راجا داہر کی محبت میں مقدس ہستیوں کو چارہ نہ بنائیں!


محمد بن قاسم دریائے سندھ کے کنارے کھڑا تھا اور اس کی نظریں دریا کے اس پار موجود ایک عظیم الشان قلعے پر گڑی ہوئی تھیں۔ یہ قلعہ اس کے لیے مزید فتوحات کی راہ میں مزاحم ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ وہ جب بھی پیش قدمی کا ارادہ کرتا اس قلعے سے ان پر آگ کے گولوں اور پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی۔ اس پار جانے کا راستہ بھی موجود نہیں تھا اور نہ ہی پل بنانے کا وقت اور موقع۔ آخرکار اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔

تمام سپاہی میدان میں جمع ہو چکے تھے اور ان کے کانوں میں محمد بن قاسم کی ایمان افروز آواز گونج رہی تھی: میرے سپاہیو! مجھے اتنا بتاؤ کیا بحر اور برکا خدا ایک ہی ہے یا سمندر کا خدا الگ ہے اور خشکی کا خدا الگ؟ یہ کہہ کر وہ ان کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ ”دونوں کا خدا ایک ہی ہے امیر محترم!“ تمام سپاہیوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔ یہ سن کر محمد بن قاسم بولا: اگر ایسی بات ہے تو دشمن پر ٹوٹ پڑو اور یہ یقین رکھو کہ جس خدا نے ہمیں خشکی میں ذلیل و رسوا نہ کیا وہ اس سمندر میں بھی ہمارے لیے راستے ہموار بنائے گا۔

اس کی تقریر میں کوئی ایسا جادو میں تھا کہ مسلمان لشکر ایسے ہی سمندر میں اتر گیا اور پھر آسمان نے ایک عجب نظارہ دیکھا کہ مسلمان سمندر میں ایسے چلے جا رہے تھے جیسے زمین پر چل رہے ہوں۔ دوسری طرف موجود ہندوؤں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے قلعے کے دروازے کھول دیے اور یوں وہ قلعہ جسے مسلمان کئی دن تک بزور بازو فتح نہ کر سکے تھے اسے قوت ایمانی سے بغیر خون بہائے فتح کر لیا۔

جب سے ارطغرل نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں عظمت رفتہ کا احساس اور ملی تفاخر کا جذبہ بیدار کیا ہے، ان کا اپنے ماضی سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑا ہے اور ان کے دلوں سے یورپی رعب کو کافور کیا ہے تب سے محمد بن قاسم کی ذات بھی ایک بار پھر موضوع بحث بن چکی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کا ہیرو وہ نہیں بلکہ راجا داہر ہے۔ اس مقصد کے لیے نظریاتی حملے کئی اطراف سے جاری رہے ہیں لیکن اس بار کہا گیا کہ محمد بن قاسم کے برصغیر پر حملے کا مقصد اسلام کی اشاعت نہیں بلکہ اہل بیت کے ان افراد کو واپس لے جا کر انہیں خلیفہ کے حوالے کرنا جو وہاں سے بھاگ آئے تھے اور راجا داہر نے انہیں پناہ دے رکھی تھی۔

میں نے اس پر ایک کالم بعنوان ”محمد بن قاسم سندھ کیوں آیا تھا؟“ میں اس دعوے کی قلعی کھولی اور یہ واضح کیا کہ تاریخی اور منطقی دونوں لحاظ سے یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ اس پر لوگوں کا ردعمل دیکھ کر خوشی ہوئی کہ علمی قحط کے اس دور میں دنیا ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہیں اور ہر واقعے کو محض نسلی یا لسانی عصبیت کی بجائے حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ اسی بات پر فنی حوالے سے بھی ایک دو باتیں ذکر کر دی جائیں تا کہ الجھن مزید کافور ہو سکے۔

تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ حضرت عمر کے دور میں حضرت عثمان بن ابوالعاص الثقفی، حضرت حکم بن ابوالعاص الثقفی، حضرت مغیرہ بن ابوالعاص الثقفی، حضرت ربیع بن زیاد الحارثی، حضرت حکم بن عمرو الثعلبی، حضرت عبداللہ بن عبداللہ الانصاری، حضرت سہل بن عدی، حضرت شہاب بن مخارق التمیمی، حضرت صحار بن عباس، حضرت عاصم بن عمرو التمیمی، حضرت عبداللہ بن عمیر الاشجعی اور حضرت نسر بن وسیم العجلی نامی بارہ صحابہ، حضرت عثمان غنی کے دور میں حضرت حکیم بن جبلہ، حضرت عبیداللہ بن معمر، حضرت عمیر بن عثمان، حضرت مجاشع بن مسعود اور حضرت عبدالرحمان بن سمرہ نامی پانچ صحابہ، حضرت علی کے دور میں حضرت خریت بن راشد، حضرت عبداللہ بن سوید اور حضرت کلیب ابووائل نامی تین صحابہ، حضرت معاویہ کے دور میں حضرت مہلب بن ابی صفرہ، حضرت عبداللہ بن سوار، حضرت یاسر بن سوار اور حضرت سنان بن سلمہ نامی چار صحابہ کرام اور یزید بن معاویہ کے دور میں حضرت منذر بن جارود نامی ایک صحابی برصغیر میں تشریف لائے۔

بلکہ اس کے علاوہ تاریخ نے ان بیالیس تابعین اور اٹھارہ تبع تابعین کے نام بھی محفوظ رکھے جو مختلف ادوار میں برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے۔ اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ تاریخ نے نبی کریم ﷺ سے تعلق رکھنے والے صحابہ، صحابہ سے تعلق رکھنے والے تابعین اور تابعین سے تعلق رکھنے والے تبع تابعین کے نام، ان کے حالات زندگی، ان کی نقل و حرکت بلکہ ان سے جڑے ہوئے ایک ایک واقعہ کی تفصیلات و جزئیات تو یاد رکھی ہو لیکن نبی کریم ﷺ کی اولاد کی نقل و حرکت پوشیدہ رہی ہو جبکہ اسلام میں اس طرف خصوصی توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں علم الانساب اور علم الرجال نامی ایک باقاعدہ فن وجود میں آیا اور نبی کریم ﷺ کے تین چار سو سال بعد تک کے ایسے لوگوں کے حالات کو بھی قلم بند کیا گیا جن سے آپ ﷺ کے کسی قول، فعل، تقریر یا حال کا تذکرہ وابستہ تھا۔

اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث کے چوتھی پانچویں صدی تک کے راویوں کے حالات تو محفوظ رہیں اور آپ ﷺ کے اہل بیت اور وہ بھی امام حسن اور امام حسین جیسی شخصیات کے بیٹے پچانوے ہجری میں سندھ آ کر راجا داہر کے ہاں پناہ لیں یا سندھ آ کر واپس بھی چلے جائیں اور کسی کو معلوم بھی نہ ہو؟ یاد رہے کہ پناہ لینا تو ایک غیرمعمولی واقعہ ہے صحابہ کرام، تابعین یا تبع تابعین نے اگر محض تجارت یا تبلیغ کی غرض سے بھی سندھ کا سفر کیا تو علماء نے اسے بھی محفوظ کیا کیونکہ یہ کوئی عام ہستیاں نہیں تھیں۔

چونکہ ان کے اقوال و افعال سے اسلام کو سمجھا جانا تھا اور بہت سے مسائل میں انہیں دلیل بننا تھا لہذا ان کی ایک ایک حرکت کو لوگ بہت دلچسپی سے دیکھتے تھے اور لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے ایسا ایسا کیا اور فلاں فلاں جگہ قیام کیا یا سفر کیا۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل بیت نے پناہ لی ہو اور یہ غیرمعمولی بات تذکرہ نویسوں، مؤرخین اور اسماء الرجال کے ماہرین کی آنکھ سے اوجھل رہی ہو؟

میں نے پچھلے کالم میں اس بات کی وضاحت کی کہ اس ”شرلی“ کا مقصد اہل بیت کے مقدس نام کی آڑ میں محمد بن قاسم کو ولن بنانا تھا تا کہ راجا داہر کو محب اہل بیت ثابت کر کے لوگوں کے دلوں میں ایک نرم گوشہ پیدا کیا جا سکے جو مستقبل میں اسے ہیرو بنانے کے کام آئے گا لیکن افسوس کہ ان کی کوشش پہلے مرحلے میں ہی ناکام ہو گئی اور کوئی ایک روایت بھی معلوم نہ ہو سکی جس سے راجا داہر کے ہاں پناہ لینا تو دور کی بات ہے فقط یہ بھی معلوم ہو سکے کہ امام حسن یا امام حسین کے اولاد یا پوتوں میں سے کسی ایک نے بھی 41 ہجری سے 95 ہجری کے دوران سندھ کا سفر کیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments