وہ ایک جیتی جاگتی حسین و خوبصورت انسان ہے


کتنی خوش تھی وہ جب اس کی شادی ہوئی۔ جب اس کو مایوں کا پیلا جوڑا پہنایا گیا اورپھوپھو جو فیصل آباد کے مشہور کپڑا بازار سے اس کے لیے گوٹے کناری سے کڑھے ہوئے مہندی کے جوڑے کے لیے ست رنگی دوپٹہ لائی۔ اس دوپٹے پر تو جیسے اس کا دل ہی رک گیا ہو۔ کہاں سوچا تھا کہ کبھی ایسا فیشن ایبل دوپٹہ وہ ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں اپنی زندگانی میں اور وہ بھی اتنے خاص موقع پر زیب تن کرے گی۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس خوبصورت دوپٹے میں اپنے سانولے سے حسن کو کیسے سراہے اور کبھی اس خیال سے اس کے گال اور بھی سرخ ہو جاتے کہ اس کا ہمسفر اس کے اس حسن کو کتنی شدت سے سراہنے والا ہے۔

اس کا سانولا سا پر کشش حسن کتنے کروڑ ستاروں کی روشنی کو پھیکا کر دیتا ہے۔ اس کو اپنے اس حسن کا کوئی غرور بھی نہیں تھا۔ اس نے کبھی نہیں یہ سوچا تھا کہ اس کا یہ حسن کس خوش قسمت کے حصے میں آ رہا ہے۔ اگر وہ خوش قسمت انسان ساری زندگی بھی اس کے حسن پرصدقے واری جائے تو کم نہ ہوگا۔ وہ کبھی خود کو دیکھتی تو کبھی دوپٹے کو اور کبھی تیز رنگولی مہندی کی خوشبو سے مہکتے ہاتھوں کو دیکھتی اور اپنی سکھیوں کی اس بات کویاد کرکے اور بھی شرمانے لگ جاتی کہ جس کی مہندی رنگولی ہو اس کا شوہر اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے۔

اپنی زندگی کے اس خاص موقع پر اس کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ وہ پیا گھر سدھار رہی تھی اور یہ اس کی زندگی کا وہ واحد موقع تھا جب اس کو سجنے سنورنے کا موقع دلی خوشی سے دیا گیا تھا۔ وہ بچپن سے جوانی تک ہار سنگھار سے میں بہت دلچسپی رکھتی تھی مگر اس کو کبھی بھی اتنی اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی لمبی گھنیری زلفوں کو کھول کر اپنے گاؤں میں شیشم کے درخت سے بندھی پینگ پر بیٹھ کر ہواؤں میں اڑ سکے۔ وہ عروسی جوڑا پہنے جب سب مہمانوں کے سامنے آئی تو اس کے ہونے والے شوہر کی آنکھیں جیسے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں سرخ اور نیلے رنگ کے امتزاج سے خوبصورت جوڑے میں وہ ہر دید کو پتھر بنا رہی تھی۔

ارد گرد سے جو آوازیں اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں وہ یہ تھیں کہ اتنی خوبصورت دلہن ہم نے پورے گاؤں میں نہیں دیکھی، کیا ہوا جو سانولی ہے مگر آج تو جیسے سارا حسن صرف اسی کو مل گیا ہو اور دیکھو تو جب شرماتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے اپنا حسن بانٹ رہی ہو۔ جب وہ اپنے شوہر کے گھر پہنچتی ہے اور اپنے کمرے میں پڑی ہر چیز کو دیکھتی ہے جو اس کے باپ نے اس کے جہیز میں دی ہوتی ہے اور خودسے وعدہ کرتی ہے کہ باپ کی محنت سے کمائی ہوئی ہر چیز کو وہ سینے سے لگا کر رکھے گی اور شوہر اور اس کے گھر والوں کی خدمت میں دن رات ایک کرنے کا عہد کر لیتی ہے تا کہ اس کے باپ کا سر کبھی بھی اپنی بیٹی کی وجہ سے جھکنے نہ پائے۔

دروازہ کھلنے کی آواز سے وہ سمٹ سی جاتی ہے۔ اس کا شوہر جب قریب آکر بیٹھتا ہے تو اس کی دھڑکن تیز ہوتی ہے وہ خود میں اور بھی سمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ شوہر کے سلام کرنے پر اس کی دھڑکن رکنے سی لگ جاتی ہے ایک لمحہ اسے لگتا ہے وہ بیہوش ہو جائے گی بہت ہمت اکٹھی کرتے اپنے خشک حلق سے وہ سہمی سی آواز میں جب سلام کا جواب دیتی تو اس کو اپنے سر سے ایک بہت بڑا پہاڑ سرکتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک اجنبی مرد جو کہ اب اس کا شوہر بن چکا ہے اس کے سامنے اس طرح بیٹھنا کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ وہ جو خوشی اس کو ہواؤں میں رکھے ہوئے تھی کہ شوہر کے ڈر سے ساری ہوا ہو گئی۔ اس کو لگا جیسے ساری ذمہ داری صرف اس کے کمزور کندھوں پر آ گئی ہو۔ لیکن پھر بھی اس کو اپنے آپ سے کیا ہوا عہد یاد آ گیا اور وہ مسکرادی۔

شادی کو ابھی پانچ ماہ گزرتے ہیں کہ وہ اس ذہنی تکلیف سے گزرتی ہے کہ ابھی تک تم نے مجھے کوئی اچھی خبرکیوں نہ سنائی جیسے بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داری صرف عورت کی ہو اور مرد کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سارا دن شوہر اور اس کے گھر والوں کی خدمت گزاری میں نکل جاتا اوراسے اپنا کوئی ہوش نہ باقی رہتا۔ یہ ذمہ داری روز بروز اتنی بڑھ گئی کہ شادی کے بعد پہلی عید آنے کی خوشی کو وہ بس خدمت گزاری میں بھول بیٹھی۔ ایک دن سب گھر والے جب عید کی خریداری کے لیے بازار جانے کی تیاری کرتے ہیں تو اس کا دل بھی مچلتا ہے کہ میں بھی بازار جاؤں کیونکہ شادی کے بعد وہ اپنے میکے جانے کے لیے بھی گھر سے نہ نکلی۔

جب سب چلے جاتے ہیں اور کوئی بھی اس سے نہیں پوچھتا کہ تمہیں اگر کچھ چاہیے ہو تو تو بتادو۔ اس بات سے وہ بہت اداس ہوتی ہے اپنے میکے کا گھر یاد آتا ہے جب وہ چاند رات بہت خوش ہوتی تھی کہ وہ اپنی سہیلیوں سے ململے گی مہندی لگائے گی اور چوڑیاں پہننے کا موقع ملے گا۔ سادہ سہی مگر ایک نیا جوڑا ملے گا جس کو پہن کر وہ بہت احتیاط اور سلیقے سے کام کیا کرتی تھی۔ لیکن سسرال میں یہ اس کی پہلی عید تھی اور اس کے لیے سادہ جوڑا تونہ سہی مگر کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ تمہارا میکے جانے کو دل کرتا ہے؟

کوئی پوچھے گا بھی کیوں اگر وہ چلی جائے گی تو گھر کا کام کون دیکھے گا۔ تازہ کھانا کون بنائے گا؟ ہر وقت ساس اور سسر کی پہلی آوازپر حاضری کون دے گا؟ سب کے کپڑے کون دھوئے گا اور پھر وقت سے پہلے استری کرکے کون دے گا؟ انہی سوچوں میں وہ گم ہوتی ہے جب اس کو دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے اور وہ خوشی سے نہال ہوئے جاتی ہے یہ دیکھ کر کہ اس کا ماموں اور بہن اس کو ملنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اس کو عید سے ایک دن پہلے عید کا سماں لگ رہا ہوتا ہے۔

ماموں اور بہن سے شکوہ کرتی ہے کہ آپ لوگ اتنے وقت بعد ملنے آئے ہو مجھے لگ رہا ہے جیسے میری عید آج ہی ہوگئی ہے اس کا ماموں ہنستے ہوئے کہتا ہے تمہارا ماموں تمہیں لینے آیا ہے تا کہ تمہیں بازار لے کر جاؤں اور عید کے لیے نئے کپڑے بھی خرید کر دوں۔ تمہارے امی ابو تو کل آئیں گے مگر مجھے آج بھیج دیا ہے آخر کو یہ ہماری بیٹی کی پہلی عید ہے۔ اپنے شوہر کی اجازت سے جب وہ اپنے ماموں کے ساتھ جاتی ہے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے۔

ماں باپ سے ملنے کی خوشی کا خیال اسے پاگل کیے جا رہا تھا کتنا انتظار تھا اسے اس لمحے کا اور اب وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ ماموں اور بہن کے ساتھ جب وہ موٹر سائیکل پر بازار جا رہی تھی تو دل میں اپنے شوہر کے لیے پہلی عید کا تحفہ خریدنے کا سوچ رہی تھی جب ایک تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے سارا منظر بدل گیا۔ وہ کسی دور سڑک کنارے جا گری جہاں کسی کو اس کی آہ بھی سنائی نہ دی دھندلی آنکھوں اور تکلیف کی شدت میں اسے بس اتنا محسوس ہوا کہ اس کے جسم کا نچلا حصہ کٹ چکا ہے یا ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں ہے۔ اس نے خود کو بالکل کسی صحرا میں پڑے نومولود پیاسے بچے کی طرح پایا جس کی ماں اس کو جنم دیتے مر جاتی ہے اور آسماں میں اڑتے ہوئے گدھ موت بن کر اس کے سر پر منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بند ہہوجاتی ہیں۔

وہ عید کا دوسرا دن تھا جب اس کو ہوش آیا اور اس نے خود کو سفید دیواروں والے کمرے میں پایا۔ اور جب اس نے ہلنے کی کوشش کی تو درد سے کراہ اٹھی درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ پھر بیہوش ہو گئی۔ اس دوران اس کے ماں باپ جس قیامت سے گزر رہے تھے یہ بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ نو بیاہی بیٹی کی ایسی حالت ان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی اوپر سے عید کی چھٹیوں پر کوئی ڈاکٹر نہ موجود تھا اور جو تھے وہ ان کو سن نہیں رہے تھے۔ بیٹی کا دکھ کم نہیں تھا کہ ماں کو اسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوازخمی بھائی بھی دکھائی دے رہا تھا خوش قسمتی سے چھوٹی بیٹی کو زیادہ چوٹیں نہیں آئی تھیں۔

عید کی چھٹیاں ختم ہونے پر جب ڈاکٹرز واپس ڈیوٹی پر آئے تو ان غریبوں کے پرسان حال ہوا۔ ڈاکٹرز نے پہلی فرصت میں سانولی حسینہ کا آپریشن کا اجازت نامہ دستخط کروایا اور اس کا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس دوران ماں باپ اپنے داماد سے رابطہ کرتے رہے مگر وہ نہیں آیا۔ شریف ماں باپ پر وقت کے اور کتنے ستم باقی تھے۔ جب سانولی حسینہ کو ہوش آیا تو اس کو بتایا گیا کہ حادثے کے دوران اس کے کولہے کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ایک ٹانگنگ بھی ٹوٹ گئی ہے۔

عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ڈاکٹر موجود نہیں تھے اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے تمہاری ٹانگ میں انفیکشن اس قدر بڑھ گیا کہ آپریشن کے دوران تمہاری ایک ٹانگ کو کاٹنا پڑا۔ یہ حقیقت اس کے لیے ناقابل برداشت تھی اس کی آنکھوں سے آنسو نہ رکے اور کچھ دیر بعد اس نے روتے ہوئے یہ کہا کہ مجھے میرے شوہر سے ملوا دیں۔ اس کے باپ کو بہت خوشی ہوئی کہ اس کی بیٹی نے اتنے دن بعدکوئی بات کی ہے وہ اپنی بیٹی کی آواز سن کر رو پڑا اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے داماد کا نمبر ملانے لگ گیا۔

دوسری طرف شوہر کی آواز سنتے ہی اس کے آنسو تواتر سے بہنے لگ گئے اور صرف اتنا ہی کہہ سکی کہ اس سے پہلے میں مر جاؤں مجھے ایک بار آکر دیکھ لو۔ دس دن اسپتال کی سفید چھت اور دیواروں کو دیکھتے شوہر نامدار کے انتظار میں گزار دیے اور جب وہ آیا تو اس سانولی حسینہ کے حلق سے پانی کا قطرہ اترا۔ باپ نے بہت منت سماجت کی داماد کی مگر وہ اس کی بیٹی کو زندگی کی بھیک بھی نہیں دینا چاہتا تھا۔ جب بیٹی کو لے کر اسپتال سے گھر آیا تو اس کو بہت انتظار تھا کہ داماد آئے گا اور بیٹی کی تکلیف کم ہوگی۔

سانولی حسینہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی ایک لمحے میں بدل جائے گی اور وہ صرف انتظار کے کرب میں رہے گی۔ رشتہ دار آتے اس کے نصیب پر نوحہ کناں کرتے اور چلے جاتے اور اس کی اذیت میں اور اضافہ کرکے چلے جاتے۔ باپ کے لیے یہ ایک کٹھن امتحاں بنتا جا رہا تھا۔ پھر اک اور قیامت نے دستک دی کہ داماد صاحب نے پنچایت میں بلا کر طلاق نامے پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی میرے قابل نہیں رہی وہ بچہ پیدا نہیں کر سکتی میری خدمت نہیں کر سکتی بلکہ مجھے ان کی بیٹی کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی اور میں ساری زندگی اس بوجھ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا میں ان کی بیٹی کی خدمت کیوں کروں اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ بوجھ والدین اٹھائیں۔ لہذا آج کے بعد سے میں ان کی بیٹی کے کسی بھی علاج یا کسی بھی خدمت گزاری کا پابند نہیں ہوں۔

جس کا خوف تھا وہ ہوگیا۔ اس کی زندگی میں اب ایک ہی خوف تھا کہ وہ ایک مکمل دنیا میں کیسے خود کو مکمل ثابت کر سکے گی۔ وہیل چئیر یا بیساکھی کا سہارا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے وہ کیسے یہ بھول کر زندگی کے حسن کو دیکھے گی کہ اس کے ساتھ جو ہوا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کے یہ لفظ کب بدلیں گے کہ سب کچھ بھول کر کیسے آگے بڑھوں گی کس کے لیے آگے بڑھوں گی کیا میں شوق سے اس حالت کی ذمہ دار ہوں؟

اس کے پاس کپڑے سلائی کرنے کا بہت اچھا ہنر ہے مگر وہ کیسے آگے بڑھے وہ جاری سانسوں کے ساتھ کیسے مر سکتی ہے؟ ہم سب کو اپنے ارد گرد ان تمام انسانوں کو مکمل ہونے کا احساس دلانا ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک مکمل انسان کی حیثیت سے زندہ ہیں اور ایک مکمل انسان کی طرح زندگی گزارنا بھول رہے ہیں۔

جب تک انسان زندہ ہے اس کی معذوری اس کی کمزوری نہیں بن سکتی اور خاص کر اس سانولی حسینہ کی زندگی بہت حسین ہونی چاہیے جتنی وہ خود حسین ہے اتنی حسین زندگی گزارنا تو اس کا حق ہے۔ ہم سب کو اپنے ارد گرد اییسے حسین لوگوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری زندگی میں مزید حسن آئے۔ اور میں بہت فخر سے کہتی ہوں کہ میری زندگی ایسے لوگوں سے بہت حسین ہو چکی ہے کہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ تم اگلی بار کب ملنے آؤ گی۔ میری وجہ سے ان کی زندگی میں ابھی تک ہزاروں تو نہیں مگر سینکڑوں مسکراہٹیں موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments