میں، گرونیا اور اس کا شوہر


مجھے قبول تھا یہ سب کچھ کیوں کہ مجھے اس سے شدید محبت تھی اور جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو اسے پورا قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ماضی کے ساتھ، ماضی کے رشتوں کے ساتھ، ماضی کی باتوں کے ساتھ۔ وہ ایک عجیب عورت تھی۔ اوپر سے بھی حسین، اندر سے بھی حسین، کسی بہت اونچے پہاڑیوں کے درمیان بنی ہوئی جھیل کی طرح شفاف، مرنے سے کچھ دن قبل اپنی اکھڑی اکھڑی سانسوں کے درمیان وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرتی رہی تھی، اپنے بچھڑے ہوئے منگیتر کے بارے میں، تمہارے بارے میں، میرے بارے میں، پوری صفائی کے ساتھ، مکمل سچائی کے ساتھ۔ مجھے کچھ بھی برا نہیں لگا تھا، ایسی ہی تھی وہ۔ کاش تم اس سے مرنے سے پہلے مل لیتے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔

میں خاموشی سے روتا رہا اور وہ خاموشی سے مجھے تکتا رہا۔

اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تم ایک دن ضرور اس کی قبر پر آؤ گے۔ مرتے وقت اس نے میرے ہاتھوں کو پکڑا، پیار سے چوما اور میرے کانوں میں کہا کہ جب تم آؤ تو تمہیں بتا دوں کہ وہ تمہیں کبھی بھی نہیں بھولے گی، کبھی بھی نہیں۔

اس کی خواہش تھی اسے ٹپریری کے چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے قبرستان میں دفن کیا جائے، بہت خاموشی کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کی قبر پر اس کے سابق منگیتر کو ضرور بلایا جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ وہی گانا سنائے جو اسے پسند تھا۔

تم نے بلایا تھا شاؤن کو۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔

اس کے بھتیجوں بھتیجیوں، بھانجے بھانجیوں نے اس کی قبر کو سجایا۔ ٹپریری میں لوگ اسی طرح کرتے ہیں، نہ جانے کتنی سالوں پرانی رسم ہے۔ قبر کے چاروں طرف بے شمار پھول سجائے گئے، سبز پتوں سے قبر کی دیواروں کی آرائش کی گئی۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے جلایا نہ جائے، خاموشی سے اسے مٹی میں ملایا جائے۔

مجھے یاد تھی یہ بات وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ مسلمانوں کی یہی بات اسے پسند ہے۔ مٹی سے آئے مٹی میں مل گئے۔ پہلے عیسائی بھی دفن ہی کرتے تھے مگر اب لوگ جلنا پسند کرتے ہیں مگر میں تو مٹی میں ہی جاؤں گی، اس مٹی میں جہاں سے میں آئی ہوں۔

میں نے کہا تھا کہ کاش ہم دونوں ساتھ مریں، تاکہ ایک ہی قبر میں دفن ہوجائیں۔ اس کی کھنکھناتی ہنسی ہوئی میرے کانوں میں گونج گئی۔
ایسا نہیں ہو سکے گا، اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

وہ دن بہت خوبصورت تھا۔ صاف آسمان، سورج نکلا ہوا، اس کے گاؤں کے سارے لوگ موجود تھے۔ اسے آہستہ آہستہ قبر میں اتارا گیا۔ شاؤن اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ موجود تھا اس نے اپنی بیٹی کا نام گرونیا رکھا تھا۔ اس نے اپنی بھاری آواز میں گرونیا کی پسند کا آخری گانا گایا تھا ”دی پارٹنگ گلاس“ ، چار سو سال پرانا گانا۔ سشمیش نے آہستہ آہستہ بتایا تھا۔

میں سشمیش کو دیکھتا رہا، سوچتا رہا کہ کتنا خوش قسمت تھا یہ شخص جس نے گرونیا کو حاصل کر لیا تھا۔ کتنا بدقسمت تھا میں کہ اس کے پاس رہا مگر اسے پا نہ سکا۔ اسے چھوا، چوما چاما اور ایک دوسرے کو چاہنے کے باوجود ہم دونوں ایک دوسرے کے نہیں ہو سکے۔ زندگی ایسا کیوں کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں؟ اتنے بڑے کیوں کا جواب نہیں تھا میرے پاس!

میں سشمیش کے غم کو سمجھ سکتا تھا مگر سشمیش کو اندازہ نہیں تھا کہ میرا کیا غم ہے۔ اس نے اسے چاہا اور اسے پا لیا۔ میں نے اسے چاہا، پایا اور کھو دیا کیوں کہ وہ میرے ساتھ رہ کر میرے درد کا سبب نہیں بننا چاہتی تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس کرب، اس دکھ، اس غم کا جو اسے ہوا ہوگا کیوں کہ وہ بھی مجھ سے شدید محبت کرتی تھی۔

تم نے اسے مجبور کیوں نہیں کیا کہ وہ تم سے شادی کر لے۔ سشمیش نے ایک دم سے میری طرف دیکھا اور سوال کر دیا۔

میں دوبارہ سے چاہنے کے باوجود اپنے آنسو نہیں روک سکا۔ بے شمار ننھے ننھے آنسوؤں کے قطرے نہ جانے کتنے بڑے بند کو توڑ پھوڑ کر برسنے لگے۔ نہ میں انہیں روک سکا، اور نہ میں کچھ بول پا رہا تھا۔ میرے سامنے آئینہ نہیں تھا مگر مجھے پتا تھا کہ میرے چہرے کی ویرانی نے سشمیش کو بھی حیران کر دیا تھا۔ وہ مجھے دیکھتا رہا پھر اٹھ کر میرے قریب آ گیا۔ اس نے میرے کاندھوں کو پکڑا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر باآواز بے اختیار رونے لگا۔ میں سمجھ گیا۔ آئی انڈر اسٹینڈ۔ دو تین بار یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے تھے۔

دوسرے دن ہم دونوں ہی انس میلان کے اس چھوٹے سے قبرستان پہنچ گئے۔ پہاڑوں کے درمیان سے ایک چھوٹا سا جھرنا بہہ رہا تھا جس کے پانی کی میٹھی آواز کانوں میں جیسے رس گھول رہی تھی۔ اس کے سامنے ہی گاؤں کا چھوٹا سا قبرستان تھا۔

میں کئی بار قبرستان گیا ہوں، ہمیشہ قبرستان جا کر ایک اداس سا بوجھل پن دماغ پر طاری ہوجاتا ہے جہاں جلدی جلدی رسم نبھائی جاتی ہے اور عزیزواقارب سے تعزیت کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ میں بھی یہی کرتا رہا ہوں۔

اس دن ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں اپنی دوست، اپنی محبوبہ کے شوہر کے ساتھ قبرستان میں اس کی قبر پر جا رہا تھا۔ اس کا کھلتا ہوا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا، اس کی مسکراہٹ میرے ذہن پر سوار تھی، اور اس کے دل سے نکلتی ہوئی ہنسی میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس کی قبر پر پہنچ کر میرا دل جیسے بے قابو ہوگیا۔ بغیر آواز کے آنسو میری آنکھوں سے ابلنے لگے۔ آنسوؤں کے چھلکنے کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے میرے دل کے اندر بہت اندر جہاں یہ ایک بہت بڑا خلا تھا وہاں کسی نے دھیرے سے ہاتھ رکھ کر دبا دیا ہو۔

میں اس کے قدموں کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں، جیسے وہ میرے سامنے ہو۔ مجھے ایسا لگا جیسے شاون آ گیا ہے۔ اس کے سرہانے کھڑا ہے اور اپنی بھرپور درد بھری آواز میں گرونیا اور میرا پسندیدہ گانا گا رہا ہے۔ ”دی پارٹنگ گلاس“ آئرلینڈ کے شراب خانوں میں ہم دونوں نے نہ جانے کتنی دفعہ یہ گانا سنا تھا، گایا تھا، روئے تھے، آخری گلاس جدا ہونے سے پہلے۔

جو بھی کچھ خرچ کیا ہے میں نے
وہ اچھے دوستوں کے ساتھ دوستوں پر
اور جو بھی نقصان اٹھایا ہے
اس کا ذمہ دار تو میں ہی ہوں صرف
وہ خوبصورت لوگ جن کے لیے
میں ہنستا مسکراتا گیت گاتا رہا
جن کو دیکھا تو دل دھڑکتا رہا

انہیں چھوڑ کر جانا پڑے گا مجھے
مجھے روکیں گے وہ، نہ رک سکوں گا میں
آخری الوداعی گلاس پی لینے دو
شب بخیر دوستو، شب بخیر دوستو
آخری الوداعی گلاس پی لینے دو
شب بخیر دوستو شب بخیر دوستو

ہم دونوں شام ڈھلے تک وہیں بیٹھے رہے۔ کانوں میں آخری الوداعی گلاس کا گانا گونجتا رہا، ہمیں ایسا لگا کہ وہ ہمارے ساتھ کہیں آس پاس ہی موجود ہے، اپنی تمام تر محبتوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری گرونیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments