خواتین کا جنسی استحصال: مصر میں قانون کی تبدیلی کے بعد استحصال کا شکار بننے والوں کو شناخت خفیہ رکھنے کی اجازت


مصر

مصر میں جنسی استحصال کا ایک بڑا واقعہ سامنے آنے کے بعد قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت جنسی استحصال کا شکار بننے والے افراد کو اب اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی اجازت ہو گی۔ حال میں سامنے آنے والے کیس میں کئی خواتین نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے ایک طالبعلم پر جنسی حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔

مصر میں پیش کیے جانے والے نئے قانون میں تجویز دی گئی تھی کہ جنسی استحصال کا شکار بننے والے افراد کی شناخت صرف عدالت کے سامنے ظاہر کی جائے گی یا اس حوالے سے مدعا علیہ کو صرف درخواست دینے کی صورت میں بتایا جائے گا۔

ایک تحقیق کے مطابق مصر میں جنسی استحصال کے واقعات معمول کی بات ہیں لیکن خواتین کو اکثر اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ شکایت درج کروائیں گی تو انھیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔

مقامی میڈیا کے مطابق مصر کی کابینہ نے شناخت چھپانے والے بل کی منظوری دے دی ہے۔

کیس سامنے کیسے آیا؟

معاملے کا آغاز اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر ایک مہم چلی جس میں چند خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ جنسی بدسلوکی کے واقعات کے بارے میں ذکر کیا۔

گذشتہ ہفتے انسٹاگرام پر ایک نیا اکاؤنٹ بنایا گیا جس کا نام تھا ’اسالٹ پولیس‘ جس پر مختلف خواتین کی جانب سے ایک ’امیر گھرانے‘ سے تعلق رکھنے والے طالبعلم احمد بصام زکی کے خلاف ریپ، جنسی ہراسانی اور بلیک میل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔

احمد زکی کو ان الزامات کے بعد گرفتار کر لیا گیا اور پیر کو مصری حکام نے ان پر تین خواتین پر جنسی حملے کرنے کا الزام لگایا، جن میں سے ایک پر انھوں نے یہ حملہ اس وقت کیا تھا جب وہ خاتون نابالغ تھیں۔

مصر

احمد زکی پر الزامات ہیں کہ انھوں نے سنہ 2016 سے سنہ 2020 کے دوران ’دو خواتین کے ساتھ اُن کی مرضی کے بغیر زبردستی سیکس کرنے کی کوشش کی اور دونوں پر حملہ کیا۔‘

حکام کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق احمد زکی نے تسلیم کیا کہ انھوں نے چھ خواتین کے ساتھ سوشل میڈیا پر رابطہ کیا اور ان خواتین کی تصاویر اُن سے حاصل کیں اور جب ان خواتین نے رابطہ ختم کرنے کی بات کی، تو احمد نے دھمکی دی کہ وہ ان کی تصاویر ان خواتین کے گھر والوں کو بھیج دیں گے۔

تاہم مقامی میڈیا کے مطابق احمد زکی نے دیگر الزامات مسترد کیے ہیں۔

اب تک رد عمل کیا سامنے آیا ہے؟

اس کیس کے سامنے آنے کے بعد سے اسے میڈیا پر کافی تشہیر مل رہی ہے اور مختلف قومی ادارے بھی اس کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔

ملک میں اسلامی قوانین کے سب سے معتبر ادارے جامع الااظہر نے اپنے بیان میں خواتین کو کہا ہے کہ ایسے واقعات کی صورت میں اسے ضرور رپورٹ کریں کیونکہ ان کا خاموش رہنا سماجی مسائل پیدا کر سکتا ہے اور اس سے خدشہ ہو گا کہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

’خواتین کیا پہنتی ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کی آزادی اور عزت اور ان کے نجی معاملات پر ایسے کیچڑ اچھالا جائے۔’

سماجی کارکنوں کو امید ہے کہ موجود عوامی حمایت شاید خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کو بدلنے میں ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

مصر

صحافی ریم عبدالطیف، جنھوں نے اپنے والد پر جنسی بدسلوکی کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور بعد میں ان کے گھر والوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا، نے بھی ان خواتین کو حمایت کا پیغام دیا۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’یہ لڑکیاں جو کھل کر اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذکر کر رہی ہیں اور انھیں حمایت مل رہی ہے، میں نے یہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘

لیکن ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ہی کئی ایسے صارفین بھی ہیں جو احمد زکی پر الزامات عائد کرنے والی خواتین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں اور ساری غلطی اُن ہی کی ہے۔

مصر میں جنسی ہراسانی اور حملے کتنی معمول کی بات ہے؟

سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ اعداد و شمار سامنے آئے کہ مصر میں 99 فیصد خواتین نے اپنے ساتھ کسی نے کسی طور پر جنسی ہراسانی کے واقعات کا سامنا کیا ہے، چاہے وہ جسمانی ہراسانی ہو یا زبانی۔

جنسی ہراسانی کو سنہ 2014 میں جرم قرار دیا گیا تھا لیکن سماجی کارکن کہتے ہیں کہ ایسے مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنا بہت دشوار ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کہتے ہیں کہ خواتین کو ایک قدامت پسند معاشرے کی رسومات توڑنے کی سزا ملتی ہے۔

موجودہ حالات میں بھی کئی خواتین کو ’فحاشی پھیلانے‘ کی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔

صرف گذشتہ ہفتے خبروں کے مطابق ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر ہدیر سل ہادی کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ انھوں نے ’نامناسب اور فحش ویڈیوز‘ انٹرنیٹ پر پوسٹ کی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp