ریڈ انڈین آنسوؤں کی پگڈنڈی


مجھے یاد ہے ایک دفعہ آیوکی سے متعلق بحث کے دوران ڈیڈی نے کہا تھا کہ میں پاکستان چھوڑ کر امریکا اس لیے آیا تھا کہ یہاں زندگی بناؤں، اچھا مستقبل ہو، بچوں کی اچھی تعلیم ہو جو پاکستان میں ممکن نہیں تھی اور اب تم یہ چاہتے ہو کہ امریکا کے کسی دور افتادہ گاؤں میں جا کر رہو محض اس ریڈ انڈین لڑکی کے لیے۔

میرے پاس جو جواب تھا وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ وہ یہ بھول رہے تھے کہ میں پاکستانی باپ کا بیٹا ضرور تھا مگر پاکستانی نہیں تھا۔ میں امریکی تھا اور دوسرے امریکیوں کی طرح مجھے اپنی زندگی کے بارے میں خود ہی فیصلے کرنے تھے، اچھے یا برے۔ یہ حق میں کسی اور کو دینے کو تیار نہیں تھا۔ وہ ضرور پاکستان چھوڑ کر اپنی زندگی بنانے آئے تھے انہوں نے اپنی زندگی بنا بھی لی تھی ان کے لیے یہی مناسب ہوگا شاید تھا بھی لیکن میری زندگی امریکا تھی اور مجھے اسی آزادی کے ساتھ رہنا تھا جو یہاں کا وتیرہ ہے۔

ہم دونوں ہی ڈاکٹر بن گئے اور اس سے پہلے کہ ہم دونوں دوسرے امتحانات کے بارے میں فکرمند ہوتے ہم نے فیصلہ کیا کہ جارجیا جا کر اس مشہور پگڈنڈی پر تھوڑا سفر کریں گے جس پر گزرتے ہوئے ہزاروں سرخ انڈین لوگوں نے جانیں دیدی تھیں۔ یہ سرخ امریکیوں کی تاریخ کا ایک اہم درد ناک واقعہ تھا۔

آیوکی نے مجھے اس پگڈنڈی کی تاریخ بتائی تھی۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ریڈ انڈین اپنا مذہب، ثقافت، روایات چھوڑ کر محض امریکی بن جائیں گے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے مگر ایک اور امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے گورے یورپیوں کے مفاد کے لیے انڈین لوگوں سے کیے گئے تین سو سے زیادہ معاہدوں کو توڑتے ہوئے اٹھارہ سو تیس میں ایک قانون بنوایا کہ انڈین لوگوں کو ان کی آبائی زمینوں سے دھکیل کر مس سی پی دریا تک پہنچا دیا جائے۔

چروکی، چوکنا، سیمی نول اور کریک لوگوں سے ان کی آبائی زرخیز سونا اگلنے والی زمین خالی کر الی جائیں جہاں یورپ کے سفید لوگ کپاس کی کاشت کریں، اپنی فصل بوئیں۔ اس مہم میں سب شامل تھے انگریز، فرانسیسی، جرمن، اٹالین، اسپینی اور دوسرے یورپی مہاجر۔ انہیں زمین چاہیے تھیں اور زرخیز زمینیں چاہیے تھیں چاہے قیمت کچھ بھی ہو۔ سرخ امریکیوں نے بھاری قیمت ادا کی تھی تاریخ کا یہ جبر امریکیوں کے ضمیر کا بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔

مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ اس زمانے میں چروکی لوگوں نے امریکی سپریم کورٹ سے اس قانون کے خلاف فیصلہ لے لیا تھا مگر صدر جیکسن نے اس قانون کو لاگو کرا کر ہی دم لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بہانوں حیلوں سے رد کر دیا تھا۔ لاکھوں ریڈ انڈین لوگ جارجیا، الاباما، فلوریڈا، آرکنسا، اکولوہاما، مزوری، ای نوائے اور کیرولینا سے بے دخل کر دیے گئے تھے اور بارہ سو میل لمبی پگڈنڈی پر سفر کرتے ہوئے نہ جانے کیسے تکلیفیں اٹھاتے ہوئے جان دیتے ہوئے مس سی پی دریا کے دوسرے کنارے کے علاقوں تک پہنچے تھے۔

کئی سالوں کے اس سفر میں ان کی جانیں گئی تھیں ان کے ایک سردار جارج ہارکنس نے کہا تھا ”ہم اپاچی لوگ مصیبتیں اٹھائیں گے مگر سفید آدمی (white man) کے قانون کے تابع نہیں ہوں گے۔ ہم آزاد لوگ ہیں اور آزادی کے لیے جان بھی دے دیں گے۔“ انہوں نے جانیں دی تھیں، بارہ سو میل کے سفر میں ملیریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ، ٹائی فس، کالی کھانسی، بھوک اور دوسری بیماریوں کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔ یہی وہ پگڈنڈی تھی جسے آنسوؤں کی پگڈنڈی اور موت کا راستہ قرار دیا گیا تھا۔

آیوکی کے ساتھ اس پگڈنڈی پر چلتے چلتے میرے سامنے جیسے کوئی فلم چل رہی تھی، گھوڑوں، خچروں کے ساتھ چلتے ہوئے ہزاروں افراد کمر خمیدہ بوڑھی عورتیں، بلکتے لرزتے اور مرتے ہوئے بچے، زخمی نوجوان اور روتے ہوئے بوڑھے لوگ، مائیں اپنے بچوں کو سنبھالتی ہوتی اور نوجوان لڑکیاں تھکی ہوئی ہراساں اور پریشان۔ آنسوؤں کی پگڈنڈی پر نہ جانے کیا کیا ہوا ہوگا۔ کس کس طرح سے لوگوں نے جانیں دی ہوں گی۔ بچے اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے لپٹ لپٹ کر روتے ہوں گے۔

ان کے شانوں، ان کے بازوؤں ان کے کاندھوں پر دم توڑتے ہوں گے۔ پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کو دفن کرنے والے ریڈ انڈین لوگ آنسوؤں سے تر چہروں کے ساتھ، درد سے بھرے دلوں کو لیے ہوئے مس سی پی دریا کے کنارے پہنچے ہوں گے۔ یہ سب کچھ گزر چکا تھا اس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا، ذہن میں خاکہ بنا جاسکتا تھا۔ مگر بدلا نہیں جاسکتا تھا۔ میں اور میرا ذہن تاریخ میں بھٹک رہے تھے۔

اسی راستے پر چلتے چلتے ایک جگہ پر ایک کتبہ لگا ہوا تھا ”ان لوگوں کی یاد میں جو چلتے ہوئے مارے گئے یا روتے ہوئے چلتے گئے۔“ اسی راستے پر چلتے چلتے میں نے دوبارہ آیوکی سے شادی کی درخواست کی تھی، میں نے یہ وعدہ کیا کہ زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتا ہوں وہی سب کچھ کروں گا جو تم چاہتی ہو ویسے ہی جیوں گا جیے تم جیو گی۔ تمہارے خواب میرے خواب ہیں مجھے اپنی دنیا میں لے لو میں تمہاری دنیا کو اپنانا چاہتا ہوں۔

مگر اس نے منع کر دیا۔

اس نے کہا تھا کہ اس کی شادی کسی ریڈ انڈین سے ہوگی تاکہ یہ قوم، یہ ذات نسل کشی کا شکار نہ ہو۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا اس کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں، محبت اپنی جگہ پر لیکن میں چروکی ہوں اور چروکی ہی رہنا چاہتی ہوں، اس کی آواز پھنس گئی تھی، وہ وہیں بیٹھ گئی تھی۔ میرے بچے چروکی ہوں گے، اس نے رندھی ہوئی آواز میں رک رک کر کہا تھا۔ وائٹ مین سفید آدمیوں نے ہمیں ختم کر دیا ہے، میں نے اور میرے جیسے لوگوں نے اپنی حیثیت برقرار رکھنی ہے، میں ہاں نہیں کر سکتی ہوں۔

اس کے کتابی سرخ چہرے پر آنسو پھیل رہے تھے۔ اس کی ٹھوڑی پر کالا کند کیا ہوا نشان نمایاں ہو گیا تھا۔ میرے بھی آنسو نکل آئے تھے۔ آنسو کی اس پگڈنڈی پر نہ جانے کتنی دیر تک ہم دونوں آنسو بہاتے رہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments