باصر سلطان کاظمی: سرزمین شعر کا اجنبی مسافر


اس کے برعکس ہمارے بیشتر شاعر اور ادیب یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے قلم سے جو کچھ کاغذ پر رقم ہوتا ہے وہ ان پر نازل ہوتا ہے۔ اور جو چیز اوپر سے نازل ہو اس میں کسی قسم کا تغیر کرنا یا اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔ اس لیے جو وہ ایک بار لکھ لیتے ہیں نہ دوبارہ خود اسے پڑھتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کی بات پر دھیان دینا گوارا کرتے ہیں۔ شاید اقبال نے انہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا تھا:

صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے

گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

انیسویں صدی کے مشہور ولندیزی مصور وان گوخ(Van Gogh) کی تصویروں پر بعض ناقدین نے جب یہ اعتراض کیا کہ وہ بہت جلدی میں بنائی گئی ہیں، تو اس کا جواب یہ تھا کہ انہوں نے تصویروں کو بہت جلدی میں دیکھا ہے۔ تصویر بنانے کا عمل بے شک بہت جلدی میں ہوا ہے مگر ناقدین نے اس بات پرغور نہیں کیا کہ تصویر نے کتنے طویل عرصے تک مصور کے بطن میں پرورش پائی ہے۔

خاموش آتش فشاں سے لاوا دفعتاً پھوٹ بہتا ہے مگر اسے بننے میں شاید صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس موقع پر ضمیر جعفری نے ملائی زبان کے پنتونوں کا جو اردو ترجمہ کیا تھا اس کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے جس میں اس خیال کو بڑے خوبصورت انداز میں ادا کیا گیا ہے :

جب سب ٹیلا جل چکتا ہے تب جا کر لاوا بہتا ہے

یہ ناصر کاظمی کی تربیت کا فیضان ہے کہ باصر بھی لکھ کر کاٹنے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ وہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ ہیرا بھی ایک پتھر ہی ہے جب تک اس کو تراشا نہ جائے اور ہیرا تراشنا ایک بہت صبر آزما اور پر مشقت کام ہے۔ وہ اپنے لکھے کا خود بھی تنقیدی جائزہ لیتا ہے اور دوسروں کی بات کو بھی دھیان سے سنتا ہے۔ اگر کسی سقم کی طرف توجہ دلائی جائے تو اس پر غور کرتا ہے۔ اس کا عمومی رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق سے جب ایک حد تک مطمئن ہو جائے تو اسے قریبی دوستوں کو سناتا ہے اور اس پر رائے طلب کرتا ہے۔

دوستی کے اس طویل سفرمیں اس کے تازہ کلام کے اولین سامعین میں سے ایک میں بھی ہوں۔ یہ اس کا حوصلہ ہے کہ مجھ جیسے غیر شاعر کی بات کو بھی لائق توجہ گردانتا ہے۔ بلکہ ایک اعتبار سے اس نے مجھے ویٹو کا حق دے رکھا ہے۔ مجھے اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے میں کبھی باک نہیں رہا۔ چنانچہ اگر کوئی شعر مجھے پسند نہ آئے تو میں بلاجھجک اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ متعدد دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اگر وہ قائل ہو گیا تو اس نے شعر کو یا تو بدل دیا یا حذف ہی کر دیا۔

ناصر کاظمی سے اس نے ایک اور بات سیکھی ہے اور وہ ہے رائج الوقت فیشن کی پیروی سے حذر کرنا۔ ناصر کاظمی کے زمانے میں ایک طرف تو وہ لوگ تھے جنہوں نے آئیڈیالوجی اور کمٹمنٹ کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور ہر ادیب اور شاعر سے یہ تقاضا کیا جاتا تھا کہ اسے وہ لکھنا چاہیے جو پارٹی کی آئیڈیالوجی کا مقتضا ہے نہ کہ جو وہ خود لکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو پیرس کے تازہ ترین فیشنوں کی پیروی کرنے کو ہی تخلیق کی معراج جانتے تھے۔ ان میں پہلے گروہ نے جو ادب تخلیق کیا اس کا حسب خراب تھا تو جدید ادب کا نسب مشکوک تھا۔ ان کے برعکس ناصر نے کسی آئیڈیالوجی کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ اس نے وہی کچھ لکھا جو وہ خود لکھنا چاہتا تھا۔

باصر نے بھی شعر گوئی میں نہ تو ان روایتی حربوں سے کام لیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا برائے شعر گفتن خوب است اور نہ کسی آئیڈیالوجی سے فکر مستعار لی ہے، نہ کسی نام نہاد روح عصر کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے اور نہ کبھی کسی فیشن کی نقالی میں شعر کہے ہیں۔ اسی کا ایک شعر ہے :

کم لکھا ہے لیکن جتنا لکھا ہے

جیسا لکھنا چاہا ویسا لکھا ہے

اس نے صرف اپنے محسوسات، مشاہدات، تخیلات اور تجربات کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس کی شاعری کا منبع اس کی اپنی ذات اور باطن کی پکار ہے مگر وہ خارجی دنیا کے احوال و وقائع سے بے خبر بھی نہیں۔ آس یاس، یافت نایافت، مسرت الم یہ سب زندگی کے رنگ ہیں اور باصر نے کسی رنگ سے منہ نہیں موڑا۔ زندگی کے بارے میں اس کا رویہ رومانی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ ایک صورت حال کو قبول کر لیتا ہے مگر اس میں بہتری کی آرزو سے دست بردار نہیں ہوتا۔

یہاں نہ جینے کا وہ لطف ہے نہ مرنے کا

کہا تھا کس نے کہ آ کر رہو پرائی جگہ

گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

وان گوخ کا کہنا ہے کہ مصور کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے چھ بنیادی رنگوں میں توازن قائم کرنا۔ شاعر کا میڈیم رنگ نہیں الفاظ ہیں۔ اس کے لیے چیلنج ہے کسی قلبی واردات، روحانی کیفیت، ذہنی خیال، نفسیاتی حال کو مناسب اور دلربا جامۂ حرف میں ملبوس کرنا۔ شاعر لسانی وجود خلق کرتا ہے۔ اس لیے شاعری میں زبان کی حیثیت بنیادی ہے جبکہ موضوعات کی حیثیت ثانوی ہے۔ شاعر اظہار کے جو سانچے استعمال کرتا ہے ان کی ہیئت کی ایک روایت موجود ہوتی ہے۔ یہ سانچے اگرچہ بے لچک نہیں ہوتے مگر کوئی بھی سانچہ لامحدود حد تک لچک دار نہیں ہو سکتا۔ اب شاعر ان سانچوں کی لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے لسانی وجود خلق کرتا ہے جنہیں ناصر کاظمی کی ترکیب استعمال کرتے ہوئے مانوس اجنبی قرارد یا جا سکتا ہے۔ بطور خالق ایک شاعر کا مقام و مرتبہ اسی سے طے ہو گا کہ اس نے کتنے ایسے وجود تخلیق کیے ہیں جو بیک وقت مانوس بھی ہوں اور اجنبی بھی۔ باصر کی شاعری کا مقام طے کرنا تو اس کے قارئین یا پھر ناقدین کا کام ہے مگر میری رائے میں اس کی شاعری میں مانوس اجنبی قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ اس کی غزل اگرچہ روایت سے جدا نہیں مگر اس کے ایک ایک شعر پر باصر کی مہر موجود ہے کہ یہ صرف اسی کا شعر ہو سکتا ہے کسی اور کا نہیں۔ اس مجموعے میں دو ایسی غزلیں بھی شامل ہیں جنہیں میں تجرباتی غزلوں کا نام دوں گا۔ ایک غزل میں اس نے دو مختلف قسم کے قافیے استعمال کیے ہیں جبکہ دوسری غزل میں محض بصری قوافی استعمال کیے گئے ہیں۔

باصر کے اولین مجموعہ کلام موج خیال میں اگرچہ اس کی انفرادیت پوری طرح جلوہ گر تھی مگر اس میں روایتی تغزل کے آثار بھی نمایاں تھے۔ اردو غزل کے ساتھ المیہ یہ ہوا تھا کہ میر صاحب جیسے بحر پر شور کی موجودگی کے باوصف غزل کو معاملہ بندی اور مخصوص لفظیات کی تنگنائے میں قید کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا اقبال کی غزل کو غزل ماننے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ ایک مخصوص انداز اور لہجہ تغزل کا نشان بن گئے۔ ہم نے سنا بھی اور پڑھا بھی ہے کہ محمد حسن عسکری صاحب اردو کے بہت بڑے نقاد تھے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں وہ ناصر کاظمی کی غزل کے بہت مداح تھے۔ مگر جب ناصر نے اپنی غزل میں گھاس کا لفظ استعمال کیا تو عسکری صاحب بدک گئے کیونکہ ان کا شعری ذوق غزل جیسی نازک صنف میں اتنے کریہہ الصوت لفظ کا استعمال برداشت نہ کر سکا۔ انہیں لگا کہ شاعر نے تغزل کا اپمان کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عسکری صاحب اگر آج زندہ ہوتے اور ناصر کاظمی کے فرزند کا یہ شعر سنتے تو ان پر کیا بیتتی:

مشکل ہوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا

الجھی ہوئی ہے ڈور سے کوئی دگاڑ سی

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments