یہ بات یقیناً پتا ہی ہوگی کہ حضور اکرمﷺ نے غیر مسملوں کو ذمی کا درجہ دے کر ان کے حقوق بھی دیے اوران کے سماجی رتبے کو تحفظ بھی فراہم کیا۔ ریاست مدینہ میں اقلیتوں کے حقوق پر کسی قسم کی کوئی قدغن یا حق تلفی کا تصور ناممکن سی بات تھی۔

چھوٹے سے مسئلے کو گلا پھاڑ پھاڑ کر رپورٹ کرنے والے میڈیا میں دونوں واقعات کو جگہ نہیں دی گئی۔ دونوں خبریں بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کی گئیں۔ ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور چینلز نے تو یقیناً اس ہی لیے ان پر بات نہیں کی کہ بلاوجہ میں عوام کے ’جذبات‘ بھڑکے گیں۔ نفرتیں بڑھیں گیں، پھوٹ پڑے گی، ہنگامے ہوں گے اس لیے اس خبر کو دبا دو! کیونکہ ریاست مدینہ میں اقلیتیں اور ’غیر مسلم‘ اس بات کے حق دار ہیں کہ ان کو مارو، ان کو جینے نہ دو، شک اور ابہام کی بنا پر ان پر توہین رسالت کا الزام لگا کر جلادو، ماردو! لیکن مارنے والے ’مسلمان‘ سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ کیا مرنے والے کا جرم ثابت بھی ہوا تھا؟ کیونکہ یہ مذہب کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک اب ریاست مدینہ کا عملی نمونہ ہے اورترقی کے راستے پر گامزن ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments