چین میں تبدیلی کب اور کیسے آئی؟


ہمارے بڑوں نے جب ڈیفنس فیز ون کراچی میں رئیر ایڈمرل حاجی محمد صدیق پاکستان کے پہلے کمانڈر ان چیف کے سمجھانے پر فیز ون میں ایک پلاٹ خریدا تو خاندان کے غیر عسکری ممبرز نے انہیں سمجھایا کہ اتنے میں تو سنگاپور میں بھی پلاٹ کیا گھر بھی مل جاتا ہے۔ ابوالکلام آزاد کی بات مت سنو مگر جناح صاحب نے یہ کب ضد کی تھی کہ ڈیفنس کراچی میں رہو۔ نہیں مانے۔ بہت بعد میں بستر مرگ پر کہتے تھے انہوں نے فیز ون ٹو بنایا پھر گنتی بھول کر چار سے نو تک پہنچ گئے۔ فیز تین کو انہوں نے تیرہ سمجھ کر منحوس جانا۔ فیز تھری کو کسی نقشے میں ظاہر نہیں کرتے۔ روئے زمین پر یہ وہ واحد اتھارٹی ہے جو اپنے علاقے تک نقشوں میں بھی غائب کر دیتی ہے۔

حاجی صاحب کا خیال تھا کہ ڈیفنس میں کبھی کوئی جرم نہیں ہوگا لہذا یہاں تھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حاجی صاحب کو بڑوں نے جن کی ان سے دوستی پرانی تھی اس کے علاوہ میلاد، شادی پر خواتین کا میل جول بھی تھا پوچھتے تھے کہ اس نئی بستی میں پانی، اسکول کا بھی کوئی بندوبست ہے

ہنسی ٹھٹھول میں جواب ملتا کہ یہاں کی ہوا میں وہ تاثیر ہوگی کہ مکینوں کو پیاس نہیں لگے گی۔ ہر بچہ جو ڈیفنس فیز ون اور ٹو میں پیدا ہوگا اسے برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ ہارورڈ وراٹن کیمبرج اور سوربورن کی جامعات کی ڈگری بھی زچہ بچہ کے اس ہسپتال سے جاری ہو گی۔ بڑوں نے کانا پھوسی کی کہ سرکار پینے کے علاوہ بھی کچھ کاموں کے لیے پانی درکار ہوتا ہے۔ تائو کھا گئے کہ ایک تو بزدل میمنوں کو فوج میں نوکری دو اس پر بھی بحث کرنے اور ہمارے منصوبوں میں کیڑے نکالنے سے باز نہیں آتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی نئے فیز میں تو تھانے ہیں۔ فیز ون کا تھانہ بہت عرصے تک گرین بیلٹ پر موجود رہا۔

بات ڈیفنس کی نہیں سنگاپور کی ہو رہی ہے۔ سنگاپور میں گھومیں تو اپنی ویرانی، وسعت اور بے لطفی کے اعتبار سے کراچی کا ڈیفنس سنگاپور کی نسبت صحرائے گوبی لگتا ہے۔ کوالالمپور میں ہمیں ایک ملک التجار  زیدی صاحب مل گئے۔ گھر لے گئے۔ کسی انگریز فوجی افسر کے ساتھ برما کے محاذ پر تھے۔ جنگ ختم ہونے پر ان کے ساتھ ملایا آ گئے تھے۔ حیدرآباد دکن سے اپنی کزن کو بیاہ کر لے آئے تھے۔ پاکستان بنا تو ان کا سسرال سارا پنجاب چھوڑ کر چکوال بس گیا۔ انہوں نے انگریز سے پوچھا کہ میں کیا کروں تو اس نے خود کو دوہرے آزار میں مت ڈالو۔ کہا بیوی پاکستانی ہے تو شہریت ملایا کی رکھو۔

ہم نے پوچھا آئینہ عقب نما میں دیکھیں تو فیصلہ اچھا تھا کہ برا؟۔ بہت عمدہ۔ تجارت میں مال بھی بہت بنایا۔ اپنی ہر سیکرٹری سے شادی کی۔ سیکرٹری کو بتا دیتے تھے کہ کانٹریکٹ اور نکاح نامہ دونوں Co-Terminus یعنی ہم معیاد ہیں۔ کئی بیویاں نپٹائیں۔ جسے چھوڑا، اسے گلہ نہ ہوا۔ آج بھی ملتی ہیں تو دیوانوں کی طرح۔ مقامی ملے خواتین کی ناک کا مسئلہ آڑے نہ آئے تو وہ بہت اچھی ہیں۔ ہم نے کہا ناک تو جسم کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ کم بخت قلوپطرہ کی وجہ سے اس عضو کو اتنی اہمیت ملی۔ کہنے لگے ایک پاکستانی خاتون سیاست دان کی ناک کے ملائشیین باشندے دیوانے ہیں۔ ہم نے کہا یہ مسلمان جذباتی قوم ہیں۔ بخارا و سمرقند ایک خال پر لٹانے والے۔

زیدی صاحب کی بعد میں ممبئی میں ساحر سے ملاقات ہوئی تو انہیں پاکستان کے حوالے سے یہ قطعہ بہت اچھا لگا جو ایم کیو ایم میں ہمارے ایک خوفناک، قاتلوں کے قاتل وزیر کو بھی بہت پسند تھا۔ نائن زیرو سے مایوس ہوتے تو حماد صدیقی کی میٹنگ میں آمد سے پہلے اکثر اسے ہی پڑھا کرتے تھے۔

یہ شاخِ نور جسے نفرتوں نے سینچا ہے

اگر کِھلی تو شراروں کے پھول لائے گی

نہ پھل سکی تو نئی فصلِ گُل کے آنے تک

ضمیرِ ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی

ساحر لُدھیانوی

ہم انہیں کہا کرتے تھے کہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جس کو اس نے زیادہ نوازا وہی اس سے زیادہ شکوہ سنج رہتا ہے

آئیں سنگاپور کی بات کرتے ہیں۔

سنگاپور کے مرد آہن لی کوان یو نے چین کو بدل دیا۔ چین کے سربراہ Deng Xiaoping جنہیں جدید چین کا معمار کہا جاتا ہے۔ ان کے سن 1978 سے 1989 سال کے دور اقتدار میں جب ٹیانمن اسکوائر جیسے ہنگامے ہوئے تو شاپنگ بیگ تھامے سینہ سپر ایک مرد جرات مند کی تصویر نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔

کئی سیاسی رہنما ایسے ہوتے ہیں جن میں آپ ہمارے دو وزرائے اعظم اور مجیب الرحمان کو شامل کرسکتے ہیں جو فطرتاً انتشار پسند ہوتے ہیں۔ طویل سیاسی جدوجہد اور خلفشار کے تو چیمپیئن ہوتے ہیں مگر جن کی انتظامی صلاحیتیں ان کی خود پسندی، افتاد طبع اور احساس تفاخر کی وجہ سے کسی طور نشوونما نہیں پاسکتیں۔ کیوں کی یہ ٹیم ورک کے معمولات ہیں۔ یہ سب  Charisma کے چمتکار سے حکمرانی کے عادی ہوتے ہیں۔ سرکار کے ان بڑے عہدوں کے لیے من موہن سنگھ، حسینہ واجد اور اردگان جیسے معتدل مزاج کے مردم شناس لوگ درکار ہوتے ہیں۔

مائوزے تنگ بھی ایسے ہی تھے۔ دو عدد ناکام انقلابات کے بعد چین کا برا حال تھا۔ معاشی اور اداروں کی تباہی نے چین کو بدحال کردیا تھا۔

ڈینگ زیائو پنگ نے چین کا الطاف حسین بننے کو ترجیح دی۔ کوئی اہم عہدہ اختیارات ملنے کے بعد اپنے پاس نہیں رکھا۔ مجیب، بھٹو اور عمران خان کی طرح خود کوئی عہدہ نہیں سنبھالا۔ سپریم لیڈر بن کر رہے اسی وجہ ان کی اتنا ہی بڑا مقام ہے۔ ان کے بعد آنے والے رہنما چین کے اہم عہدے دار انہیں پس منظر میں رہنے کے باوجود انہیں مائوزے تنگ سے بڑا رہنما مانتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کی وزیر اعظم چواین لائی مداح تھے۔ وہی چو این لائی جن کے کسنجر اور خود ذوالفقار علی بھٹو گرویدہ تھے۔

چو این لائی پر جب کینسر کا شدید حملہ ہوا ایک جانشین کی تلاش شروع ہوئی۔ وہ ان کی ذہانت اور صلاحیت سے متاثر تھے۔ مائو کو انہیں نے سمجھایا۔ انہیں وہ شن جیان کی ایک ٹریکٹر فیکٹری سے کھینچ کرلے آئے۔ ڈینگ یہاں مائوزے تنگ کے حکم پر ایک عام مزدور کے طور پر بطور جبری مشقت کی شق کے تحت ملازم تھے۔

 ان کی قید کا قصہ یوں ہے کہ مائوزے تنگ ان کی روشن خیالی سے تنگ تھے۔ وہ معاشی طور پر انہیں ان کی مغربی تعلیم کی روشنی میں سرمایہ دارانہ نظام کا حامی اور بہت آزاد خیال مانتے تھے۔ یہ روشن خیالی ہی ان کے آڑے آئی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ بلی جس چوہے مارنا کے لیے پالا گیا ہے۔ اگر وہ چوہے مارتی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی کالی ہے کہ سفید۔ اس فقرے نے مغرب اور مشرق میں بہت اودھم مچایا۔ پریکٹکل سوچ کا یہ عجب منترہ مانا گیا۔

 یہ جملہ انہون نے زمین کی ملکیت سے کسان کو محروم رکھنے People’s Commune system کی مخالفت میں کہا تھا۔ وہ انسانی فطرت کے اس اہم راز کے داعی تھے کہ انسان کو معاشی لالچ اور بہتر مسقبل کا سپنا Productive بناتا ہے۔

ڈینگ اس نظریے کے حامی تھے کہ ہمیں سرکار کو لیز پر دینی چاہیے۔ ان کے گھرانے نے اس مخالفت جو مائو کی ناراضگی کا باعث بنی اس کا بہت آزار سہا۔ وہ انہیں اس گروپ کا سرخیل سمجھتے تھے جو ان کے اشتراکی نظام کی ضد میں سرمایہ داری نظام واپس لانا چاہتا ہے۔۔ بیٹا  Deng Pufang بھی اس تشدد کی وجہ سے مفلوج ہوگیا۔

چواین لائی کی 1976 وفات سے ڈینگ کے پارٹی مخالفین ایک دفعہ پھر سے نو منتخب سربراہ ہواکوفنگ کی سربراہی میں زور آور بن گئے۔ ان پر یہ بھی الزام آیا کہ بیجنگ میں کنگ منگ فیسٹیول پر چواین لائی کی یاد میں جو عظیم الشان جلسہ بیجنگ میں ٹیان من سکوائر والے ہنگاموں کے محرک ڈینگ ہی تھے۔ کرنی یوں ہوئی کہ مائوزے تنگ کا ان کا چند ماہ میں دیہانت ہوگیا۔ پارٹی کے سینئر ترین لیڈر ہونے کی وجہ سے وہ پیپلز لبریشن آرمی کے سربراہ بن گئے۔ جب اندرونی سیاست اور اقتدار پر ڈینگ کی گرفت مضبوط ہوئی اور نئی اصلاحات کا موسم آیا تو انہوں نے کوالالمپور، تھائی لینڈ اور سنگاپور کا دورہ کیا۔

یہ وہ تین ملک تھے جو ڈینگ کے سامنے اس وقت رول ماڈلز کے طور پر اپنائے جا سکتے تھے۔ باقی دو ممالک تو شاید ڈینگ زیاو پینگ کو اتنے پسند نہ آئے مگر وہ سنگاپور کے مرد باکمال لی کوآن یو سے مل کر بہت متاثر ہوئے۔ لی کوآن یو وہ عجب مجموعہ تضاد تھے جنہیں دنیائے جمہوریت کا سب سے پسندیدہ ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ جس ڈگری پر ہمارے سینٹ کے ایک چئیرمین سن دو ہزار میں اتراتے تھے وہ لی کوآن یو اور ان کی بیگم نے سن 1951 میں حاصل کرلی تھی یعنی Doctor of Law۔ بچپن سے ایسے کمال کے طالب علم تھے کہ امتحان کے پرچے میں جہاںAttempt any Five Questions  لکھا ہوتا۔ لی کوآن یو سب سوالات کے جوابات لکھ کر آتے اور ممتحن کو جتا دیتے کہ Check any five questions۔

لی کوآن یو کے بارے میں چین کے اس مرد جدید اور دیگر زعما بشمول موجود صدر شی جن پنگ کا یکساں نقطہ اعتراف یہ ہے کہ وہ عالمی سیاست میں ایسے منفرد رہنما اور تدبیر کار تھے جن میں مشرقی روایات اور مغربی شعور اپنی اعلی ترین صورت میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔

 ایک دفعہ یوں ہوا کہ ہم اسلام آباد سے کراچی آتے تھے۔ جہاز میں ایف بی آر کو ٹیکس ریفارمز پر مشورہ دینے والا خصوصی مہمان جسے نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں سنگاپور سے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا ہمارا ہم نشست تھا۔ تاسف سے کھڑکی سے باہر دیکھتا تھا۔ اپنے سنگاپور کے رقبے کا دھیان کر کے ہم سے ایک سوال کرتا تھا۔ اتنے بڑے رقبے کے باوجود آپ اتنا غریب اور تباہ حال ملک کیسے بن گئے؟۔

لی کوآن یو نے ڈینگ کو چار نکات پلے باندھ دیے۔ جن پر انہوں نے مذہبی عقیدت سے عمل کیا۔

پہلا: کسی سے معاشی ترقی کے اعلی ترین مدارج پر پہنچے بغیر عسکری تصادم نہ کریں۔ خالصتاً تاجر کے ذہن سے دنیا کو دیکھیں۔ ماں کی نصیحت دل میں بٹھا لیں کہ دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں۔ دنیا میں کوئی دھندہ چھوٹا نہیں

دوم: اپنے یہ سڑے ہوئے سیاسی اشتراکی نظریات اپنے ہی ملک میں کہیں دفن کر دیں۔ کسی نظریے کی بجائے اس کے قابل عمل اور مفید ہونے پر توجہ رکھیں۔ سنگاپورpracticality  کو ideology  پر فوقیت دیتا ہے۔ صرف یہ دیکھیں کہ تمہارا منصوبہ اور اس پر عمل درآمد فائدہ مند ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس پر استقامت دکھائیں نہیں تو اسے کھڑکی سے باہر کچرے میں پھینک کر نیا منصوبہ بنا کر عمل کریں۔

 سوم : اداروں میں بہت جدید اصلاحات کرو۔ ہمارے ہاں اپنے بیوروکریٹس تربیت کے لیے بھیجو۔ ان کارندوں کو تنخواہ اگر مونگ پھلی جتنی دو گے تو سرکاری ملازمت کرنے بندر ہی آئیں گے۔ کرپشن پر گرفت ایسی ہو کہ گولی سب کے سامنے مارو اور اس کی رقم بھی مرنے والے کی فیملی سے لو۔ ایک کڑے بیرونی محاسبے کے عمل سے بیورکریسی کو اسٹیل فریم میں بدل دو۔ کوئی فرد کوئی ادارہ ان کی رسائی سے باہر نہ ہو اور خود یہ شیشے کے گھر میں رہتے ہوں۔

چہارم:ب یرونی تجارت میں سستے مال کی بہت کھپت ہے۔ سستا مال سستے  Inputs سے بنتا ہے۔ تمہارا سرمایہ تمہارا افرادی سرمایہ ہے۔ ہاروڈ کے پروفیسر ایزرا وگیل کا خیال ہے کہ گورننس سے متعلق سنگاپور کی جدید اور ایماندار بیوروکریسی نے چینی بیوروکریسی کو بہت بہترین تربیت فراہم کی۔ ان اصلاحات کا جائزہ لینے لی کوآن یو خود بھی تیس سے زائد مرتبہ چین گئے۔ یہ ان کا کسی بھی ملک کے سب سے زیادہ دورے ہیں۔

جنوری 1979ء میں جب سرکاری طور پر امریکہ نے چین کو تسلیم کیا تو ایک نئے دور تجارت کا آغاز ہوا۔ اس رابطے میں کمال یہ تھا کہ جب وہائٹ ہائوس میں صدر جمی کارٹر کے عہد میں ڈنر پر ڈینگ زیائو پنگ مدعو تھے تو انہوں نے اصرار کیا کہ وہ خود بھلے ڈیموکریٹ پارٹی سے ہوں گے مگر یہ ساری رام لیلا تو ری پبلکن پارٹی کے رچرڈ نکسن سابق صدر کے دور میں رچائی گئی تھی۔ ان کے بغیر وہ ڈنر میں شریک نہیں ہوں گے۔ جانسن خلائی مرکز، بوئنگ فیکٹری، کوکاکولا فیکٹری کا موقع پر معائنہ بھی اس سرکاری دورے کا حصہ تھا۔ پہلے ہی دورے میں امریکہ کو پیغام دیا گیا کہ تعلقات کے خدوخال نکسن دور کے ہوں گے مگر ترجیح تجارت اور ٹیکنالوجی کو ہوگی۔ اس کی نسبت ہمارے سربراہان جن نہلے دہلے دوستوں کو اپنے وفود میں ٹھونس کر لے جاتے ہیں۔ انہیں میزبان ملک کے ایما پر میٹنگز سے باہر پھینک دیا  جاتا ہے۔

ہم بیرونی دوروں پر کتنے سنجیدہ ہوتے ہیں اس کا اندازہ یوں لگائیں۔ ایک وزیر اعظم سے ترکی کے نجی دورے میں وہاں کی وزیر اعظم تینسو چلر خاص طور پر کسی دور افتادہ مقام سے پرواز کرکے ملنے آئیں۔ ترک وزیر اعظم مقام ملاقات پر منتظر رہیں۔ ان کی مصروفیات خاص تھیں۔ وقت کی قلت تھی۔ ہمارے سربراہ کا بنائو سنگھار اتنا طول کھینچ گیا کہ وقت گزر گیا ترک وزیر اعظم جھلا کر جہاز میں بیٹھ کر بتائے بغیر چلی گئیں۔ خاصی بد مزگی ہوئی۔ ملاقات منسوخ ہوگئی۔ شنید ہے۔ جھوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ ذہن میں موصوف کا Attention Span سامنے لائیں تو ناممکن نہیں لگتا۔ ہمارے ایک وزیر اعظم سرکاری ڈنر پر تقریر میں کرغزستان کے وزیر اعظم کو ازبکستان کا وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ سفیر نے توجہ دلائی تو پنجابی میں کہنے لگے’’ میرے ولوں تسی معافی منگ لینا، او احمد شاہ مسعود مینوں کدی وی چنگا نئیں۔ لگیا ایس لئی بار بار ازبکستان دا ناں زبان تے آگیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ تو تاجکستان کا تھا تو کہنے لگے اچھا تے او کوئی ہور ملک ہے؟‘‘

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments