جاوید اختر کی بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو: فلمی نغموں سے اکتاہٹ، گلزار سے تعلقات اور بالی وڈ کے گانوں میں گورے رنگ کا سحر


جاوید اختر اور گلزار

جاوید اختر کا کہنا ہے کہ نغمہ نگار گلزار سے ان کا قریبی تعلق ہے

ایک مذہب کے متعلق تنقید کی تو دوسرے مذہب کے لوگوں نے گھیرا۔ دوسرے مذہب سے متعلق تنقید کی تو پہلے والوں نے گھیر لیا۔

اگر کوئی پوچھے کہ کیا نغمہ نگار جاوید اختر صرف ایک طبقے یا برادری پر ہی تنقید کرتے ہیں تو جواب میں جاوید اختر اپنا ایک گیت سنا سکتے ہیں: ’جانم دیکھو لو، مٹ گئی دوریاں، میں یہاں ہوں , یہاں ہوں، یہاں۔‘

جاوید اختر اپنی ہی تنقید میں اتنے ’بہادر‘ نظر آتے ہیں کہ وہ یہاں اور وہاں یعنی دونوں طرف گِھر جاتے ہیں۔

اپنے تیور میں ’شعلہ پن‘ اختیار کرنے والے جاوید اختر کو منطقی باتوں اور سیکولرازم کو اہمیت دینے کے لیے جون سنہ 2020 میں رچرڈ ڈاکنز ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جاوید اختر نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’جب مجھے ایوارڈ کے بارے میں معلوم ہوا تو میں اور شبانہ دونوں سمجھے کہ کسی نے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے، کوئی ہماری ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ پھر ہم نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ یہ صحیح خبر ہے ۔‘

’ہم نے ایوارڈز دینے والوں کو بتایا کہ یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ جب سے یہ ایوارڈ کی بات سامنے آئی ہے ٹرولنگ کرنے والے لوگوں نے رچرڈ ڈاکنز کو بھی ٹرول کرنا شروع کر دیا کہ ’بھائی ہم آپ کا اتنا احترام کرتے تھے، آپ نے کس کو دے دیا یہ ایوارڈ؟‘ لیکن اب ہماری جلد موٹی ہوگئی ہے۔ ہم ٹرولز سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔‘

جاوید اختر ٹی وی چینلز پر کیوں جاتے ہیں؟

جاوید اختر نے اپنے لیے جس موٹی جلد کا ذکر کیا وہ 75 برس کے نغمہ نگار، سکرین پلے لکھنے والے کی بھی جلد ہے۔ اس جلد کی جھریوں میں بہت سے تجربات، بہت ساری کہانیاں اور بہت سے سوالات کے جواب پوشیدہ ہیں۔ خواہ اس میں حکومتیں ہوں، میڈیا، فلم انڈسٹری ہو یا گلزار کے ساتھ تعلقات۔

بی بی سی ہندی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں جاوید اختر نے ایسے ہی بہت سارے سوالوں کے جواب دیے۔

کچھ عرصہ قبل نجی چینل کے پلیٹ فارم پر جاوید اختر کا انٹرویو وائرل ہوا تھا۔ جاوید اختر کو اس انٹرویو میں میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھی جاوید اختر کو وقتاً فوقتاً کئی نیوز چینلز پر دیکھا جاتا ہے۔

جاوید اختر کہتے ہیں ’مجھے دس بار فون کیا گیا، پھر میں ایک بار چلا گیا۔ یہ امید کر کے چلا جاتا ہوں کہ اب یہ (شور شرابا) نہیں ہوگا۔ ابھی حال ہی میں کہیں گیا تھا تو وہاں کچھ ہو گیا۔ ورنہ میں تو ان چینلوں پر بھی نہیں جاتا جہاں یہ چیخ پکار ہوتی ہے۔‘

’ون ٹو ون ہو تو میں (انٹرویو) دے دیتا ہوں لیکن میں وہاں نہیں جاتا جہاں مجھے معلوم ہے کہ دس افراد ہیں کیونکہ نہ تو آپ کی بات کوئی سنے گا اور نہ ہی آپ کسی کی بات ٹھیک سے سن سکیں گے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ٹھیک بات کہہ رہا ہو گا تو بھی دوسرے اتنا چیخیں گے کہ آپ سن نہیں سکیں گے۔‘

جاوید اختر

جاوید اختر کے بیٹے اور بیٹی دونوں فلم ہدایت کار ہیں

جاوید اختر نے اب فلمی نغمے لکھنے کم کیوں کردیئے ہیں؟

جاوید اختر کے کم فلمی نغمے لکھنے یعنی ’کیوں یہ دوری، کیا ہے مجبوری‘ کے سوال پر جانے سے پہلے نغمہ نگار ’جادو‘ (جاوید اختر کے قریبی ان کو پیار سے جادو کہتے ہیں) کے لکھے نغموں اور فلم سکرپٹ لکھنے کے آغاز کی بات کرتے ہیں۔

جاوید اختر کے والد جان نثار اختر بھی ایک مشہور و معروف شاعر تھے لیکن باپ بیٹے کے مابین دوریاں رہیں۔ اس فارسی محاورے سے دونوں کے مابین تعلقات کو سمجھیں۔

’ہر کس کہ شد صاحب نظر، دین بزرگ خوش نہ کرد‘ یعنی ہر وہ شخص جو اپنا نظریہ بناتا ہے اپنے بزرگوں کے نظریات سے مایوس ہوتا ہے۔

جانثار اختر نے یہ بات جب ایک کتاب پر لکھی تو جاوید اختر نے اسے دل سے لگا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فلموں میں لکھنے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔

جاوید کا فلموں میں سکرین پلے لکھنے کا پہلا موقع راجیش کھنہ کے آشیرواد بنگلہ خریدنے سے منسلک ہے۔ کبھی سرکس میں کام کرنے والے پروڈیوسر چننپپا دیور فلم ’ہاتھی میرے ساتھی‘ کو تمل زبان میں بنا چکے تھے اور اب اسے ہندی میں بنانا چاہتے تھے۔ راجیش کھنہ کو ایڈوانس پیسے دیے گئے جس سے وہ آشیرواد بنگلہ خریدنا چاہتے تھے۔

لیکن اس ریمیک کے سکرپٹ میں کچھ خامیاں تھیں۔ اس وقت سلیم جاوید نام کی جوڑی جو فلم ’انداز‘ پر کام کر رہی تھی انھیں راجیش کھنہ نے کام کرنے کا موقع دیا۔ دونوں لکھاریوں نے اسکرپٹ کو اس طرح بدل کر رکھ دیا کہ ’پیار کی دنیا‘ کے عنوان کو ’ہاتھی میرے ساتھی‘ کر دیا۔

یہ سکرپٹ اتنی بدل گئی کہ پھر چننپپا نے اس ریمیک کا ریمیک تمل میں بنایا۔ جاوید اختر نے سکرپٹ رائٹنگ کے کیریئر کا آغاز سلیم خان کے ساتھ مل کر کیا۔ لیکن بطور نغمہ نگار گیت لکھنے کا سلسلہ سنہ 1981 میں ’دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے‘ سے شروع ہوا اور اب حال ہی میں ریلیز ہوئی ’گلی بوائے‘ اور ’پنگا‘ کے بعد تھم سا گیا ہے۔

جاوید اختر نے مسکراتے ہوئے کہا ’میں کم نہیں لکھ رہا ہوں۔ کم گیت لکھوائے جارہے ہیں۔ یہ کہنا کہ میں بہت چوزی ہوں یا دیکھ بھال کر انتخاب کرتا ہوں، ایسا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں کاپی رائٹ کا ایک قانون تھا، جس میں بہت ساری خامیاں تھیں۔ اس کا فائدہ بہت ساری بڑی کمپنیاں اور پروڈیوسرز اٹھاتے تھے۔ جب میں رکن پارلیمان تھا تو میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس گیا اور اس قانون کو تبدیل کرنے کے بارے میں بات کی کیونکہ نغمہ نگاروں اور موسیقاروں کو کچھ نہیں مل پاتا تھا۔ اس وقت کی یو پی اے حکومت اور اپوزیشن این ڈی اے نے ہماری بہت مدد کی۔‘

’یہ باتین کمپنیوں کو کو پسند نہیں آئیں تو انھوں نے غیر اعلانیہ طور پر میرا بائیکاٹ کیا۔ بہت سے لوگوں نے میرے ساتھ مل کر کام کرنا چھوڑ دیا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں بھائی، آپ کی مرضی۔ لیکن آج اسی قانون کی وجہ سے کورونا کے اس دور میں بھی تقریباً چار ہزار فنکاروں کو پیسے تو مل رہے ہیں۔ اب لوگ اس سے ناراض ہیں، لہذا میرا کام متاثر ہوا ہے۔‘

جاوید اختر نے لاک ڈاؤن میں نظم لکھی

گذشتہ دنوں جب بہت سارے لوگ مزدوروں کی نقل مکانی پر لکھ رہے تھے تو کیا جاوید اختر بھی کچھ لکھ رہے تھے؟

جاوید کہتے ہیں: ’لکھا تو ہے لیکن ابھی سنا نہیں سکتا۔ زبانی یاد نہیں ہے۔ پھر کبھی سناؤں گا۔۔۔‘

اسی وقت جاوید اختر کی نظر اپنے آئی پیڈ کے نیچے جاتی ہے۔ وہاں سے وہ ایک صفحہ اٹھا کر کہتے ہیں ’لیکن سنیے۔ یہ حیرت انگیز اتفاق کہ وہ نظم میرے پاس موجود ہے۔ آپ کہیں تو سنا دیتا ہوں۔۔۔ میری قسمت میں تھا کہ آپ کو سنا سکوں۔ میری نظم کا عنوان ہے ہم سفر۔‘

امیر اور غریب

دنیا میں دو ہی ذاتیں ہیں

باقی سب بیکار کی باتیں ہیں

نقل مکانی: ’حکومتوں سے شکایت نہیں‘

مہاجر مزدوروں کا درد لکھنے والے جاوید اختر حکومت کی کاوشوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جاوید اختر نے کہا ’میں سب کچھ حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ حکومتوں نے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ اور کیا کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں ویسے بھی حکومتوں سے کم امید ہے۔ لیکن مجھے اس سے بھی زیادہ شکایت سماج سے ہے۔‘

’یہ لوگ سرکاری ملازم تو نہیں تھے۔ کوئی فیکٹری میں کام کرتا تھا، کوئی اینٹیں اٹھاتا تھا۔ مختلف جگہوں پر کام کرنے والے ان لوگوں کے لیے ایک دن دروازے بند کر دیے گئے اور جو لوگ انھیں شہر لائے تھے وہ چار دن تک انھیں سہارا نہ دے سکے۔ بہت سے لوگوں کو مارچ کی تنخواہ بھی نہیں ملی۔‘

’سماج نے ان لوگوں کے ساتھ جو کیا وہ مجھے بہت برا لگا۔ آپ کو عام آدمی سے امید ہوتی ہے۔ فیکٹری چلانے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان لوگوں کا کیا ہو گا۔ حکومتوں سے کیا شکایت کریں گے۔ حکومتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘

جاوید اختر نے جس سماج اور معاشرے کی بات کی وہیں آج کل نسل پرستی کی بات کی جارہی ہے۔ ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی موت کے بعد انڈیا کے کچھ فلمی ستارے بھی رنگ کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔

لیکن اس اہم مسئلے پر بات کرنے کے لیے ہر بار جارج فلوئیڈ جیسے لوگوں کو کیوں مرنا پڑتا ہے اور معاشرہ کیوں کھل کر بات نہیں کرتا؟

جاوید اختر کہتے ہیں: ’یہ وہ لوگ ہیں جو کسی مشکل میں نہیں آنا چاہتے ہیں تاکہ کچھ بولنے سے دشواری پیدا نہ ہو۔ کیا پتا ہم کس مشکل میں پڑ جائيں؟ سڑک پر زخمی پڑے انسان کو لوگ اٹھاتے نہیں کہ کہیں مصیبت میں نہ پڑ جائيں۔ کچھ لوگوں میں اس قدر زہر بھر دیا گیا ہےکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ چلو کم از کم ایک تو کم ہوا ہے۔ اور کچھ لوگ ہمدردی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔‘

جاوید اختر

جاوید اختر نے اپنے کرئیر کی شروعات فلموں کی کہانیاں لکھنے سے کی تھی

فلمی نغموں میں گورے رنگ کا سحر

ہم کالے ہیں تو کیا ہوا، دل والے ہیں، گورے رنگ پہ اتنا نہ گمان کر اور چٹیاں کلائیاں وے جیسے بہت سے گیتوں میں سفید رنگ کی خواہش نظر آتی ہے۔ ’اایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا، جیسے اجلی کرن‘ اور ’چہرے جتنے دیکھے، سارے ہی پیارے‘ جیسے فلمی گیت لکھنے والے جاوید اختر اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

جاوید اختر کہتے ہیں: ’رنگت کا یہ مسئلہ معاشرے میں ہے۔ یہ گانے معاشرے میں ہیں۔ ہم گانوں سے ناراض ہوجاتے ہیں، معاشرے سے نہیں۔ یہ تعصب معاشرے میں ہے اور معاشرے کے لوگ ہی گانے بنا رہے ہیں۔ ایک محاورہ ہے کالا کلوٹا۔ بھئی کلوٹا کا کیا مطلب ہے۔ اخبارات میں شادی کے اشتہارات دیکھ لیں۔ ہر جگہ یہ لکھا ہے کہ گورے لڑکے یا لڑکی کی ضرورت ہے۔ گیتوں میں آسمان سے نہیں سماج سے یہ سب آتا ہے۔‘

گلزار سے رشتہ کیسا ہے؟

جب نغموں کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو آئیے ہم اس کہانی میں ایک اور نغمہ نگار گلزار کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل شبانہ اعظمی نے گلزار اور جاوید اختر کی ایک فلائٹ پر ساتھ بیٹھے ہوئے تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی تھی۔

جاوید اختر کہتے ہیں: ’گلزار صاحب سے میری ملاقات 1970 کی دہائی سے ہے۔ اسے 50 سال ہو چکے ہیں۔ 50 سال میں ایک منٹ کے لیے بھی ہمارے درمیان اختلافات نہیں ہوا۔ ہمارے بہت اچھے رشتے ہیں۔اس فلائٹ جیسی اور بھی تصاویر ہونی چاہیے تھیں لیکن اس وقت فون میں وہ کیمرہ موجود نہیں تھا نہ بھئی۔ ورنہ آپ پچاس برسوں سے تصویروں کو دیکھ رہے ہوتے۔‘

’گلزار صاحب کی خوبی یہ ہے کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ان کا گانا ہے۔ پتا چل جاتا ہے کہ یہ انھی کا لکھا گیت ہے۔ میں سنتے ہی فون کرتا ہوں کہ آپ نے جو یہ گیت لکھا ہے یہ حیرت انگیز ہے۔۔ یہ کیا مصرعہ لکھ دیا آپ نے۔ گلزار بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ بھائی، آپ نے کہہ دیا تو یہ ٹھیک ہے۔‘

گلزار کی بیٹی میگھنا گلزار راضی، تلوار اور چھپاک جیسی متعدد فلمیں بنا چکی ہیں۔ جاوید اختر کے بیٹے فرحان اختر اور زویا اختر نے بھی متعدد فلموں کے ذریعے اپنی پہچان قائم کی ہے۔ ان بچوں کے والد اپنے بچوں کے کام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

جاوید اختر کہتے ہیں: ’کبھی کبھار گلزار صاحب کا ایس ایم ایس آ جاتا ہے کہ آپ کی بیٹی کی پکچر دیکھی۔ فخر سے سینہ پھول جاتا ہے۔ گلزار صاحب کی بیٹی بھی میری پسندیدہ ہے۔ یہ دنیا میں ہی ہے کہ پتا نہیں یہ لوگ کہاں بیٹھ کر علیحدہ علیحدہ لکھتے ہوں گے۔ ایک دوسرے کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہوں گے۔ میرے تو گلزار سے بہت اچھے رشتے ہیں۔

لیکن ’جیا جلے، جان جلے‘ جیسے گیت لکھنے والے گلزار کا کوئی تو گیت ہوگا جسے سن کر جاوید کو رشک ہوا ہوگا؟

جاوید اختر نے کہا: ’آپ لوگ مانیں یا نہ مانیں مجھے گلزار کا گیت ’بیڑی جلائی لے جگر سے پیا‘ بہت پسند ہے۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ کسی شخص نے بیڑی جلئی لے گیت بیٹھ کر لکھا ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوک گیت ہو۔‘

’فلم کے گیت کو آپ کسی کردار کے لیے لکھ رہے ہوتے ہیں۔مجھے بیڑی جلئی لے پر گلزار پر رشک ہوتا ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ کسی نے یہ گانا ٹیبل کرسی پر بیٹھ کر لکھا ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ 100-150 سال پرانا کوئی لوک گیت ہوگا۔ اور یہ گاؤں کے میلوں ٹھیلوں میں گایا جاتا ہوگا، لوگ نوٹنکی میں گا رہے ہوں گے۔‘

نئے لکھنے والوں کی اچھی اور بری باتیں

جاوید اختر آج کل کی فلموں میں گیتوں کے بول اور گانوں کے استعمال پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ کیا جاوید اختر کو نئے لکھنے والے بناوٹی لگتے ہیں؟

جاوید کہتے ہیں: ’بناوٹی تو شاید ہم ہی لوگ ہیں۔ نئے لوگ تو بہت صحیح ہیں۔ ہاں ایک بات تو یقینی ہے کہ ان کا تکنیک پر اتنا کنٹرول نہیں، زیادہ تیاری نہیں۔ لیکن جہاں تک سوچ کا تعلق ہے تو یہ حیرت انگیز ہے۔ بالکل نئی سوچ ہے۔ سچی ہے۔‘

’مجھے یہ گلہ ضرور ہے کہ ہنر میں کچھ کمیاں کچھ کوتاہیاں ہیں۔ زبان پر کنٹرول ہنر سے آتا ہے۔ ہنر سکھانے کے لیے کوئی سکول نہیں ہے، صرف ایک ہی راستہ ہے جو ماسٹر نے لکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پڑھیں اور ان کا خیال نہ لیجیے۔ لیکن ان سے سیکھیں کہ زبان کس طرح استعمال کی جاتی ہے۔‘

جاوید اختر فلمی گیت لکھتے ہوئے بھی زبان کے صحیح استعمال کی بات کرتے ہیں لیکن جاوید اختر کے ٹویٹس پر نظر ڈالیں تو زبان کا غلط استعمال آپ کو صاف نظر آتا ہے۔

جاوید اختر کہتے ہیں: ’میں ٹرولنگ کو سمجھتا ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہیں، تو جب وہ کسی مشہور شخصیت کو گالی دیں گے تو ان کا نام ہوگا۔ ان کو یہ پوار حق ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ وہ بھی ہیں۔ وہ اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں تو کیا مجھے اس بات ناراض ہونا چاہیے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ باقی کچھ تو نوکری پر ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے تو چلو کچھ کو کام مل گیا ہے۔‘

گفتگو کے آخر میں ٹرولنگ کرنے والوں پر جاوید اختر کی ایک فلم کے مکالمے کی یاد آتی ہے۔

’ہمارے ملک میں کام تلاش کرنا بھی ایک کام ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp