!طارق عزیز کو پاکستان کا سلام پہنچے


”ابتدا ہے۔ رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے، آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید“ ۔
اسکے بعد کوئی معلوماتی بات، خاص لیکن مختصر قصہ یا واقعہ ہوتا تھا۔
کچھ جملے کیسے ہوتے ہیں نا۔ زندگی بھر کے لیے آپ کے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں اور آپ ان چند لائنوں کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لوگوں کی یادداشتوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔

ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں بڑے ہونے والے بچے آج کچھ سوگوار ہیں۔ طارق عزیز صاحب چل بسے۔ چلے تو سب نے ہی جانا ہے لیکن اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کی یادوں میں کیا چھوڑ گئے ہیں۔

نیلام گھر ہمارے بچپن کی فقط ہے۔ ایک خوبصورت یاد نہیں ہے بلکہ ہماری تربیت کا ایک حصہ تھا۔ جمعرات کی رات کو جمعہ کی کی چھٹی کی خوشی کے ساتھ ساتھ رات آٹھ بجے نیلام گھر دیکھنے کی بھی ایکسائٹمنٹ ہوتی تھی۔

خوبصورت اردو، ، مضبوط لہجہ، آواز کا زیرو بم، باوقار انداز، برمحل اشعار اور معلومات کا خزانہ، یہ تھے۔ پاکستان ٹیلیویژن کے پہلے اناؤنسر طارق عزیز صاحب۔

ہم شو تو تفریح کے لیے دیکھتے تھے لیکن اب سوچو تو کیا کیا سیکھ جاتے تھے۔ پورا گھر شو میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات بوجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ کسی کا جواب اتفاق سے صحیح ہو جاتا تو اسے یوں لگتا کہ سارا ہال اسی کے لیے تالیاں بجا رہا ہے اور ”ایک سوال پہ الیکٹرا“ اگر وہ شو میں موجود ہوتا تو اسی کو مل جانا تھا۔ ( الیکٹرا والوں کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ مخصوص انداز میں کہی گئی ایک لائن ابھی تک عوام الناس کو ان کی پروڈکٹ سمیت یاد ہے۔ ) ۔

کسی بھی میزبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مہمان کا مزاج اور مرتبت جانتا ہے۔ جن کو مہمان کے طور پر بلایا جاتا تھا۔ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو، ان کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوئے سوال ان کے معیار اور مزاج کے مطابق کیے جاتے تھے۔ یہ نہیں کہ مہمان آپ کے سطحی سوالوں سے ناگوار محسوس کر رہا ہے اور آپ ہیں کہ اس کا لیول جانے بغیر کھی کھی کھا کھا کے ساتھ بے تکے سوالوں پہ تلے ہیں جو آج کل اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔

ہمیں بیت بازی کا سیگمنٹ بہت پسند تھا۔ خوبصورت لہجوں میں ٹیموں کی طرف سے آتے خوبصورت اشعار اور پھر ان پہ طارق عزیز صاحب کی برمحل شاعری کا تڑکا، مزا آ جاتا تھا۔ بعد میں جب جب بیت بازی میں حصہ لیا یا بیت بازی ہوسٹ کی کہیں لا شعور میں وہ انداز اور آواز جگمگاتے رہے۔

سب سے دلچسپ حصہ وہ ہوتا تھا جب نئے نئے شادی شدہ جوڑوں کو بلایا جاتا تھا۔ پس منظر میں چلتی ہوئی ”دیس آندا راجہ میرے بابل دا پیارا“ کی دھن اور اس پہ تاریخ عزیز صاحب کی مخصوص شرارتی مسکراہٹ اور انداز، پکارنے اور اعلان کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی اور حضرات شرماتے ہوئے اور خواتین اپنے زرق برق شرارے غرارے سنبھالتی اسٹیج کی طرف رواں دواں ہوتی تھیں اور ہم محو حیرت ہوتے تھے کہ یہ دلہن بن کے کیوں آئی ہیں۔

کچھ مزیدار قسم کی باتیں بھی ہوتی تھیں، اعلان ہوا ”میرا وہ بھائی جو سگنل توڑ کر پروگرام میں پہنچا ہے؟“ ادھر سے ایک بھائی جوش میں دوڑتا ہوا اسٹیج تک پہنچا کہ غالباً شو سے اس قدر محبت دیکھتے ہوئے کچھ انعام دیا جائیے گا۔ ایسے میں کاندھا تھپتھپاتے ہوئے طارق عزیز بول پڑے ”نہ میرے بھائی نہ سگنل توڑنا بہت بری بات ہے۔“ اب بھائی شرمندہ، شرمندہ کھسیانی ہنسی ہنس رہے ہیں۔ یہ بھی تربیت کا ایک انداز تھا۔

کبھی کھیل ہوتا، ہال میں کسی کے پاس چمچہ موجود ہو اس کے لیے انعام جو کسی نہ کسی کے پاس سے نکل ہی آتا اور وہ انعام کا حقدار پاتا اور ہم بچپن کی بھری معصومیت میں خیالوں خیالوں میں سوچتے کہ اگر کبھی قسمت سے شو میں جانا ہوا تو امی کے پرس میں قینچی، چھری، چمچہ، کانٹا، پیچ کس، اسکاچ ٹیپ سب رکھ کے لے جائیں گے۔ جانے وہ کیا مانگ لیں۔

کیونکہ بچے جو دیکھتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں۔ جہاں چار بچے جمع ہوتے ہم بھی نیلام گھر کھیلتے اور سب کچھ نقل کرنے کی کوشش کرتے۔ پروگرام کے اختتام کی ایکسائٹمنٹ یہ ہوتی تھی کہ ان کا پاکستان کہتے ہی حسب توفیق حلق پھاڑ کے، ”زندہ باد“ کا نعرہ لگایا جائے۔

ایک مدرسہ تھا جو چل بسا، ایک تہذیب تھی جو ختم ہو گئی۔
پاکستان کو طارق عزیز کا سلام پہنچے!
اللہ ان کے درجات بلند کرے، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments