آئینے پر غبار رہنے دو


یونیورسٹی کے دن زندگی میں ایک الگ ہی مقام رکھتے ہیں۔ دھندلی یادوں کے بیچ واضح تصویریں لیے ، ان مٹ آوازوں اور ناقابل فراموش علمی تصورات عطا کرنے والے۔ یہاں سے زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ ایک بہت بڑے راؤنڈ اباؤٹ کی طرح یہاں سے نکلے والے رستے سب کو ان کی الگ الگ ان دیکھی دنیاؤں میں لے جاتے ہیں۔ پر ایک بات یقینی ہے کہ جو خواب آنکھوں میں لئے نوجوان یہاں قدم رکھتے ہیں وہ خواب وہیں کیمپس کی دیواروں پہ نقش کر آتے ہیں۔ کئی برس بعد اگر یہاں کبھی اتفاقاً آنا ہو تو کیمپس کا چپہ چپہ پرانی داستانیں دہراتا چلا جاتا ہے۔ مگر سننے والا وہ ہوتا ہی نہیں جس کی کہانی کیمپس سنا رہا ہوتا ہے۔

’ اس کا ایلٹی میٹ اوبجیکٹو صبا کو ایمپریس کرنا ہے‘ ۔ علی نے گردن موڑتے ہوئے حسب معمول زوردار قہقہ لگایا۔ گراؤنڈ میں دائرے کی صورت بیٹھے سب نے مڑ کر دور بیٹھے، بظاہر کتاب کے مطالعے میں مصروف، شہزاد کی طرف دیکھا اور ایک جاندار اجتماعی قہقہ فضا میں بلند ہوا۔ صبا نے بھی ترچھی نظروں سے شہزاد کی طرف دیکھا۔ ’کیوں کیا ہوا اسے؟‘ ۔ علی نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے وضاحت کی۔ ’عرف عام میں اسے دیوانگی کہتے ہیں۔ آپ کو خوش کرنے کے لئے بے چارہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ گانا بجانا چھوڑ کر پڑھائی تک پہ راضی ہو گیا ہے بے چارہ۔ ہائے رے عشق، تیرا ککھ نہ روے‘ ۔

’کم آن۔ میں نے اسے کب ایڈوائز کیا‘ ۔ صبا کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’گیٹار بیچ آیا ہے؟‘ عالیہ نے بھی شوخی سے سوال کیا۔ سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔ ’تم بھی تو بڑی ظالم ہو۔ لفٹ شفٹ جو نہیں کراتی اسے۔‘ حنا نے بھی اپنی دانش کا اظہار کرنا ضروری خیال کیا۔ ’یونیورسٹی کی سب سے حسین لڑکی، بہترین جی پیز لینے والی۔ اس پہ ایک سریلا فنکار مر نہیں مٹے گا تو اور کیا ہو گا؟‘ حنا نے آلتی پالتی سمیت اچھلتے ہوئے اپنا رخ صبا کی طرف کیا ’کتنے گانے سنائے اس نے تجھے پریوئیس ایئر کی ویلکم پارٹی پہ۔ تجھے کوئی اثر ہی نہیں۔ ہاؤ بورنگ ہے تو یار‘ ۔ حنا نے صبا کو احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ اس ظلم سے باز آ جائے مگر صبا نے ہر بار کی طرح مسکرا کے ٹال دیا۔

صبا سطحی باتوں سے کبھی متاثر نہ ہوتی تھی۔ اسی لئے شاید اسے اپنے حسن کا ایسا خاص احساس بھی نہ تھا۔ اس کے لئے ذہانت اور لیاقت قابل ستائش اقدار تھیں۔ عام لڑکیوں کی طرح یونیورسٹی میں پاپولر ہونا اس کا مطمح نظر کبھی نہ تھا مگر رب نے صورت ایسی دے دی تھی کہ اس کام کے لئے اسے بالکل محنت نہ کرنا پڑتی۔ ڈیپارٹمنٹ میں اسے کئی بار ہنسی مذاق میں یہ جملہ سننا پڑتا۔ ’آ گڈ فیس از اے گڈ ریکمنڈیشن‘ ۔ ۔ ۔ وہ یہ بات مانتی بھی تھی مگر خدا نے اسے حسن کے ساتھ ساتھ عقل و شعور بھی عطا کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ، ایک جاذبیت تھی۔

انھیں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پورا ایک سال ہو چکا تھا۔ صبا، جس پہ ہر ایک کی نظر رہتی تھی۔ وہ حسین تھی اور ذہین بھی۔ تمام خرافات سے دور رہنے کے باوجود وہ احسن کے خیال سے کبھی پیچھا نہیں چھڑا پائی تھی۔ احسن کا ٹاپر ہونا تو اس کی ایک وجہ تھی ہی، مگر جو بات صبا کو سب سے زیادہ متاثر کرتی تھی وہ تھی اس کی خاموشی۔ اس کی گہری آنکھیں جو وہ کبھی کسی سے نہ ملاتا تھا۔ کلاسکس پہ بھرپور علمی بحث کرنا، پروفیسر ز سے اپنا مطالعے کو بانٹنا، بحث کو ایک نیا رخ، نیا زاویہ دینا۔

یہ سب اس کے وہ کمالات تھے جس سے ہم جماعت ہی نہیں تمام پروفیسر بھی اس سے خوش تھے۔ اس پر کمال یہ بھی کہ اس میں اپنے علم کا کوئی تکبر نہ تھا۔ جان کیٹس کی نیگیٹو کیپیبیلیٹی ( نفیٔ ذات) کو ثابت کرنا ہو یا جان ڈن کے طرار استعاروں کی توجیہہ دینا ہو، احسن کی گفتگو پروفیسر کے لیکچر سے زیادہ پر لطف ہوتی۔ ۔ ۔ وائٹ بورڈ پہ لکھتے ہوئے ٹائم لائن کے ساتھ ادبی تحریکوں کو اس کمال سے سمجھا دیتا کہ کوئی الجھن ہی باقی نہ رہتی۔

ڈائیلاگ اس خوبی سے کرتا کہ کسی کو اپنے خیال کے رد ہونے سے تکلیف نہ ہوتی۔ ۔ ۔ اس کی بات میں ایسی دلیل ہوتی کہ سب قائل ہو جاتے۔ ۔ ۔ بس اسی وجہ سے صبا نے بھی اسے سراہنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔

مصطفیٰ بھی شاعری کی کلاس میں ہمیشہ ایکٹو رہتا۔ جان کیٹس کی نیگیٹو کیپ ایبیلیٹی کا تصور سب کو الجھا رہا تھا۔ مصطفیٰ نے سوال اٹھایا۔ ۔ ۔ ’یہ اصطلاح ایک شاعر یا لکھاری کا اپنی ذات کی نفی کرنے کا تاثر دیتی ہے جبکہ کیٹس کے خطوط پڑھے جائیں تو یوں لگتا ہے اس اصطلاح کے معنی اس سے بڑھ کر کچھ ہیں۔ یہ نظریہ کچھ مبہم ہے۔‘

احسن نے ہلکا سا ہاتھ بلند کیا تو پروفیسر صاحب نے اسے بولنے کی دعوت دی۔ ۔ ۔ ’یہ تاثر بھی درست ہے مگر نیگیٹو کیپ ایبیلیٹی کو سمجھنے کے لئے یہ بات یاد رکھئے کہ کیٹس کائنات کے، اس دنیا کے ان رازوں کو جاننے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اب تک عام ذہن سے اوجھل ہیں۔ لا علمی کی تاریک راہوں پہ نکلنے کی تحریک دیتا ہے۔ ذہن کی اس الجھن کی بات کرتا ہے جو مبہم تصورات کی گتھیاں سلجھانے کو بے چین ہو جائے۔ یہ اصطلاح بھی وہ اپنے علم طب اور علم کیمیا کی بنیاد پہ تخلیق کرتا ہے۔

جس طرح برقی رو کا نیگیٹو پول کرنٹ کو اپنی جانب کھینچتا ہے اسی طرح انسان کا ذہن بھی اس جہان کے اسرار سمجھنے کے لئے نیگیٹو پول کی طرح ہونا چاہیے کہ نئے تصورات کو اپنی جانب کھینچے‘ ۔ ۔ ۔ اپنی بات کے اختتام کی طرف مائل ہوتے ہوئے احسن نے اپنی رفتار پہلے کی نسبت کم کی۔ ۔ ’۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شیکسپیئر میں یہ صلاحیت دیکھتا ہے اور اس کا بے حد معترف ہے‘

سب دم سادھے سنتے رہے۔ بات ختم ہوئی تو گویا ہر ایک نے جھپاکے سے ایک نئی سوجھ کا ادراک کیا۔ کلاس میں مزید سوال اٹھنے لگے اور ہر ایک اس تعمیری بحث کا حصہ بنتا چلا گیا۔

احسن کی شخصیت اور علم کا رعب کچھ ایسا تھا کہ کوئی اس کے زیادہ قریب نہ جا پاتا۔ وہ بھی یا تو لیکچر لینے کلاس میں آتا یا پھر لائبریری میں ورق گردانی کرتے پایا جاتا۔ اس ایک سال کے عرصے میں صبا نے کئی بار خود احتسابی کی کہ یہ محض ایک مرعوبیت ہے یا کچھ اور؟ ہر بار وہ کچھ اور سوچتے سوچتے بہت دور نکل جاتی۔

لائیبریری میں صبا نے احسن کو اس کی مخصوص میز پہ بیٹھا دیکھا تو وہ اس طرف بڑھتی چلی گئی۔ ’آپ کتابیں پڑھنے کے علاوہ بھی کچھ کرتے ہیں؟‘ صبا نے شرارت سے کہا

اوہ۔ صبا آپ۔ ’۔ احسن مسکرانے لگا۔ اشارے سے اسے بیٹھنے کو کہا۔‘ آپ کا نالج بھی اچھا ہے۔ لگتا ہے آپ بھی مطالعے کی شوقین ہیں۔ ’اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی نظریں اب بھی کتاب پہ مرکوز رہیں۔ ۔ ۔

’ جی۔ ۔ ۔ میں نے لٹریچر کسی مجبوری میں آپٹ نہیں کیا۔ کتابیں لکھنا چاہتی ہوں۔‘ صبا نے خوش مزاجی سے جواب دیا۔

’اچھا۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ کون سا موضوع آپ کو اپیل کرتا ہے؟ کوئی نیا فلسفہ؟ چاند ستاروں کی باتیں؟ کون سے راز کھولیں گی اس کائینات کے؟‘

’ میرا موضوع ہے انسان۔ ۔ ۔ ایک آزاد انسان جو اپنی سوچ کا مالک ہو۔ جس کی سوچ پہ جارج آرول کے الفاظ میں کسی‘ بگ برادر ’کا پہرہ نہ ہو۔ ۔ ۔ وہ انسان جو اس لئے منفرد ہے کہ وہ سوچتا ہے‘ ۔

صبا بولتی چلی گئی۔

’اور پھر اس کائینات کا ہر موضوع دراصل انسان سے ہی تو وابستہ ہے۔‘ وہ کسی نے کہا تھا نا کہ سوال یہ نہیں کہ ہم اس لئے انسان ہیں کہ ہم ستارے دیکھتے ہیں یا ہم ستارے دیکھتے ہیں، اس لئے انسان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ستارے بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ نہیں۔ ’

’تو ہمیں یہ کیسے پتہ چلے کہ ستارے بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ نہیں؟‘

’یہ کھوج بھی انسان لگائے گا، اپنی قوتوں کو بروئے کار لا کر، اپنے وسائل اس سمت میں استعمال کر کے، اپنی آزاد سوچ کی کے امکانات سے۔ میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ حقیقت۔ ہمارے یہاں ( اس نے اپنی مخروطی انگلی سے کنپٹی کی طرف اشارہ کیا) ۔ ذہن میں بستی ہے۔‘

’زندگی کے حقائق اور ہمارے فلسفوں کے ایک ہو جانے سے ہی شاید یوٹوپیا وجود میں آ سکے۔ اینی ویز۔ آئی وش یو آل دا بیسٹ۔‘ احسن نے صفحہ پلٹا۔ ایک لمحے کو نظریں اٹھائیں۔ صبا کی آنکھیں چمک رہی تھیں مگر احسن نے اس کے چہرے پہ کوئی توجہ نہ دی اور ایک لمحے میں کتاب پھر اس کی نظروں کا مرکز بن گئی۔ ۔ ۔

لیکچر کے دوران بحث کے ذریعے فلسفوں کے عقدے کھولنے کا لطف سبھی کو آنے لگا تھا۔ ۔ ۔ پریوئیس ایئر کے رزلٹ نے بھی ثابت کر دیا تھا کہ اس بار انگریزی ادب کو دلچسپی سے پڑھنے والوں کا ایک اچھا بیچ تیار ہو کے نکلے گا۔ کبھی گفتگو میں مختلف زبانوں کے ادب کا تقابلی جائزہ ہوتا اور کبھی انگریزی ادب میں تصوف کے پہلو زیر بحث آتے۔

سبھی موسموں کا ایک ریلا گزر گیا، دوسرے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ فائینل ایئر کی آخری گرینڈ پارٹی بھی تیار تھی۔ بہار کا خوشگوار موسم تھا۔ ۔ ۔ کیمپس میں خوب ہلچل مچی تھی۔ فیکلٹی میں میوزیکل ایو کا اہتمام تھا۔ شہزاد نے اپنے ذمے لگی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی اور ایک مقبول گلوکار کو پروگرام میں مدعو کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ ۔ ۔ خوشبو بھر ی شام، دوستوں کا ساتھ، موسیقی کے سر، کچھ شاعری کا اثر۔ آج صبا کی نظریں بے اختیار احسن کی طرف بار بار اٹھ رہی تھیں۔ ایسے لمحات بہت ظالم ہوتے ہیں جب انسان کو خود پہ اختیار نہیں رہتا۔ یہی لمحے یہاں وہاں بکھر جاتے ہیں۔ دیواروں پہ نقش ہو جاتے ہیں۔

صبا جس نے کبھی شہزاد کے نغموں میں چھپے پیغامات پہ کان تک نہ دھرے تھے۔ آج ہر گیت کے ساتھ اس کا دل اڑ کر احسن کے پہلو میں جا بیٹھتا تھا۔ مگر وہ کیسا بے نیاز تھا۔ تنہا بیٹھا گیت سنتا رہا۔ کیسی ادائے بے نیازی سے وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ کرسی کے ایک بازو پہ اپنی کہنی ٹکائے اور اسی ہاتھ کی دو انگلیوں سے سر کو سہارا دیے اپنے آپ میں مگن۔ اس کے ہاتھ پہ بندھی گھڑی، اس کے نفاست سے ترشے ہوئے بال، اس کے بیٹھنے کا پراعتماد انداز۔

صبا چور نظروں سے اسے بار بار دیکھتی اور اس کے ہر انداز سے مرعوب ہو جاتی۔ کبھی کبھی کوئی پروفیسر یا کوئی ہم جماعت اس کے ساتھ آ کے بیٹھتا۔ کچھ پوچھا جاتا تو وہ مختصراً جواب دیتا۔ کم الفاظ میں۔ زیادہ تر اشارے میں۔ ۔ ۔ اس بات کا ذکر کلاس میں کئی بار ہو چکا تھا کہ اس کے نزدیک دوسرے کو سننے کی کس قدر اہمیت تھی۔ وہ شاعروں اور فنکاروں کو بھی مکمل توجہ دینے کا قائل تھا۔ ۔ ۔ ایسی کتنی ہی عادات تھیں احسن میں کہ جس نے صبا کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ کبھی کسی خیال سے صبا کے چہرے پہ مسکان ابھرتی تو وہ حنا، عالیہ اور علی کی باتوں میں اسے چھپانے کی کوشش کرنے لگتی۔

ادھر شہزاد جو صبا کی ایک نظر کا منتظر تھا، وہ اس کی مسلسل بے اعتنائی سے جان چکا تھا کہ اس کی محبت محض یک طر فہ ہے۔ صبا نے کبھی بھی اس سے کوئی قربت بڑھائی، نہ ہی ایک بھی لفظ کی خوش گمانی دی تھی۔ یہ محبت تو اس کے دل کی ایسی خواہش تھی جو صبا کے ذہانت کے آگے بہت چھوٹی پڑ جاتی تھی اور اب احترام میں ڈھلنے لگی تھی۔ ۔ ۔ اس ایک سال میں صبا کی محبت نے اسے ایک شوخ چنچل لا ابالی لڑکے سے بدل کر ایک سنجیدہ طالب علم تو بنا ہی دیا تھا، اس کا زندگی کی طرف نظریہ بھی بدل دیا تھا۔

۔ ۔ محبت بھی کیا شے ہے۔ اس ایک جذبے کے ساتھ انسان اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اپنے اندر کے بیابانوں میں خود اپنی ہی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ ہر قدم پہ ایک نئے خود سے ملتا ہے، چونکتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے اب تک انجان رہا۔ ۔ ۔ اس نئے روپ کو قبول کرتا ہے، اپناتا ہے اور دھیرے دھیرے مکمل بدل جاتا ہے۔ شہزاد نے سگریٹ کا کش لگا یا اور پہلی بار اس حقیقت کو ماننے کے لئے خود کو آمادہ پایا کہ صبا کا اس کی طرف ایسا کوئی رجحان نہ تھا۔ ۔ ۔ ہوتا تو کیا وہ ایک نظر بھی نہ ڈالتی اس پہ۔ ۔ ۔

صبا کبھی کبھی اس الجھن کا بھی شکار ہوتی کہ اس تمام عرصے میں احسن نے اسے کبھی آنکھ بھر کے دیکھا تک نہ تھا۔ ۔ ۔ وہ حسن بے مثال تھی تھی گو کہ اس کے نزدیک یہ حسن کوئی ایسی قدر نہ تھی جس پہ اسے فخر ہوتا۔ ۔ ۔ وہ ہمیشہ اپنے علمی قابلیت سے جانی جانا چاہتی تھی۔ ۔ ۔ اس کی اسائنمنٹ پہ جب پروفیسر ریویو دیتے تو اسے طمانیت محسوس ہوتی۔ اور جب احسن اس کے کسی پوائینٹ پہ بات کرتا، اس کی توجیہات دیتا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا۔ مگر آج صبا کے اندر کی عورت جاگنے لگی تھی۔ عورت کی خواہشیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ زمانہ لاکھ اس کے حسن کو سراہے، اسے بس اس ایک نظر کی پیاس رہتی ہے جسے اس کا دل چاہتا ہے۔

صبا اپنی جگہ سے اٹھی اور احسن کی ساتھ والی کرسی خالی دیکھ کر وہاں جا بیٹھی۔ احسن نے اپنا بازو سیدھا کیا۔ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ ’آپ بھی یقیناً یہ موسیقی انجوائے کر رہی ہوں گی۔‘ صبا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ ۔ ۔ ’جی۔ خوبصورت گیت ہیں۔ بہت سہانی شام ہے۔ آ گڈ چینج اوور‘ ۔ احسن نے سر ہلایا۔ وہ بدستور سٹیج کی طرف متوجہ رہا۔ صبا گلابی لباس اور سنہری بالے پہنے بے حد حسین دکھ رہی تھی۔ آج پہلی بار وہ اپنے حسن پہ نازاں تھی۔

احسن کی ایک نظر اس کے حسن کو دوبالا کر دیتی۔ مگر وہ اس کی طرف دیکھتا ہی کب تھا۔ عالیہ اور حنا بھی قریب آ بیٹھیں۔ ۔ ۔ علی کی خوش گپیاں چلتی رہیں۔ احسن بھی تیکھے جملوں کا جواب نہایت خوبصورتی سے دیتا رہا مگر گانے کے دوران انھیں خاموش ہونا پڑتا۔ ۔ ۔ یہ احسن کی شخصیت کا وہ اثر تھا جو صبا کے دل میں گھر کر گیا تھا۔ ۔ ۔ اس کا ڈسپلن۔ حنا نے شرارت کی، ’یار ایسا ہینڈسم سنگر ہو تو اس کے تمام گانے سنے جا سکتے ہیں۔‘ احسن یہ سن کے رہ نہ پایا۔ ’مس حنا۔

There ’s no art
To find mind ’s construction in the face..
ایک لمحہ توقف کر کے یوں بولا جیسے اسے یاد دلانا چاہ رہا ہو۔
’ ولیم شیکسپئیر۔ میک بیتھ‘ ۔

صبا محسوس کر رہی تھی کہ احسن کے پہلو میں بیٹھ کر ہر گیت کس قدر معنی خیز ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ دل میں ایک اچھوتی امنگ جگاتا۔ آج اس کا دل یہ گواہی دینے لگا تھا کہ احسن بھی اس کے لئے ایسے ہی جذبات رکھتا ہے۔ ۔ ۔ صبا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خود اپنے دل کی بات احسن کو بتا ڈالے گی۔ اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی اجازت تھی۔ اور وہ فیصلہ کر چکی تھی۔

پارٹی کے بعد چند دن تو سیمسٹر کے مڈ ٹرم میں گزر گئے۔ اگزام ختم ہوتے ہی کچھ نئی کتابیں ایشو کروانا تھیں۔ صبا لائیبریری پہنچی تو حسب معمول احسن اپنی کرسی پہ بیٹھا کتابوں سے نوٹس لینے میں مصروف تھا۔ ۔ ۔ صبا اس کی طرف بڑھی۔ وہ جونہی میز کے قریب پہنچی احسن نے ایک لمحے کو نظریں اٹھائیں۔ ’آئیے صبا۔ بیٹھیں گی؟‘ ۔ صبا نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’یقیناً آپ کی میز تک آنے کا مطلب تو یہی ہے۔ یوں بھی کچھ بات کرنا تھی آپ سے۔‘ صبا نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ اچھا ہی تھا وہ اس کی چہرے کو دیکھ نہیں رہا تھا۔ اس لمحے صبا کے چہرے پہ ایک شرمیلی سی گھبراہٹ ڈیرے جمائے بیٹھی تھی۔ ۔ ۔ وہ اپنی آواز میں اعتماد بھر کے بولی۔ ’احسن۔ میں آپ سے اپنے دل کی کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ مم۔ میں نہیں جانتی کہ آپ کیا۔‘

احسن نے اس کی بات کاٹ دی۔ ۔ ’صبا میں جانتا ہوں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ ۔ ۔ مگر بہتر ہے مت کہیے۔‘ صبا ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’کیوں؟‘ وہ خو د کو ذرا سنبھالتے ہوئے بولی ’۔ میرا مطلب ہے۔ ایسا کیوں۔‘ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔ ’آپ کیا سمجھے میں کیا کہنا چاہتی ہوں؟ ؟‘

احسن اداس دکھنے لگا۔ ’میں اگزیکٹلی وہی سمجھا ہوں جو آپ کہنا چاہتی ہیں۔ یہی کہ آپ مجھ سے محبت کر بیٹھی ہیں۔ دیکھئے صبا۔ میں آپ کو اس اظہار کی الجھن میں بھی نہیں ڈالنا چاہتا۔ میرے اور آپ کے درمیان ایک کمیونین ہے۔ یہ آپ جانتی ہیں۔ اس سے آگے الفاظ کی ضرورت نہیں رہتی۔ مگر۔ ۔ ۔ میں آپ کو یہیں روک دینا چاہتا ہوں۔‘

صبا یہ سن کر گہری خاموشی میں ڈوب گئی۔

’ دیکھئیے۔ آپ اسے ایسا نہ سمجھئے گا کہ مجھے آپ کے جذبے کی قدر نہیں۔ سچ پوچھئے تو میرے جذبات بھی آپ سے مختلف نہیں۔‘

صبا نے سر اٹھا کے احسن کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ اس کی پوری توجہ صبا کی طرف تھی مگر اس کی نظریں کتا باور نوٹ بک پہ جمی تھیں۔ وہ بھی ذہنی اور دلی الجھن کا شکار دکھ رہا تھا۔ ایسی کیا بات تھی۔ صبا کے دل میں درد بھر آیا۔ لمحے بھر کے توقف کے بعد احسن بولا۔ ’آل از ویل دیٹ اینڈز ویل۔ ۔ ۔ ہم اچھے دوست رہ سکتے ہیں۔‘ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ صبا نے ہمت کی اور پوچھ ہی لیا۔ ۔ ۔ ’میں وجہ جان سکتی ہوں۔‘ مگر اس کی آواز اس کے اندر ڈوب چکی تھی۔

’ دیکھئے صبا میں ایک ایسے مرض کا شکار ہوں جسے شاید کوئی نہ سمجھ سکے۔ مگر میں امید کرتا ہوں آپ سمجھ پائیں گی۔ میرے دل میں شدید خواہش ہے مگر میں آج تک آپ کو

دیکھ نہیں پایا۔ ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں آپ بے حد حسین ہیں۔ کاش
میں دیکھ سکتا ’۔ ۔ ۔

صبا کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کیا سن رہی ہے۔ ۔ ۔ ایک سرسراتی ہوئی خوف کی لہر اس کے دل اور دماغ سے ہو کر گزر گئی۔ ۔ ’کاش میں دیکھ سکتا؟ ۔ ۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘ صبا نے ایک دم اس کے سامنے رکھی کتاب اور نوٹ بک کو دیکھا۔ ۔ ۔ نیلی روشنائی میں اس کے ہاتھ سے لکھے نوٹس اس کے سامنے تھے۔ اسے یاد آیا احسن نے کئی بار وائٹ بورڈ پہ لکھا۔ اس کا کلاس میں آنا جانا، سب نارمل تھا۔ ۔ ۔ ایک لمحے میں اس کی نظر میں کیا کچھ گھوم گیا۔

’ میں نے کہا نا کہ آپ اس بات کو ضرور سمجھ جائیں گی۔ ۔ ۔ چونکہ آپ کا سبجیکٹ انسان ہے اس لئے آپ سے میں یہ چھپانا بھی نہیں چاہتا۔ ۔ ۔ یہ علم آپ کے کام آئے گا۔‘ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ ایک درد بھری مسکراہٹ۔ ۔ ’میں چہرے نہیں دیکھ سکتا۔ ۔ ۔ میں فیس بلائنڈنیس کا شکار ہوں۔‘ ۔ صبا دم بخود رہ گئی۔

اس لمحے صبا نے شدت سے اس بات کو محسوس کیا کہ احسن نے کبھی اس کے چہرے کی طرف نہ دیکھا تھا۔ آج بھی نہیں۔ اس

وقت بھی نہیں۔ ۔ ۔ وہ تو اپنی کتابوں پہ نظریں جمائے ہوئے تھا۔

’ پروسوپییگنوسیا‘ ۔ وہ گفتگو کے دوران مناسب وقفوں کا ادراک رکھتا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے پین کا سرا دوسرے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولا۔ ۔ ’میں نے آج تک اپنا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔‘ صبا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی۔ ۔ ۔ مگر وہ جانتی تھی کہ احسن کسی قسم کا بے تکا مذاق کرنے والا مزاج نہ رکھتا تھا۔ وہ گہری خاموشی میں ڈوبتی چلی گئی۔ ۔ ۔ احسن نے اس خاموشی کا ادراک کیا تو مسکرانے لگا۔ ۔ ۔

’ ایسے بھی انسان ہوتے ہیں صبا۔ ۔ ۔ کم کم۔ مگر ہوتے ہیں۔ میں سب کچھ دیکھ سکتا ہوں مگر چہرے نہیں دیکھ سکتا۔ اور آپ جیسے حسین چہرے کو کبھی نہ دیکھ پانا اور نہ سراہنا۔ ظلم ہے۔ میں نے آپ کو ہمیشہ آواز سے پہچانا۔ ۔ ۔ کچھ عرصے سے تو آپ کی موجودگی کا احساس آواز کا بھی محتاج نہ رہا تھا۔ ۔ ۔ آئی۔ آئی ہوپ یو انڈرسٹینڈ۔ ۔ ۔‘ اور پھر وہ خاموش ہو گیا۔

صبا چند لمحے ساکت بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کے چل دی۔ احسن نوٹس چھوڑ کر بہت دیر یونہی کتاب کے صفحے پلٹتا رہا۔ ۔ ۔

صبا قدرت کے اس ستم کو سمجھ نہ پائی تھی۔ حسین لوگوں کے دکھ بھی بلا کے حسین ہوتے ہیں۔ اتنے ہی منفرد جتنے وہ خود۔ ۔ صبا گھر پہنچ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔ جب دل کھول کے رو چکی تو اس نے خود کو آیئنے میں دیکھا۔ ۔ ۔ رونے سے اس کے حسن میں مزید نکھار پیدا ہو گیا تھا۔ وہ تو ہمیشہ اس حسن سے بے نیاز رہی تھی۔ جانے کیسے احسن کی محبت نے اس میں یہ احساس جگا دیا تھا۔ اس نے آئینے پہ اپنا دوپٹہ ڈال دیا۔ ۔ ۔ آج اسے انسان کے ذہن کی قوت پہ سوچنا تھا۔ حقیقی اور مجازی حقائق کے فلسفے کا تجزیہ کرنا تھا۔ مبہم تصورات کی نئی راہیں اسے دعوت فکر دی رہی تھین۔ ۔ ۔ آج اس کی پہلی کتاب کی انوکھی کہانی تیار تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments