اداکار سوشانت سنگھ کی موت: معروف شخصیات کی موت کو تماشہ کیوں بنا دیتا ہے میڈیا؟


جس ٹیلی ویژن نے انھیں سٹار بنایا تھا، کامیابی دی تھی اب وہی ان کو مار رہا ہے۔ پچھلے کچھ گھنٹوں سے انھیں بار بار ٹی وی سکرین پر مارا جا رہا ہے۔

اس مضمون کو تحریر کرتے وقت بھی وہ لوگ اسی کام میں مصروف تھے۔ ان کی زندگی، ان کے کام، رشتے اور یہاں تک کہ ان کی خود کشی کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جارہا تھا۔ ہر ایک چیز کی بخیہ گری ہو رہی تھی۔

کوئی یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ والد کے ساتھ ان کا رشتہ اچھا نہیں تھا۔ کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ شاید وہ نشے کے عادی ہوں۔ وہ ان کے جسم پر پائے جانے والے نشانات کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے۔

ان زخموں کی باتیں کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے کہ پھانسی لگانے میں انھیں کتنی تکلیف پہنچی ہو گی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ خدا خود کشی کی اجازت نہیں دیتا۔

ٹرولرز کے لیے تو یہ ایک زبردست موقع تھا۔ وہ اس خود کشی کو ایک مسلمان اداکارہ کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ ان کے بقول یہ ‘جیسی کرنی ویسی بھرنی’ کی مثال ہے۔

ایک معروف ڈائریکٹر اور ٹاک شو کے میزبان نے اپنی ایک پوسٹ میں ان کے جانے پر غم کا اظہار کیا۔ انھیں افسوس تھا کہ وہ اس کی مدد کیوں نہیں کر سکے۔ لیکن ان لوگوں نے ان کا اس بات پر مذاق اڑایا کہ وہ اتنے ‘سیکسی’ کیوں نہیں نظر آ رہے تھے۔

مرنے والے کی پرائیویسی کے حقوق پر کیوں سوال نہیں اٹھائے جاتے؟

ان کے ساتھ کے مشاہیر نے سوشانت کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کیں۔ اپنی اپنی طرح سے خراج عقیدت پیش کیا۔

خراج تحسین پیش کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ کچھ لوگوں نے اداکار کی تصاویر پوسٹ کیں اور لکھا کہ ان کی طرح وہ بھی ڈپریشن کا مقابلہ کر رہے تھے۔

ان کے بھی کام متاثر ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا سہارا بنا ہوا ہے۔ کئی ہیش ٹیگ چل رہے تھے۔ اس سانحے پر زیادہ سے زیادہ ویوز، لائکس اور تبصرے آنے تھے۔

سری دیوی

REUTERS
اپنے لیے بھی اور اس شخص کے لیے بھی یہ انتہائی سنجیدگی کا معاملہ ہونا چاہیے کیونکہ جو شخص اس دنیا سے چلا گیا وہ واپس آکر آپ کی قیاس آرائیوں کی تردید نہیں کر سکے گا

لیکن ان سب کے درمیان ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ آخر ہمیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنی کہانی کو، اس واقعہ اور اس طرح کی تمام چیزوں کے بارے میں اپنے تاثرات کو پیش کرنے کے لیے عوامی سطح پر ان کی تصاویر کے استعمال کا حق کیسے حاصل ہوا؟

ان لوگوں کے رازداری کے حقوق کا کیا جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں؟ ان کے جسد خاکی کی تصاویر نیوز چینلز اور واٹس ایپ پر وائرل کیوں ہو رہی ہیں؟

کیا انڈیا میں کوئی ایسا قانون ہے جو اس دنیا سے رخصت ہونے والے لوگوں کے رازداری کے حق کی حفاظت کرے؟

کیا اس طرح کی رپورٹنگ اور تصویروں کو شیئر کرنے کا سوال صحافت کی اخلاقیات سے نہیں جڑا ہوا ہے؟ کیا یہ کسی کے عز و وقار کا سوال نہیں ہے؟

ہمارا میڈیا خود کشی کو اس طرح کوور کرتا ہے

ٹی وی چینلز کی مہربانی سے اب تک سب جان چکے ہوں گے کہ مرنے والے اداکار کا گھر کیسا نظر آتا ہے۔ ‘طاقتور’ ٹی وی چینلز ہمیں وہاں تک پہنچا چکے ہیں۔ ان کی پہنچ ہر جگہ ہے۔

ہم نے صوفہ بھی دیکھا ہے جس پر اداکار کے والد رو رہے تھے۔ ہم نے اس غم کا لمحہ دیکھا کیونکہ نیوز چینلز کے عزائم میں ہمیں وہاں تک لے جانا شامل تھا جہاں مرنے والے شخص کے لواحقین سے ذرا سی بھی ہمدردی رکھنے والا شاید ہی جانا چاہے گا۔

مرنے والے اداکار کا گھر کوئی عوامی مقام نہیں ہے۔ میڈیا نے یقینا جرم کیا ہے۔ اس نے بغیر اجازت کہیں داخل ہونے سے لے کر بہت سے ضابطۂ اخلاق کو توڑا ہے۔

میڈیا والے عموما ایسا کام کرتے ہیں اور یوں اس نے خودکشی جیسے المیے کو معمول کی موت بنادیا ہے۔

ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہمیں سب کچھ دیکھنا ہے۔ بیٹے کی موت پر غم سے پھولی والد کی آنکھیں۔ بیڈروم کی تصاویر جہاں اداکار نے خود کو ہلاک کیا۔

سب کچھ۔ کمرہ، کمرے کا بستر اور وہ رسی جس کا اس نے خودکشی میں استعمال کیا۔ مجھے اب بھی سنہ 2018 کا وہ دن یاد ہے۔

ایک مشہور نیوز چینل نے اس کی کہانی کا عنوان ‘موت کا باتھ ٹب’ رکھا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اداکارہ سری دیوی کی موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ایک رپورٹر مائیک کے ساتھ باتھ ٹب میں اتر گیا تھا۔

کنارے پر شراب کا ایک پیالہ بھی رکھ دیا گیا تھا۔ اور یوں اس کی موت کا منظر دوبارہ تخلیق کیا گیا تھا۔ وہ سنسنی خیز رپورٹنگ، رپورٹر کی صفت کے استعمال، آراء اور قیاس آرائوں سے بھر ہوئی تھی۔

اس میں نہ تو حقائق کا کوئی لحاظ رکھا گیا تھا اور نہ ہی مرنے والے کی رازداری اور وقار کا خیال رکھا گیا تھا۔

دولت، شہرت کی وجہ سے معروف شخصیتوں کی زندگی میں تاک جھانک کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ایسے معاملات میں ہم فورا ہی ماہر بن جاتے ہیں۔

تاہم کسی مردہ شخص کی زندگی کے بارے میں لکھتے وقت ہمیں یہ کام پورے وقار کے ساتھ کرنا چاہیے۔

اپنے لیے بھی اور اس شخص کے لیے بھی یہ انتہائی سنجیدگی کا معاملہ ہونا چاہیے کیونکہ جو شخص اس دنیا سے چلا گیا وہ واپس آکر آپ کی قیاس آرائیوں کی تردید نہیں کر سکے گا۔

موت کے معاملے میں حقائق اور بھی مقدس ہوجاتے ہیں

سری دیوی کے بارے میں جو خبریں تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ 54 سالہ اداکارہ دبئی کے ایک ہوٹل میں باتھ ٹب میں پھسل گئیں اور ڈوبنے سے ان کی موت ہو گئی۔

خاندان میں کسی کی شادی میں شرکت کے لیے دبئی آنے والی سری دیوی اس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ لیکن فرانزک رپورٹ آنے سے پہلے ہی قیاس آرائیوں اور الزامات کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

اس دوران ہمیں ان کی ‘لاش’ کے بارے میں نئی معلومات ملتی رہیں، اس بارے میں مستقل خبریں آرہی تھیں۔

اپنے آپ کو ہمیشہ جوان رکھنے کے لیے کی جانے والی سرجری کے بارے میں معلومات دی جا رہی تھیں۔ اس کے لیے کیلیفورنیا کے بہت سارے دوروں کی کہانیاں سامنے آ رہی تھیں۔

انھوں نے اپنی ناک کو ٹھیک کرانے کے لیے کیا کیا، انھوں نے ہونٹوں کو سنوارنے کے لیے کیا کیا، وہ کس قسم کے تناؤ سے گزر رہی تھیں۔ ہر چیز کی تفصیلات پیش کی جا رہی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ لوگوں نے سری دیوی اور ان کے شوہر کی پہلی بیوی کی موت میں ستاروں کا کنکشن ڈھونڈ لیا تھا۔

ان کے مطابق بونی کپور کی پہلی اہلیہ اپنے بیٹے کی پہلی فلم کی ریلیز سے قبل ہی دم توڑ گئیں اور سری دیوی بھی اپنی بڑی بیٹی کی پہلی فلم کی ریلیز نہیں دیکھ سکیں۔ ایک لکھاری نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ کیا ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ ہے؟

قومی ٹی وی چینلز پر سری دیوی کی زندگی اور ان کی موت سے متعلق حالات کے بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی گئی تھیں۔ ایک صحافی نے تو حد ہی کردی انھوں نے باتھ ٹب میں لیٹ کر بتایا کہ کس طرح سری دیوی ڈوبی ہوں گی۔

اس بارے میں بھی بحث چل رہی تھی کہ آیا انھوں نے شراب پی تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سری دیوی نے اپنی بیٹیوں کے لیے کتنی جائیدادیں چھوڑی ہوں گی۔

کیا سوشانت سنگھ راجپوت کی موت اور ان کی زندگی کے بارے میں منٹ منٹ کی خبروں سے ملک کا قومی مفاد وابستہ ہے؟

یقینی طور پرعوامی شخصیت ہونے کے ناطے وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے خراج تحسین کے حقدار تھے لیکن جس طرح سے ان کی زندگی اور حقائق کی چیر پھاڑ کی جارہی ہے وہ نہیں ہونا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ ابھی اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ تاہم پولیس نے کہا ہے کہ سوشانت سنگھ راجپوت نے خودکشی کی ہے۔

صحافت میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے ‘مبینہ طور پر’ اور اس لفظ کے سہارے میڈیا ان لوگوں کے پیچھے پڑ گیا جو سوشانت سنگھ کو جانتے تھے۔

اپنی کہانی کو دلچسپ بنانے کے لیے میڈیا ان لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے جو انھیں جانتے تھے۔

اس سے پہلے کہ پولیس سرکاری طور پر کچھ کہے بیشتر میڈیا چینلز نے اعلان کر ڈالا کہ اداکار نے خودکشی کر لی ہے۔

چاہے یہ جان بوجھ کر ہو یا غیر ارادی طور پر ‘خود کشی کر لی یہ لفظ ایک حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے یعنی اگر کسی نے اپنی جان لی تو اس کے پیچھے ایک وجہ ہے اور اس وجہ یا بیماری کا علاج نہیں ہو سکا۔

خودکشی کے حوالے سے متعلق تنظیم وائس آف ایجوکیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈین ریڈن برگ نے ہفنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ‘خود کشی’ جیسے الفاظ بولنے سے ہم ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں جو ذہنی بیماری سے اپنی جنگ ہار چکے ہیں۔ یہ ذہنی بیماری سے وابستہ معاشرتی داغ کو مزید فروغ دینے کے مترادف ہے۔

میڈیا اور صحت سے متعلق کئی تنظیموں نے جو رہنما اصول بنائے ہیں ان میں لفظ ‘خودکشی’ کو نقصان دہ تصور کیا گیا ہے کیونکہ اس سے سارا دباؤ یا الزام اس شخص پر ڈال دیا جاتا ہے جس نے خود کو ہلاک کیا ہے اور اس بیماری کا ذکر نہیں ہوتا جس کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔ ایسا کرنا جرم جیسا لگتا ہے۔

میڈیا سمیت بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ خودکشی بزدلی ہے۔ انھوں نے خود کو اپ ڈیٹ کیے بغیر لکھنا شروع کر دیا کہ یہ قانون کے خلاف ہے۔ لیکن 2017 میں خودکشی کی کوشش کو جرم کے زمرے سے خارج کر دیا گیا تھا۔

ذہنی بیماری سے متعلق قانون میں کہا گیا ہے کہ ‘تعزیرات ہند کی دفعہ 309 میں جو بھی لکھا گیا ہو اب یہ سمجھا جائے گا کہ خودکشی کی کوشش کرنے والا شخص بہت دباؤ میں ہے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے سزا نہیں دی جائے گی۔’

سنہ 2017 کے قانون نے سنہ 1987 کے قانون کی جگہ لے لی اور اس قانون میں ذہنی بیماری کی واضح طور پرتشریح کی گئی ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ‘ذہنی بیماری میں مبتلا ہر شخص کو وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

‘صنف، جنس، جنسی مفادات، مذہب، ثقافت، نسل، معاشرتی اور سیاسی عقائد، طبقے یا معذوری سمیت کسی بھی بنیاد پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جاسکتا۔’

سوشانت سنگھ اداکارہ بھومی پڈنیکر کے ساتھ

سوشانت سنگھ اداکارہ بھومی پڈنیکر کے ساتھ

سوشانت سنگھ کی زندگی پر سستی صحافت

سوشانت سنگھ راجپوت اور دیگر شخصیات کی خود کشی پر جس طرح کی رپورٹنگ ہم نے دیکھی ہے وہ ایک سستی صحافت ہے۔

ایسی صحافت جس میں خبروں کو تحقیق کے بغیر یا حقائق سے دور رکھا گیا۔ چونکانے والی شہ سرخیوں کے ساتھ خبروں کو پیش کیا جارہا ہے اور ٹی آر پی بڑھانے کے لیے مبالغہ آرائی کی جا رہی ہے۔

ان باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے اسکینڈل اور سنسنی پیدا کی جا سکے۔

خود کشی جیسے معاملات کی رپورٹنگ کیسی ہونی چاہے

اس کے لیے طے شدہ رہنما اصولوں کے مطابق ایسے معاملات میں محتاط رپورٹنگ ہونی چاہیے۔

خودکشیوں کے سلسلے میں موجودہ موثر پریکٹس یہ ہے کہ اسے دوسری وجوہات سے نہیں جوڑا جاتا لیکن سوشانت سنگھ راجپوت کے معاملے میں ہمیں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔

ان کے معاملے میں بالی وڈ میں ان کی کامیابی یا ناکامی پر بحث کی جارہی ہے۔ کئی دوسری چیزوں کے علاوہ ان کے عشق کے معاملے پر بھی بات ہو رہی ہے۔ پرائم ٹائم نیوز شوز میں ‘آخر کیوں’ پر بحث ہو رہی ہے۔

خودکشی ایک المیہ ہے، تماشہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت صحافی ہم سب اپنی کہانی کو جذباتی طریقے سے کور کرنا چاہتے ہیں۔

کئی بار کہانی کہنے کے انداز میں نکھار لانے کے لیے ہم ماحول کی تفصیلات بتاتے ہیں جو دوسری طرح کی کہانیوں میں اثر تو پیدا کرتی ہے لیکن اس طرح کی تفصیلات خودکشی کے رجحان کو فروغ دے سکتی ہیں مثال کے طور پر یہ بتانا کہ ڈیزائنر کیٹ سپیڈ نے خود کشی کے وقت کس رنگ کا سکارف پہن رکھا تھا۔

خودکشی کی خبروں پر میڈیا کے اثر انداز ہونے سے معاشرے کی سوچ متاثر ہوتی ہے۔

لوگوں کو محسوس ہو سکتا ہے کہ خودکشی کے ذریعے اپنی پریشانیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ذہنی طور پر بیمار لوگ اس کی نقل کر سکتے ہیں جن کی کہانیاں میڈیا سناتا ہے۔

سوشانت سنگھ کے معاملے میں میڈیا ایک ناکام شخص کی کہانی بیان کرتا نظر آتا ہے کیونکہ ایک شہ سرخی میں انکی فلموں کی کامیابی اور ناکامی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

اس طرح کی کہانی ایک مختلف قسم کی شناخت کا باعث ہوتی ہے جہاں لوگ خود کو ایک خاص قسم کی کہانی سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں۔

سوشانت سنگھ راجپوت کے معاملے میں اب میڈیا ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کے بارے میں بھی بات کر رہا ہے جس پر ان کی زندگی میں شاید ہی بات ہوتی۔

ان کی موت کے بعد ان پہلوؤں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ ان کی آخری فتح کی داستان سنائی جا رہی ہے۔ ایک عمدہ کہانی، موت کے ذریعے نجات کی کہانی۔

جب کوئی مشہور شخصیت خودکشی کرتی ہے تو اس کا اثر عام آدمی پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جب لوگ خود شناسی کی طرف گامزن ہیں۔

ایسے وقت میں اس طرح کی کہانی کا احاطہ کرنے میں زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ وہ دور ہے جب ہم پر سماجی دوری کے رجحان کی پیروی کرنے کا دباؤ پڑتا ہے۔ اس وبا سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی تجویز دی جارہی ہے جس نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کردیا ہے۔

طلاق کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے اورکورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بارے میں ٹی وی پر آنے والی خبروں نے افسردگی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جو خودکشی کے لیے اکسانے والا ماحول پیدا کر رہا ہے۔

لوگ خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ محققین ذہنی بیماریوں کے معاملات میں اضافے کا انتباہ دے رہے ہیں۔ لہٰذا میڈیا کے ذریعہ دکھائی جانے والی خودکشی کی ان کہانیوں کو دیکھ کر خودکشی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔

لوگ سوچ سکتے ہیں کہ اگر سوشانت سنگھ راجپوت اتنی دولت، کامیابی اور شہرت کے باوجود بھی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔ اگر ایسا کوئی شخص اپنی جان نہیں بچا سکتا تو پھر میں اپنی جان کیوں بچاؤں۔

میڈیا کو خود کشی کی رپورٹنگ کرنے کے رہنما اصولوں میں بتایا گیا ہے کہ اس کی کتنی کوریج ہونی چاہیے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خودکشی کا طریقہ نہیں بتایا جانا چاہیے۔ سنسنی سے بچیں اور مرنے والے شخص کی مثبت تصویر پیش کریں۔

ہم مرنے والوں کو احترام کے ساتھ یاد کر کے، ذہنی بیماری کے خلاف ان کی جدوجہد کا احترام کرتے ہوئے اور خودکشی کے بارے میں کھلی بات چیت اور گفتگو کے ذریعے اس کے بارے میں شعور پیدا کرسکتے ہیں۔

ایسا کرنے سے ہم مردہ شخص کے ساتھ شفقت کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن اکثر ایسے معاملات میں ہم اپنے عقائد کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ ہم مردہ شخص کی توہین کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ سری دیوی کے معاملے میں یہی ہوا میڈیا نے شوہر کے ساتھ ان کے تعلقات پر فوکس کرنا شروع کیا۔ ان کے پینے کی عادات اور کاسمیٹک سرجری کے بارے میں بات ہوئی۔

تین سال پہلے میرے والد نے میرے لیے ایک ٹی وی سیٹ خریدا تھا۔ دیوار پر لٹکا یہ ٹی وی اب بھی بند ہے۔ جانے والے افراد کا احترام کرنے کا میرا یہ طریقہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp