چند کنجوس لوگوں کے قصے


سوال یہ ہے کہ یہ ساری مثالیں کیا بات ثابت کرتی ہیں اور علم نفسیات اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟ اگر ڈارونؔ کے ارتقائی تناظر میں اس مظہر پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کئی جانور بھی اشیا جمع کرتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ عمل صریحاً اس وجہ سے ہوتا ہے کہ جب سخت موسم ہو گا تو وہ اس غذا کو استعمال کر لیں گے۔ جانور کبھی اس سے زیادہ جمع نہیں کرتے جتنا وہ کھا سکیں۔ تو اگر جانور ہمارے رشتہ دار بھی ہوں تو بھی کنجوسی خالصتاً انسانی وصف ہے۔

گورڈن آل پورٹ ’فنکشنل آٹونومی‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ یعنی کوئی عمل ابتدا میں کسی مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ مجبوری ختم ہو جاتی ہے مگر انسان وہی عمل دہراتا رہتا ہے کیونکہ اس عمل میں اس کو مزہ آنے لگتا ہے۔ گورڈن شکار کی مثال دیتا ہے۔ ابتدائی ادوار میں انسان شکار اس لیے کیا کرتے تھے کہ مجبوری تھی لیکن آج کے دور میں شکار تفریح کی غرض سے ہوتا ہے۔ اسی طرح کنجوسی بھی ابتدا میں مجبوری اور غربت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لیکن بعد میں ایک شوق بن جاتی ہے۔ ویسے بھی کرنسی نوٹ کوئی ایسی شے نہیں جو کسی صورت میں کھائی جا سکے۔ اس کی مدد سے چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ ایک حد سے آگے پیسہ انسان نہ اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے نہ اپنے گھر میں۔ وہ محض ایک بینک اسٹیٹمنٹ بن جاتا ہے جو صرف ایک نفسیاتی حقیقت کے طور پر انسان کے دماغ میں رہتا ہے۔

بڑی تعداد میں لوگ پیسے برے وقت سے بچنے کے لئے جمع کرتے ہیں۔ لیکن اصل برے وقت میں پیسہ کچھ خاص کام نہیں آتا۔ بڑی حد تک پیسہ بھی صرف اچھے وقت میں ہی کام آتا ہے۔ پھر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو پیسہ اپنی اولاد کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی حد تک ایک نفسیاتی تاویل کے علاوہ کچھ نہیں۔ اولاد بھی تو والدین کی طرح ہی سارے حواس اور عقل لے کر دنیا میں آئی ہے تو اسے اس بات کی معذوری کیوں ہو کہ والدین اس کے لئے کمائیں؟ اور نا اہل اولاد ماں باپ کا کمایا بھی گنوا دیتی ہے۔

انسان کی کمائی ہوئی وہ تمام دولت جو کہ زندگی میں اس کے کام نہ آئے اس کے لئے بیکار ہی نہیں بیگار بھی ہے۔ برصغیر میں کنجوسی بڑی حد تک ایک قومی خصلت بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق کے بعض مذاہب میں دولت کی عبادت بھی ہوتی ہے۔ بہت سی قومیتوں میں نسل در نسل لاشعوری طور پر دولت کی یہ تکریم منتقل ہوتی ہے۔ کارل ینگ کی زبان میں بات کی جائے تو کنجوسی ایک حقیقی نمونہ (آرکی ٹائپ) ہے جو کہ دولت کی عبادت کی روایت سے ماخوذ ہے۔ دور قدیم سے آئی کنجوسی کی روایات کو دور جدید کی مسابقت اور خودغرضی سے ایک بھیانک سطح تک بڑھادیا ہے۔ لوگ پیسے جدید سرمایہ دار دنیا کی طرح کمانا چاہتے ہیں لیکن جمع دور قدیم کے بنیوں کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ انتہائی مفلوک الحال نظر آنے والے لوگ جب مرتے ہیں تو ان کے تکیہ غلاف نوٹوں سے بھرے نکلتے ہیں اور بینک کے کھاتے میں دو ڈھائی کروڑ نکل آتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب صورتحال ہے؟ یہ کیسی زندگی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments