طارق عزیز۔۔۔ ہمارے بچپن کا ادبی پہلو یتیم ہو گیا


ہمارا بچپن، عہد جدید کے بچوں کی طرح ڈیجیٹل آلات کی سہولیات اور برقی روابط کی بجائے، افراد کے آپس میں میل جول سے مزین تھا۔ واٹس ایپ اور فون میسج کی بجائے دوست کے گھر جانا، دروازہ بجانا، دوست کے والد یا والدہ کو سلام کرنا، ڈانٹ سننا اور نصیحتوں کے بعد دوست کو ساتھ لا کر کرکٹ کھیلنا، اکٹھے بیٹھ کر، عمران سیریز، ٹارزن، عمرو عیار کی کہانیاں پڑھنا اور پی ٹی وی پر سہ پہر سوا چار بجے کارٹون دیکھنے کے لیے زور کی آواز لگانا، کارٹون۔ ۔ ۔ اور سب بچوں کا، محلے کے قریب ترین گھر، جس میں ٹیلیوژن ہو اسی گھر میں گھس جانا، پانی پینا، کارٹون دیکھنا، گھر کے کسی بزرگ سے پڑھائی کی نصحیت کو ان سنی کرنا، اسکول کا ضروری کام کرنا۔ ہماری دن بھر کی مصروفیت بس یہی ہوتی تھی۔

نیلام گھر پروگرام دیکھنا، کسی بچے کے پڑھاکو، سمجھدار اور مہذب ہونے کا بنیادی وصف شمار ہوتا تھا۔ یہ واحد پروگرام تھا جس کے دیکھنے پر کسی سرزنش کا خطرہ نہ ہوتا تھا۔ بزرگوں کا خیال تھا کہ اس پروگرام کے طارق عزیز صاحب کے انداز گفتگو سے بچوں کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے، طارق عزیز صاحب کی علمیت اور اشعار کے استعمال سے بچوں میں علم کی تشنگی پیدا ہوتی ہے۔ بیت بازی کے مرحلے میں طلبا و طالبات میں علمی و ادبی ذوق پیدا ہوتا ہے، سوالات و جوابات سے معلومات کا ذخیرہ بڑھتا ہے۔ انعامات ملنے کی صورت میں ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ محنت کرنے کا صلہ، اللہ ہمیشہ دیتا ہے۔ محنت سے، کوئی بھی فرد جو چاہے وہ کما لے۔

” ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے، جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں آپ کو، طارق عزیز کا سلام“ ، یہ وہ جملہ تھا جس سے نیلام گھر کا آغاز ہوتا تھا۔ اور ہمارے ننھے ذہن یہ سوچتے ہی رہ جاتے کہ ہم سب کی آنکھیں دیکھتی ہیں، ہم سب کے کان سنتے ہیں تو پھر طارق عزیز صرف ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو‘ ہی سلام کیوں کہتے ہیں۔ ایک دن خطبہ نماز جمعہ میں مولوی صاحب نے قرآن کی ایک آیت پڑھی، کہ ان کی آنکھیں ہیں، پر وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ یہی لوگ ہیں جو چوپایوں سے بھی بد تر ہیں۔ پھر طارق عزیز کا نیلام گھر دیکھا تو سوچ پیدا ہوئی کہ کیا طارق عزیز جن سے بات کر رہے ہیں کیا وہ بھی دو طرح کے لوگ ہیں، اول، وہ جو ان کا پروگرام دیکھتے اور سنتے ہیں، اور ثانیاً وہ لوگ جو ان کے مفاہیم کو سمجھتے ہیں۔ خود بقول طارق عزیز،

’ رب کریم‘
ایسے اسم سکھا دے سانوں
ہرے بھرے ہو جائیے
گہرے علم عطا کر سانوں
بہت کھرے ہو جایئے

یہی وہ ذہنی مہمیز تھی جس کی بنا بچپن میں ذہنی تفکر اور ادبی ذوق پیدا ہوا اور اسی بنیاد پر طارق عزیز صاحب کی وفات کو اپنے بچپن کے ادبی و فکری پہلو کو یتیم ہونا قرار دیا ہے۔ یہ تمام کیفیت اور مفہوم اسی دعا سے ماخوذ ہے، جو آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے، اے اللہ مجھے حقیقت الاشیأ کا علم عطا فرما، جیسا کہ وہ ہیں۔ طارق عزیز ایسے ہی بڑے سادہ الفاظ اور اشعار میں اپنا ما فی الضمیر کہنے کا ملکہ رکھتے تھے۔

فلسفے کی دو طرح سے تقسیم کی جاتی ہے، اول الذکر سے مراد منظم فلسفہ ہے جس کی بنیاد مسایل کی آفاقیت و ہمہ گیر نوعیت ہے۔ جبکہ قسم دوم سے مراد وہ فلسفہ ہے جو شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہو۔ اپنی ذات اور اس سے متعلقہ مسایل کے گرد گھومتا ہو۔ طارق عزیز نہ تو منظم فلسفہ کی صف میں تھے نہ ہی شخصی فلسفہ کے علمبرداروں سے ان کا تعلق تھا۔ لیکن مسئلہ ٔ تفھہم ذات، شناخت کا المیہ، ہجوم انسانی تعلقات میں تنہائی، معنویت کی تلاش، المیہ محبت، جدید حالات میں ’ہور طرحاں دی فرصت‘ ، ’ہور طرحاں دے کم‘ جیسی مصروفیات ا ور انسان کا اپنی ہی ذات کی تلاش۔ یہ تمام مسایل، طارق عزیز کی شاعری، ان کی گفتگو اور اشعار کے انتخاب میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ جو کہ ان کی ذہنی وسعت او ر وسیع مطالعہ کی عکاس ہیں۔

سقراط کا مقولہ ہے، ’خود کو پہچانو‘ ۔ قرآن کا مدعا بھی یہی ہے جس نے خود کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ فلسفے کا محور بھی حقیقت الاشیأ ہے۔ طارق عزیز، اس تلاش ذات کے حاصل و لاحاصلی سے آگاہ تھے اور سقراط کی طرح اپنی ذات کے گیان اور معرفت سے آشنا تھے۔ بقول خود طارق عزیز صاحب؛

’لا حاصل دا حاصل‘
میں تے انج ای کرنا سی
میرے لئی نہ رو
میں تے انج ای مرنا سی
میرے لئی نہ رو
تلاش ذات کی مسلسل کیفیت بعض اوقات تجسیم کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے اور :
کجھ دناں توں انج لگ دا اے
میرے سوا کوئی ہور وی
میرے گھر وچ رہندا اے

با لآخر، صلیب وقت پر جھولتے ہوئے جب انسان اپنے آپ کو، خود اپنے روبرو پاتا ہے، اور اپنی محبتوں کے جرم کے عوض خود کو مصلوب ہونے کی سزا کا لطف بھی اٹھاتا ہے اور ’ہمزاد دا دکھ‘ بھی جھیلتا ہے۔ اور ’لا فانی ہون توں پہلاں‘ اعتراف کرتا ہے کہ:

اپنے آپ نال گلاں کر کے
گہرے رازاں وانگوں ڈر کے
کدوں تک کوئی جی سکدا اے

طارق عزیز اک عہد ساز شخصیت تھے ان کی شخصیت ان کے تمام نظریات کی آینۂ دار تھی، ان کا وجود سن ستر، اسی اور نوے کی دہایوں کے بچوں کے لیے معلومات عامہ، شاعری، بیت بازی، تلفظ، انداز ادایئگی، موزوں اشعار کا انتخاب کی بنا پر علمی مشعل کی مانند تھا۔ ’حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا‘ ۔

” نال میرے کوئی چلے“
کوئی وی رستہ روک نیئں سکدا
اڈ دے جاندے ویلے دا
نواں سفر درپیش ای مینوں
رب راکھا ہن میلے دا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments