ریڈ انڈین آنسوؤں کی پگڈنڈی


اس نے سوچا تھا انڈین لوگوں کی بھی اپنی زبان ہونی چاہیے۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے حروف بنانے شروع کیے۔ پہلی دفعہ جب اس نے حروف بنائے تو ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی پھر اس نے حروف کو ملا کر آوازیں بنائیں اور اس طرح سے آج کی ریڈ انڈین لوگوں کی لکھنے کی زبان وجود میں آئی۔ آیوکی اس کی بیٹی تھی اور سیکی اوا کے آخری سفر میں اس کے ساتھ تھی اور اسی سفر میں اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔

یاد آتے ہی میں نے اس سے پوچھ لیا کہ اس کا نام سیکی اوا کی بیٹی پے ہے تو وہ مسکرا دی تھی۔

کیوں نہ ہو آخر میں چروکی ہوں اور سیکی اوا ہمارا بڑا محسن تھا۔ میرا نام میری ماں نے اس کی بیٹی کے نام پر رکھا ہے۔ ساتھ ہی اس نے ریڈ انڈین لوگوں کے ختم ہونے والی نسلوں کے بارے میں کئی کہانیاں سنا دی تھیں۔ اس کے اندر ریڈ انڈین خون کے ساتھ ساتھ ریڈ انڈین احساسات بھی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر اسی لیے بن رہی ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد ریڈ انڈین لوگوں کے ان علاقوں میں جا کر کام کرے جہاں ابھی تک انہیں وہ سب کچھ میسر نہیں ہے جو دوسرے امریکیوں کو میسر ہے۔

امریکا میں پیدا ہو کر بڑے ہوتے ہوئے میں نے نہیں سوچا تھا کہ امریکا کے اندر بھی کئی اور امریکا ہیں۔ ایسے غریب لوگوں کا امریکا جہاں جہالت بھی ہے، اور غربت بھی ہے اور اس جہالت اور غربت سے مل کر جو جو بیماریاں جنم لیتی ہیں وہ بیماریاں بھی ہیں۔ امریکا بڑے بڑے شہروں کی اونچی اونچی عمارتوں کا نام نہیں ہے ان بڑے بڑے شہروں کو ملانے والی عظیم الشان شاہراہوں سے بننے والے امریکا کے اندر ایک اور امریکا ہے۔ آیوکی اسی امریکا سے آئی تھی۔ پہلی دفعہ مجھے اس کا چہرہ پرکشش لگا، اس کی آواز دلکش لگی۔ اس کے چہرے کے سرخ رنگ کے اندر ایک جذبوں سے بیدار پرکشش لڑکی نظر آئی۔

ہماری دوستی بڑھتی ہی چلی گئی، میڈیکل کالج کے چار سال ہم دونوں ساتھ ساتھ رہے۔ ہم دونوں ہی نے فیصلہ کیا کہ کچھ اختیاری کام کرنے کے لیے ساؤتھ امریکا کے ملک نکاراگوا اور گوئٹے مالا جائیں گے۔ اس تمام عرصے میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ خواب دیکھنے لگے تھے، خواب بھی ایسے جو میرے ڈیڈی اور امی کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ کالج میں ہم دونوں کا زیادہ تر وقت ساتھ ہی گزرتا تھا اور ہر کچھ دنوں کے بعد مجھے امریکا میں رہنے والے ریڈ انڈینز کے بارے میں نئی نئی چیزوں کا پتا لگتا تھا۔ ان کی تاریخ کے وہ پہلو میرے سامنے آتے جن پر میری نظر کبھی بھی نہیں پڑی تھی۔ تاریخ بڑی تکلیف دہ تھی۔

ہم دونوں اپنا اختیاری کام کرنے کے لیے نکارا گوا اور گوئٹے مالا چلے گئے۔ یہ دونوں ممالک امریکا کے پڑوس میں ہونے کے باوجود غریب ملک تھے یہ تجربہ بڑا مختلف تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے پاکستان آ گیا ہوں۔ اپنے والدین کا پاکستان جہاں میں کئی سالوں سے نہیں گیا تھا۔ بچپن میں جب بھی پاکستان جاتا تو مجھے پاکستان میں بہت مزا آتا مگر جب کالج کی چھٹیوں میں پاکستان جانا ہوا تو مجھے پاکستان سے بوریت ہونے لگی تھی۔ وہاں کی غربت، چاپلوسی، جھوٹ اور جعلی پن میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ہمارے رشتے دار تو خاصے امیر تھے مگر غربت کی عام صورتحال بڑی تکلیف دہ تھی۔ یہی سب کچھ ہم دونوں نے نکارا گوا اور گوئٹے مالا میں دیکھا تھا۔ ایک طرف بے شمار دولت دوسری جانب انتہائی غریب لوگ۔ بیماریاں، پریشان حال بوڑھے اور بھیک مانگتے ہوئے سڑکوں پر گھومنے والے ننھے بچے۔

آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آیا کہ میرے ڈیڈی اور میرے ڈیڈی کی طرح کے بہت سے پاکستانی ڈاکٹر امریکا میں کیوں آباد ہو گئے تھے، امریکا میں ان کے لیے سب کچھ تھا۔ معاشی آزادی، سماجی تحفظ اور بغیر کسی خوف کے زندہ رہنے کی آزادی اور اپنے پیشے میں آگے بڑھنے کے تمام تر مواقع۔

آیوکی اور میں نے نکارا گوا اور گوئٹے مالا میں بہت کچھ سیکھا۔ مجھے پتا تھا کہ آج کے امریکا میں طب، طب کی تعلیم اور مریضوں کے لیے علاج کی سہولتیں اپنے انتہا پر پہنچی ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی آیوکی کی اس بات نے مجھے حیران کر دیا تھا کہ ابھی بھی امریکا میں ایسے علاقے ہیں جہاں ریڈ انڈین لوگوں کو خراب ترین حالات کا سامنا ہے۔ ان کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ڈاکٹر بننے کے بعد وہ انڈین لوگوں کے علاقے میں جا کر کام کرے گی۔ جہاں اس کے لوگ رہتے ہیں انہیں اس کی ضرورت ہے۔

مجھے اس کی بات اچھی لگتی تھی۔ وہ سادہ تھی۔ اس کی باتیں صاف تھیں اور اس کے دل کے اندر ایک بہت بڑا پیار کا سمندر تھا۔ پیار اپنی قوم سے اپنی زمین سے اپنی روایات سے، اپنی ثقافت سے اپنی زبان سے، وہ جب کبھی بھی ریڈ انڈین لوگوں کی طرح سے لباس پہنتی تھی تو مجھے اور بھی زیادہ حسین لگتی میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ کوئی بھی لباس پہنے ریڈ انڈین لباس کا کوئی نہ کوئی جز اس کا حصہ ضرور ہوتا تھا۔

مجھے پتا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اس سے شدید محبت کرنے لگا ہوں اور مجھے یہ بھی پتا تھا کہ میں بھی اسے اچھا لگتا ہوں مگر اس نے کبھی بھی کھل کر اس کا اظہار نہیں ہم دونوں ایک دوسرے کو عزیز رکھتے تھے۔ مذاق مذاق میں کئی دفعہ میں نے اس سے کہا تھا کہ میں اس سے ہی شادی کروں گا جس دن وہ ہاں کہے گی، اسے انگوٹھی پہنا دوں گا۔

وہ ہنس دیتی تھی اس کی آنکھیں جیسے جل اٹھتی تھیں اس کے ہونٹوں کے پیچھے سے سفید موتی جیسے دانتوں نے جیسے مسکرا کر ہاں کہہ دیا تھا مگر وہ خاموش رہتی تھی۔ یہ آیا کی کی شخصیت کا ایک پراسرار پہلو تھا شاید قدیم امریکی ایسے ہی ہوتے ہوں گے۔

اسے میں اپنے گھر بھی لے گیا۔ کچھ دنوں کے لیے وہ وہاں رہی بھی مگر میرے ڈیڈی اور ممی کو اس سے میری دوستی بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔ ان کے خیالات تو بہت جدا تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ میں ڈھیر سارے کسی پاکستانی انکل اور آنٹی کی بیٹی سے شادی کروں یا پھر پاکستان جا کر وہاں کی کسی پڑھی لکھی لڑکی کو بیاہ کر امریکا لے آؤں مگر مجھے یہ بات بالکل بھی پسند نہیں تھی، مجھے تو آیوکی ہی اچھی لگتی تھی اور میں اس سے ہی شادی کرنا چاہتا تھا، آہستہ آہستہ ہمارے گھرمیں آیوکی وجہ عناد بن گئی تھی۔

آیوکی ڈاکٹر بننے کے بعد واپس ریڈ انڈین کے مخصوص علاقوں میں جا کر کام کرنا چاہتی تھی، اس کا خیال تھا کہ آج کے جدید امریکا میں گوروں کو تو سب کچھ میسر ہے مگر ریڈ انڈین لوگ صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ اور اس کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ بھی ان کے لیے کر سکتی ہے کرے۔ ان لوگوں تک پہنچے جو اس کے اپنے لوگ ہیں جنہیں اس کی ضرورت ہے۔

مجھے اس کی بات اچھی لگتی تھی مجھے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا، میں امریکا میں پیدا ہوا تھا، پلا اور بڑھا تھا یہاں وظیفہ پا کر بہترین اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی اور اگر یہاں کے کسی ایسے علاقے میں کام کرنے جاتا جہاں ڈاکٹر نہیں ہیں تو یہ ایک طرح سے میرا فرض بھی تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments