باصر سلطان کاظمی: سرزمین شعر کا اجنبی مسافر


ان دوستوں کی رفاقت نے باصر کو نظم لکھنے کی طرف راغب کیا اور اس سے غزلیں سن کر وہ غزل میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے انگریزی میں غزل کی طرزپہ نظمیں بھی کہیں اور باصر کے ساتھ مل کے اردو غزلوں کے تراجم بھی کیے جو مختلف ادبی جرائد اور anthologiesمیں شائع ہو چکے ہیں۔ باصرنے بھی ان کی نظموں کو اردو میں منتقل کیا ہے جواس مجموعے میں شامل ہیں۔ آرٹس کونسل انگلستان کی سپانسرشپ پر سائمن نے اپریل 1997 میں لاہور کا دورہ کیا اور ناصر کاظمی کی پچیسویں برسی کے موقع پر الحمرا میں جو تقریب منعقد ہوئی تھی اس میں اپنی نظم پیش کی۔ دیبجانی نے اپریل 2006 میں باصر کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور میں مختلف ادبی تنظیموں، ثقافتی اداروں اور تعلیمی درسگاہوں نے ان مہمانوں کی بہت پذیرائی کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں بھی دیبجانی اور باصر کے ساتھ ایک محفل منعقد ہوئی جس میں دونوں نے اپنا کلام سنایا۔

دیبجانی نے باصرکے اشتراک سے ناصر کاظمی کی 25 اور باصر کی 24 غزلوں کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے جو Generations of Ghazal کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں شاعروں کے کلام کا ایک مجموعہ A Little Bridgeکے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ اب ناصر اور باصر کے حوالے سے انگریزی خواں لوگ اردو شاعری اور بالخصوص غزل کے ذائقے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ غریب الوطنی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں مگر باصر نے رونے دھونے کی بجائے اس صورت حال کو قبول کرتے ہوئے ایک نیا جہاں تعمیر کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اس مجموعے کی افتتاحی غزل میں اس صورت حال کو بہت ہی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔

دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

باصر نے اپنے پہلے مجموعہ کلام موج خیال کے دیباچے میں لکھا تھا کہ انگلستان آنے کے بعد ”جب مجھے یہ خیال آنے لگا کہ اب میں صرف ڈرامے لکھا کروں گا اور شعر کبھی کبھار ہی ہوا کریں گے، میری شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوا جو شاید اب صرف غزل تک محدود نہ رہے۔ اگرچہ غزل اپنی جگہ ایک لامحدود صنف سخن ہے۔ “

باصر کے اس نئے مجموعہ کلام سے اس کی یہ بات درست ثابت ہوتی ہے۔ اس نے غزل کے ساتھ نظم نگاری کی طرف بھی توجہ کی ہے بلکہ نثری شاعری تک جا پہنچا ہے۔ نثری نظم کے بارے میں اگرچہ میرے تحفظات ہیں مگر منیر نیازی کی ایک پنجابی نثری نظم ”گان والے پنچھی دی ہجرت“ پڑھنے کے بعد میں اس امکان کو تسلیم کر چکا ہوں کہ ایک حقیقی شاعر نثری نظم میں بھی اعلیٰ درجے کی تخلیق پیش کر سکتا ہے۔

باصر کا شعری سفر اب چار دہائیوں پر محیط ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب گورنمنٹ کالج کے بعض اساتذہ اور شاعری سے شغف رکھنے والے طلبہ میں سے بہتوں کا خیال تھا کہ شاید وہ اپنے والد سے لکھوا کر لاتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد جب باصر کہیں شعر سناتا تھا تو لوگوں کو اس میں ناصر کاظمی کا رنگ سخن خود بخود بولتا نظر آ جاتا تھا۔ ایک بڑے اور نامور باپ کا فرزند ہونے کے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہاں کچھ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برا ہونے اور اپنی حیثیت منوانے کی خاطر بعض لوگ پدر کشی کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور بعض اس راہ سے ہی کنارہ کش ہو جاتے ہیں جو ان کے پدر کی راہ ہوتی ہے۔ باصر نے ایسا کوئی رویہ اختیار نہیں کیا۔ اسے جہاں ناصر کاظمی کا فرزند ہونے پر فخر ہے وہاں اس نے شعوری یا شاید لاشعوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے شاعری میں ناصر کا رنگ سخن اختیار نہیں کرنا۔ اس نے یہ شعر تو بہت بعد میں کہا ہے مگر اس کا عمل شروع سے یہی تھا:

بنانی پڑتی ہے ہر شخص کو جگہ اپنی

ملے اگرچہ بظاہر بنی بنائی جگہ

میں وہ شخص ہوں جس کا تعارف باصر کی شاعری سے پہلے اور ناصر کاظمی کی شاعری سے بعد میں ہوا۔ اس لیے مجھے کبھی بھی باصر کی شاعری میں ناصر کا رنگ نظر نہیں آیا۔

باصر نے اپنے والد سے شعر گوئی کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لفظ کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھا ہے۔ ناصر کاظمی کے سب ملنے والے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اس جیسا لفظ شناس شاید ہی کوئی اور ہو۔ ایک بار ہم ناصر کاظمی سے دوستی کے دعویدار ایک صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ہمیں کوئی بات بتاتے ہوئے کسی قدر فخریہ انداز میں کہا کہ آخر ہم بھی ناصر کی صحبت میں بیٹھتے رہے تھے اور اس سے لفظوں کے استعمال کا ہنر سیکھا تھا۔ ہم نے یہی بات جب شیخ صلاح الدین صاحب سے بیان کی تو ان کا بے ساختہ جواب تھا کہ موصوف بالکل غلط بیانی سے کام لے رہے تھے۔

جب ان سے اس بات کی وضاحت مانگی تو شیخ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ”بھائی اگر انہوں نے ناصر کاظمی سے کچھ سیکھا ہوتا تو اتنی گھٹیا شاعری کبھی نہ کرتے۔ “ شیخ صاحب کے اس معیار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ناصر کاظمی سے فیض یاب ہونے کا دعویدار خواہ بہت اعلیٰ شاعری نہ بھی کر سکے، مگر وہ گھٹیا شاعری کبھی نہیں کر سکتا۔ باصر اپنے اس دعوے میں سچا ہے کہ اس نے ناصر کاظمی سے تربیت حاصل کی ہے اور اس کا شعری سرمایہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کی شاعری میں بے ڈھب اور بھرتی کالفظ نہیں ملے گا۔ وہ لفظوں کی اداؤں کی مکمل جانکاری رکھتا ہے۔ خامہ بگوش نے ایک بہت مشہور شاعر کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ لفظ کو نگینے کی طرح جڑتے تھے مگر یہ نہیں دیکھتے تھے کہ نگینہ انگوٹھی میں جڑا جا رہا ہے یا انگوٹھے میں۔ باصر کے کلام کا قاری یہ جاننے میں غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ انگوٹھی اور انگوٹھے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔

اعلیٰ ادب اور دیگر فنون لطیفہ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر بڑا مصنف اور فن کار اپنی تخلیقی کاوشوں کے بارے میں خود انتقادی کا رویہ رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے یہ صلاحیت بہت کم تخلیق کاروں کو عطا ہوتی ہے کہ ان کی اولین کاوش ہر اعتبار سے کامل ہو۔ شیخ صلاح الدین کے بقول ناصر کاظمی کا تخلیقی رویہ یہ تھا کہ وہ ”اپنے ہر شعر کو حق کے کڑے سے کڑے امتحان سے گزارتا اور جب کوئی شعر اس کے امتحان پر پورا اترتا تو وہ اس کو سناتا اور کئی کئی بار سنا کر اس کو پرکھ لیتا تو پھر اس کو شائع کرواتا۔ مگر وہ اس پر بھی مطمئن نہ ہوتا تھا۔ “ کیونکہ اصلاح و ترمیم کا عمل اس کے بعد بھی جاری رہتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments