ریڈ انڈین آنسوؤں کی پگڈنڈی


آیوکی اس کا نام تھا پہلے دن ایسا لگا جیسے یہ نام کچھ جانا پہچانا سا ہے۔ وہ ریڈ انڈین تھی اور میڈیکل کالج میں اس کا داخلہ ریڈ انڈین لوگوں کے لیے مخصوص نشست پر ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ امریکا کے میڈیکل کالجوں میں بھی مختص سیٹیں ہوتی ہیں اور ان سیٹوں پر مخصوص لوگوں کو کم نمبر کے باوجود داخلہ دیا جاتا ہے۔ میرے ڈیڈی کا تعلق پاکستان سے تھا، وہ ڈاکٹر بن کر امریکا آ گئے تھے۔ میری تو پیدائش بھی امریکا میں ہوئی اور یہیں پلا بڑھا تھا میں۔ کولوراڈو کے جس ڈسٹرکٹ میں ہم لوگ رہتے تھے وہاں کا اسکول بہت اچھا تھا، یہیں تعلیم حاصل کی میں نے اور اتنے اچھے نمبروں سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا کہ مجھے کالج جانے کے لیے وظیفہ مل گیا تھا۔

ایمری یونیورسٹی میں کالج کے دن بہت اچھے گزرے، اپنے والدین کی خواہشات اور اپنے شوق کے مطابق میرے نمبر اتنے اچھے تھے کہ میڈیکل کالج میں میرے داخلے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

ڈیڈی جب پاکستان سے آئے تو ڈاکٹر تھے، امریکا میں ہی انہوں نے تربیت حاصل کی اس کے بعد یہاں ہی پریکٹس کرتے رہے تھے۔ ہم دو بھائیوں، دو بہنوں نے امریکا میں بہترین تعلیم حاصل کی اور کبھی بھی کسی معاشی مسائل کا سامنا نہیں کیا تھا ہم لوگوں نے۔ ہر چیز کی فراوانی تھی زندگی کی وہ ساری آسائشیں میسر تھیں جو کسی امیر ڈاکٹر کے گھرانے کو حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارے گھر میں ہر طرح کی آزادی تھی سوائے مذہبی آزادی کے کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سب گھر والے کچھ زیادہ ہی مذہبی ہو گئے تھے جس کے بعد سے مذہبی مسئلوں پر گفتگو مشکل ہو گئی تھی۔

بچپن کے دن مجھے یاد ہیں ہمارا گھر کافی کھلا ڈلا ہوتا تھا۔ آئے دن ڈیڈی کے دوستوں کا ہجوم ہوتا، امی بھی مختلف قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتیں تھیں۔ ہم لوگ سال دو سال میں ایک دفعہ پاکستان کا بھی چکر لگا لیتے۔ اس کے علاوہ جب بھی موقع ملتا سارا خاندان ڈیڈی کی پسندیدہ وین میں سوار ہو کر تفریح کے لیے نکل کھڑا ہوتا۔

میں گھر کا سب سے چھوٹا تھا اور چھوٹا ہی تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ گھر کے طور طریقوں میں آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے۔ اتوار کو مسجد جانا لازمی ہو گیا۔ شروع شروع میں تو مجھے برا نہیں لگا لیکن تھوڑے دنوں کے بعد ہی مسجد کی زبردستی حاضری مجھے کھلنے لگی تھی۔ ہم بھائی بہنوں میں کوئی بھی سوال نہیں کرتا مگر مجھے سوالوں کی عادت سی پڑ گئی تھی، میرے زیادہ تر سوالوں کا جواب نہ تو ڈیڈی کے پاس ہوتا تھا اور نہ ہی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس۔

مجھے سب سے زیادہ کوفت یہ دیکھ کر ہوتی تھی کہ زیادہ تر پابندیاں میری بڑی بہنوں پر تھیں، انہیں سر ڈھانپنا ہوتا، انہیں نگاہیں نیچی رکھنی ہوتیں تھیں ایسا لگتا کہ ہر ایک ان سے کسی نامعلوم وجوہات کی بنا پر خائف ہے۔ اچھے خاصے میرے آزاد خیال امی ڈیڈی مولوی ٹائپ بن گئے تھے۔

میں آزاد تھا ہر طرح سے آزاد بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ میں نے آزادی چھین لی تھی، میرے رویے نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ میرے بہت سے معاملات میں انہیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے، میں پاکستان میں پیدا ہونے والا امریکن نہیں تھا، میں امریکا میں پیدا ہونے والا امریکن تھا۔ میری بہنیں بھی امریکا میں پیدا ہونے والی امریکن تھیں لیکن بچپن سے ہی انہیں جو تعلیم دی گئی تھی اس نے انہیں نہ جانے کیسے اس بات پر قائل کر دیا کہ وہ مختلف ہو گئی تھیں، شاید میری امی اور ڈیڈی بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ حجاب پہن کر، سر کے بالوں کو چھپائیں، مجھے ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اگر یہ سب کچھ وہ اپنی مرضی سے کرتیں، بغیر کسی دباؤ، بغیر کسی جذباتی، بلیک میلنگ کے۔ انہی باتوں کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک چھوٹی سی خلیج حائل ہو گئی تھی۔

اسکول اور کالج تک میرا دھیان صرف کتابوں، لائبریریوں، سوئمنگ اور فٹ بال کے میچوں میں رہا۔ یہ نہیں کہ مجھے لڑکیوں نے اپنی طرف متوجہ نہیں کیا۔ متوجہ تو بہت کیا لیکن امی ڈیڈی کی باتیں نہ مانتے ہوئے بھی میں یہ لاشعوری طور پر بھی نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع ملے۔ یہ تو ہونا تھا یہ تو ایسا ہی تھا۔

میڈیکل کالج میں دوسری طرح کے معاملات تھے۔ زندگی کا باضابطہ سفر شروع ہو گیا تھا۔

آیوکی اتنی ذہین نہیں تھی جتنی اس کی آنکھوں میں ذہانت تھی۔ سوچتا ہوا لمبوترا سا سرخ چہرہ، سر پر سیاہ گھنے بال جنہوں نے بڑی مشکل سے پیشانی کی جگہ چھوڑی تھی۔ سیاہ چمکیلی ذہین آنکھوں کے درمیان روایتی سرخ امریکیوں والی ناک۔ وہ بال بھی فلموں میں نظر آنے والی ریڈ انڈین لڑکیوں کی طرح بناتی تھی اور اس کی ٹھوڑی کے نیچے ایک نشان کندہ ہوا تھا، اس کا تعلق سرخ امریکیوں کے چروکی قبیلے سے تھا۔

اس سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ اکثر و بیشتر پڑھنے میں میری مدد لیتی تھی۔ اسے دنیا کے بہت سارے دوسرے معاملات کے بارے میں تو بہت کچھ پتا تھا لیکن فزیالوجی، اناٹومی اور بائیو کیمسٹری کے معاملات میں تھوڑا کمزور تھی لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ انتہا درجے کی محنتی تھی اور مکمل طور پر فوکس۔

اس نے ہی ایک دن باتوں باتوں میں بتایا کہ اس کا تعلق امریکا کے اصل باشندوں کے بڑے قبیلے چروکی سے ہے اور اس کا میڈیکل کالج میں داخلہ ان خصوصی نشستوں پر ہوا ہے جو ریڈ انڈین لوگوں کے لیے مختص ہے۔ اس کا تعلق چروکی خاندانوں کے اس گروہ سے تھا جو سو فیصد چروکی تھے اور ان کے خون میں ابھی تک کسی قسم کی آمیزش نہیں ہوئی تھی۔

میں نے ہائی اسکول میں تاریخ، امریکا میں امریکا اور اس کے لوگ، امریکا کی خانہ جنگی اور جنگ آزادی، امریکا اور اس کی جنگیں یہ سب کچھ پڑھا تھا۔ اسی طرح سے امریکا کے اصل باسیوں سے یورپی لوگوں کی جنگوں کے بارے میں بھی پڑھا تھا لیکن عملی زندگی میں میں نے کبھی بھی کسی ریڈ انڈین کو نہ دیکھا تھا نہ ملا تھا اور نہ ہی ان سے بات کی تھی۔ میرے لیے اور میرے جیسے بہت سے پاکستانی امریکیوں کے لیے یہ افسانوی کردار تھے، ہالی ووڈ کی فلموں کی کہانیاں تھیں جن پر طرح طرح کی فلمیں بنا کر ہالی ووڈ کے ان داتا پیسے کما رہے تھے۔ ان حالات میں میری ملاقات اس چروکی لڑکی سے ہوئی اور ایسی چروکی لڑکی جو ابھی تک ریڈ انڈین تھی، اس کے اقدار بھی وہی تھے اور زبان بھی وہی تھی سوچ کا انداز بھی چروکی تھا جس نے اپنی تاریخ سے اپنا رشتہ نہیں توڑا تھا۔

ایک دن اس سے بات کرتے کرتے مجھے یاد آ گیا کہ آیوکی تو چروکی قبیلے کے ایک مشہور آدمی سیکی اوا کی بیٹی کا نام تھا۔ سیکی اوا جب انگریزوں سے ملا تو یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ یہ لوگ اپنی زبان لکھ لیتے ہیں اور پھر اسی طریقے سے ایک سے دوسری جگہ پیغامات بھیجنا شروع کردیتے ہیں، ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں اور ہونے والی جنگوں کے حالات کو کاغذ پر لکھ لیتے ہیں۔ اسے یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی تھی کہ یہ لوگ اپنے کاغذوں پر اپنے جانوروں کے بارے میں ساری تفصیلات بھی لکھتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments