Transsexuality (شعوری جنسیت)


ناچ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ پوہ کی بھیگی رات دم آخریں پر پہنچ چکی تھی۔ ستاروں کے قافلے چلتے چلتے تھک گئے تھے اور ڈوبنے سے پہلے ہی بادلوں میں چھپ کر مدھم ہو رہے تھے۔ جوانی کا الاؤ بھڑک رہا تھا۔ دونوں کنچنیاں پسینے سی بھیگی ہوئی تھیں۔ چہرے لال سرخ اورجسم تپایا ہوا کندن بن چکے تھے۔ جوں جوں شعلے ٹوٹ رہے تھے، روپ سوا ہوا جا رہا تھا۔ یوں لگتا کہ گھٹائیں امڈ آئیں، بجلیاں کوند پڑی ہیں اور کبھی یوں کہ امنگیں گھل کر تہی آغوش پناہ گزین ہونے کو تڑپ رہی ہیں۔

وہ قریب آتیں تو تن وجان سے فدا دکھائی دیتیں، دور ہوتیں تو پیغام دعوت سے لبریز چشم ہائے ناز اسی پر ٹکی رہتیں۔ یہ دلکشی اور دلبری کی چوگان بازی پچھلے دو گھنٹے سے جاری تھی۔ ان کے متناسب گندھے ہوئے تھرکتے ہوئے کولھوں نے زماں خان کے تن بدن میں آگ بھڑکا دی تھی۔ وہ ناچتی جا رہی تھیں۔ ناچ کیا! حسن کے نظارے تھے، صرف اعضا کی نمائش تھی۔ بیوپار تھا، لین دین تھا، مرد کی جیب اور عورت کے جسم کا۔ جس کے ساتھ ضرب تقسیم اور جمع تفریق کا کوئی حساب کتاب نہ تھا۔ ان کی شوخیاں اور چتونیں لوٹ مار کر رہی تھیں۔ دولت پاؤں میں ڈھیر ہو رہی تھی۔

زماں خان ایک ضدی شوخ آور لڑکا تھا۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد، مزاج محرور، غصہ ور اور سرکش۔

رات کے گھنے پن میں سب تھک کر چور ہوچکے اوردامن بھی سمیٹ چکے تھے۔ جیبیں خالی اور آنکھیں نیند سے بھر چکی تھیں۔ لیکن وقت سحر آگیں اس کی مستیاں زور پر تھی۔ وہ دولت بھی لٹاتا جا رہا تھا۔ بالآخر دوستوں نے محفل کو سمیٹنے کا اشارہ دے دیا۔ وہ وہاں سے اٹھا اور ایک لڑکی کو پہلو میں سمیٹ کر چل پڑا۔ ڈوم ڈھاریوں، سماجیوں اور مراثیوں نے ایک جگہ پر جمگھٹا بنا لیا اور سر جوڑ کر دولت کی تقسیم میں الجھ گئے۔

یار دوست اسے سمجھاتے تھے کہ ان رنڈیوں نے نواب، جاگیر دار فقیر بنا دیے تم ان کے پیٹ نہیں بھر سکتے۔ تمہارے باپ کی جائیداد تو اڑتے نظر ہی نہیں آئے گی۔ زماں خان کہتا ”میں کون سا کوٹھوں پر جاتا ہوں۔ یہ شادی بیاہ، مہندی کی محفلوں میں کبھی کبھار ان سے سامنا ہو جاتا ہے تو ان کے فن سے لطف اندوز ہو جاتا ہوں۔“ لیکن سب کو پتا تھا کہ اس کے کنچنوں اور لولی بچوں سے رابطے ہیں۔ جہاں کہیں بھی جلسہ ہوتا ہے اسے پیغام مل جاتا ہے۔

جب سے شاہی محلہ اجڑا ہے شہر شہر گلی گلی میں ان کا کام عام ہو گیا ہے۔ پہلے دور میں شادیوں میں ناچ گانے کا کام ہیجڑوں کا ہوتا تھا اور ان کے علاقے تقسیم تھے۔ ہر مخنث کا ایک حلقہ مخصوص اور مقرر تھا۔ وہ خود اس سے باہر کام کے لئے جا تا اورنہ کوئی دوسرا اس کی حدود میں مداخلت کر سکتا تھا۔ وہ اس سماج کا ایک حصہ تھا۔ عورتیں مرد سب اسے جانتے تھے اور وہ بھی تمام گھروں کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح خوشی کے مواقع پرمردوں کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی تفریح اور دل لگی کا سامان میسر آ جاتا۔ گانا اور ڈانس دیکھ بھی لیا جاتا اور یہ رنڈیاں و کنجر شرفاکے محلوں سے دور، مخصوص علاقوں تک محدود رہتے۔

اسے سب سمجھاتے کہ تمہارا خون تازہ ہے اسے ضائع مت کرو۔ بتوں کی صحبت میں ایمان اور صحت کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ وہ کہتا میں ڈانس کے فن پر فریفتہ ہوں مجھے ان کے جسم سے کوئی رغبت نہیں۔ لیکن اس کی خرمستیاں نفسانیت اور ہوس پرستی پر مبنی تھیں۔ ایک دوست کہنے لگا ”اگر تم واقعی ہی نرت بھاؤ کے شیدائی ہو تو آؤ، آج میں تمہیں ہیجڑوں کی ایک سالگرہ کی تقریب میں لے چلتا ہوں۔ نرت کاری ان پر ختم ہے۔“

ایک شادی ہال میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک طرف صوفے لگے ہوئے تھے۔ ان پررؤسا و امرا بیٹھے تھے۔ دوسری طرف کرسیاں موجود تھیں۔ درمیان میں وہ ہیجڑا جس کی سالگرہ تھی، ایک بڑے سے تخت پرزینت افروز تھا۔ ایک کونے میں مقامی گرو حاشیہ لگانے میں مشغول تھا۔ بہت سے ہیجڑے جن کے چہرے نوخیز طوائفوں کو شرماتے تھے دوسرے رخ پر بیٹھے تھے۔ ان کا زرق برق لباس ایک دوسرے پر بازی لے گیا تھا۔ ڈانس شروع ہوا۔ میزبان ایک ایک کر کے دور دراز سے آئے مہمانوں کو موقع دے رہی تھی۔ ”تشریف لا رہی ہیں، دلوں کو موہ لینے والی، جس کی ایک ایک ادا پر کئی جوان قربان ہو چکے ہیں لیکن وہ دوشیزہ ابھی بھی باکرہ ہے۔ مس فیروزہ جان۔“

ایک سے بڑھ کر ایک فن کی شہزادی جلوہ افروز تھی۔ پھر باری آئی ایک نو خیزامرد نما حسینہ کی۔ نام تھا، سندری۔ حنائی ہاتھ گجروں سے لدے ہوئے۔ لم چھڑی کجراری آنکھوں میں دیپک جل رہے تھے۔ دہن گلدستہ تھا۔ پیکر بدن ایسا جیسے شام بہاراں مجسم ہو گئی ہے۔ اس نے زماں خان کے سینے کی طرف حنائی انگلی کا نشانہ باندھا۔ نیناں دی دو دھاری تلوار کے پہلے وار میں ہی کام پار ہو گیا۔ زردی مائل سرخ ہتھیلیوں کے گدے رگڑ کرتالیاں اڑائیں۔ پاؤں حرکت میں آئے تو بوٹی بوٹی تھرکنے لگی۔

اس کی ہر ادا پر محفل کی محفل نثار ہو رہی تھی۔ پورا ہال بھی تھرک رہا تھا، سارا چمنستان جھوم رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ کون سا نرت کس عضو نے نبھانا ہے۔ ہر انگ جاگ اٹھا تھا۔ انگڑائی لے کر تیر بن جاتی اور جھک کر کمان۔ نوٹوں کی ایسی برسات ہو رہی تھی کہ فرش چھپ گیا۔ اب دولت کے قالین پرہر گام قیامت برپا ہو رہی تھی۔ رقص ختم ہوا تو پھر زماں خان کو ہوش آئی۔ وارے گئے نوٹ سندری کے حوالے کیے گئے تو اس نے وہ سب میزبان کے آگے ڈھیر کر دیے اور پاؤں چھو کر مجمعے سے دور جا بیٹھی۔ ایسے قاتل سے اس کا یہ پہلے پہل کا سابقہ تھا۔ ایسا فنکار اور ایسا ڈانس اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ اٹھا اور اس کے پاس جا بیٹھا۔

اس کے بعد جہاں کہیں بھی اسے پتا چلتا کہ سندری کا پروگرام ہے، وہیں پہنچ جاتا۔ وہ دل جاں سے اس پر فدا تھا۔ اس کی کالی زلفوں اور گلگوں رخساروں کا شیدائی، ہمہ وقت اس کی تعریفوں میں رطب اللساں رہتا۔ اب دن ا ور رات اسی کے پاس جانے کی تگ و دو میں مصروف ملتا۔ ایک رات اس کے حسن اور سیمین بدن کی نزاکتوں سے متاثر ہو رہا تھا۔ بڑی آہستگی سے اس کے قریب کھسک آیا اس کے منہ کو اپنی ہتھیلیوں میں سجا کر بولا ”مجھے تم سے بہت محبت ہے۔ جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو میں نے کسی اور کی طرف دیکھا بھی نہیں۔“

”تم جا نتے ہو، میں کون ہوں؟“

”ہاں مجھے پتا ہے، تم مخنث ہو۔ پھر کیا ہے؟ قدرت نے اگر تمہیں نامکمل بنا یا ہے تو مجھے ایسے ہی قبول ہو۔“

”میں نامکمل نہیں لیکن رہتل اور سماج نے جو شناخت دی ہے وہ مجھے پسند نہیں۔ میں منفرد ہوں۔ میری اپنی شناخت ہے۔ اپنی پہچان کے لئے میں کسی مرئی یا غیر مرئی طاقت کی لگائی گئی ریکھاؤں کی پا بند نہیں۔ میری جنسیت میرے شعور کی تابع ہے۔“

”مجھے صرف تمہاری ضرورت ہے۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں کہ تم کیا ہو۔“ زماں خان نے اسے پکڑ کر اپنی گود میں گرا لیا۔

سندری نے غصے سے اسے دھکا دیا اور بولی ”میں انسان ہوں طوائفوں کی طرح جنسی مشین نہیں جس سے جو چاہے متمتع ہو سکتا ہے۔ میں من موجی ہوں، شوقیہ ناچتی ہوں اورمیرا یہ روپ میری ذاتی پسند ہے۔ میں جو کرتی ہوں اپنے لئے کرتی ہوں۔ میں جسم فروش نہیں۔“

وہ اس کے ساتھ چمٹ گیاکہنے لگا ”اپنے عاشق کو ایسے نہ دھتکا رو۔ میرے پاس جو کچھ ہے تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا۔“

”جنسیت کے رسیا، میاں! عاشق بننا منہ کو نوالہ نہیں۔ جاؤ! اپنے گھر کی راہ لو، طوائفوں پر اپنی دولت نچھاور کرو۔ تم کچھ بھی نہیں ہو۔ بڑے بڑے امرا و رؤسا کو ہم اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہیں۔

ہم تو وہ جنہوں نے قدرت کی ودیعت کی ہوئی اس دھن دولت کو، جس پر تم نازاں ہو، ٹھکرا دیا ہے۔ ہم ماورا ہیں عورت اور مرد کی قید سے۔ ہم ہیں، فقیر کے قول کی مجسم تفسیر۔ ”

وارث شاہ میاں لے کے چھری کائی، وڈھ دور کرو ایس بوٹڑی نوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments