کرامت علی: راہ گزر تو دیکھو


1968۔ 70 کے دوران کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کا راج تھا۔ سات سال قبل حسین نقی کے این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے جیتنے کے بعد سے جمعیت یونین کے الیکشن جیتتی چلی آ رہی تھی۔ این ایس ایف دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کاظمی گروپ اور رشید گروپ۔ لیکن یونیورسٹی سے باہردنیا بدل رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور اس کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ عوام کے لئے مقناطیسی کشش کا حامل تھا۔ کرامت علی اس زمانے میں جناح کالج میں پڑھتے تھے لیکن ان کا زیادہ وقت کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف رشید گروپ کے دوستوں کے ساتھ گزرتا تھا۔

ہم گنتی کے چند لوگ تھے لیکن جمعیت کو زچ کر کے رکھتے تھے۔ جو واقعہ میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں۔ اس کا تعلق کانووکیشن سے ہے۔ چند سالوں سے یہ تقریب منعقد نہیں ہوئی تھی۔ این ایس ایف کا نعرہ تھا۔ ”ہمیں ڈگریاں نہیں۔ نوکریاں چاہئیں“ ۔ جب کانووکیشن کے انعقاد کا اعلان ہوا تو این ایس ایف نے اس تقریب میں ہنگامہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کو یہ سن کر ہنسی آئے گی کہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری صرف تین لڑکوں نے سنبھالی تھی، کرامت علی، رشید رضوی اور عابد علی سید۔ لڑکیوں میں صرف میں اور نسرین تالپورتھیں۔ ہم دونوں گرلز ہاسٹل میں رہتی تھیں۔ کانووکیشن والے دن میں اور نسرین صبح صبح کانووکیشن کے لئے لگے ہوئے ٹینٹ کے سامنے پہنچ گئیں۔ ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تینوں لڑکے کہاں سے نمودار ہوں گے اور کریں گے کیا۔ ہم دونوں گومگو کے عالم میں کھڑی تھیں کہ اچانک کرامت نمودار ہوئے، انہوں نے ڈیکوریشن کے لئے رکھے ہوئے ایک گملے کو اٹھایا ہی تھا کہ بجلی کی تیزی سے جمعیت کے چار پانچ لڑکوں نے آ کر انہیں گھیر لیا اور مارنا شروع کر دیا۔

مارتے مارتے انہوں نے کرامت کو زمین پر گرا دیا۔ کرامت زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور وہ ان کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے تھے۔ پھر ان میں سے ایک نے پاس ہی رکھا ہوا ایک بھاری بھر کم پتھر دونوں ہاتھوں سے اٹھا کے کرامت کو مارنے کے لئے سر سے بلند کیا ہی تھا کہ میں نے زور سے چیخ ماری۔ اس لڑکے نے چونک کر میری طرف دیکھا اور تب انہیں احساس ہوا کہ دو لڑکیاں وہاں کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ اس لڑکے نے پتھر ایک طرف ڈال دیا اور وہ سب کرامت کو چھوڑ کے چلے گئے۔

یہ واقعہ مجھے کرامت علی کی کتاب ’رہگزر تو دیکھو‘ پڑھ کر یاد آیا۔ یہ کتاب ڈاکٹر سید جعفر احمد کے لئے ہوئے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا انتساب محنت کشوں کے نام ہے، حقوق بشر کی جدوجہد میں جن کی قربانیاں تاریخ کا سرمایۂ افتخار بنیں۔ جعفر احمد کے بقول کرامت علی کے انٹرویوز ان کی ماضی کی یادداشتوں، مشاہدات اور تجربات، نیز اس تجزیے پر مشتمل ہیں جو وہ آج ماضی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ اس نوع کی کوشش کو زبانی تاریخ Oral History کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

کرامت علی کا بچپن ملتان میں غربت میں گزرا۔ ان کے والد شیعہ مسلک سے اور والدہ سنی مسلک سے تھیں۔ کرامت اکثر پروگراموں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ اور بہنیں ہوم بیسڈ ورکرز تھیں۔ کرامت کو بچپن میں ہی مذہبی حوالے سے طبقاتی تقسیم کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ اسکول کے زمانے سے ہی طلبا یونین کی سر گرمیوں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ 1963 میں کراچی آنے کے بعد انہوں نے لیبر موومنٹ میں حصہ لیا۔ 1967 ء میں جناح کالج میں پڑھنے کے دوران ان کی اصغری جیلانی سے دوستی ہوئی اور 1970 ء میں دونوں کی شادی ہوگئی۔

اس کے بعد انہیں صادقین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا مگر اس کے بعد انہوں نے فل ٹائم ٹریڈ یونین کے لئے کام شروع کیا تو وارنٹ نکلنا شروع ہوئے اور زیر زمین رہنے کا تجربہ ہوا۔ 1975 کا سال کرامت کے لئے بہت مشکل تھا۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز والے کیس میں وہ کافی عرصہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد وہ اور شیما کرمانی لندن چلے گئے، واپس آ کے 1976 میں دونوں نے شادی کر لی۔ اور کرامت نبی احمد کی فیڈریشن میں شامل ہو گئے۔ 1977 ء میں ضیا الحق کا ٹیک اوور ہوا۔ کرامت کی رائے میں بھٹو کے ساتھ امریکہ اور فیوڈلز اور بیوروکریٹس کا اصل مسئلہ زرعی اصلاحات کا تھا۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کرامت سمیت بائیں بازو کے کچھ لوگ ماؤسٹ گروپ سے علیحدہ ہو گئے۔ اور ٹراٹسکی وادی لوگوں کے ساتھ کام شروع کیا۔ 1979 ء میں کرامت نے انٹرنیشنل مارکسسٹ گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ پھر پاکستان ورکرز ایسوسی ایشن قائم کرنے کا آئیڈیا آیا۔ اس کے بعد پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ یعنی پائیلر قائم کیا۔ کرامت اپنے ایک انٹرویو میں جعفر کو بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر تو ویژن یہ تھا کہ لیبر موومنٹ کو معاشرے میں بنیادی تبدیلی کے کام میں شامل کیا جائے۔ اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں محنت کرنے والوں کو اپنی محنت کا صحیح صلہ ملے۔ ان کو وہ تمام بنیادی حقوق و سہولتیں اور معاشی اور سماجی تحفظ فراہم ہوجو ایک منصفانہ معاشرے کا تقاضا ہے۔

یہ کتاب دس انٹرویوز پر مشتمل ہے جن میں کرامت نے بائیں بازو کی سیاست، مشرقی پاکستان کے بحران، پاکستان میں محنت کشوں کی جدوجہد۔ جنوبی ایشیا میں قیام امن کی کوششوں، گلو بلائزیشن اور عالمی مزدور تحریک کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ حرف آخر میں کرامت کہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مارکسزم کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ یا تو ہم کسی چیز کو نہیں مانتے یا ہر چیز کو عقیدہ بنا لیتے ہیں تو عقیدے کو تو جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس پر تو بغیر غور کیے، آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں بھی مارکسزم کو ایک عقیدے کی طرح سے لیا گیا۔ پھر اس کے فرقے بن گئے اور اس کے ملا بھی پیدا ہو گئے۔

کرامت کی رائے میں مارکسزم ایک مناسب اور کار آمد سائنٹفک ٹول ہے، اپنے ارد گرد کو سمجھنے کا۔ ہمیں اپنے سماج کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لئے مارکسزم سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔ پھر ہم کو اپنا ورلڈ ویو وضع کرنا چاہیے ک ایک گلوبلائزڈ دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے خطے اور اپنے ملک میں سماجی انصاف کے حامل ایک معاشرے کے قیام کے لئے کن ترجیحات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ پھر جمہوریت کا استحکام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ سماجی انصاف، غربت کا خاتمہ اور شرف انسانیت کی بحالی ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے۔ کلچر اور تعلیم انسانی معاشرے کی ترقی اور اس کو روشن خیالی سے ہم کنار کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ محنت کشوں کا کردار اور سول سوسائٹی کے اداروں کا رول اس سارے عمل میں کلیدی نوعیت کا ہو گا۔

یہ کتاب انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے شائع کی ہے جو کراچی (پاکستان) میں قائم ایک تحقیقی ادارہ ہے اور ایک متحرک، ترقی پسند اور عوام دوست وژن کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments