پی ایف یو جے نے مطیع اللہ جان کے اغوا پر تحقیقاتی اور مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا


پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے ) جو ملک کی تمام صحافی یونینوں کی بالائی تنظیم ہے، نے مطیع اللہ جان کے اسلام آباد کے ایک ہائی سیکیورٹی زون سے اغوا کے واقعے پر ایک چھے رکنی کمیٹی بنا دی ہے جو اس معاملے پر تحقیقات اور پولیس کی تفتیش کی مانیٹرنگ بھی کرے گی۔

یونین نے مطیع اللہ جان کے توہین عدالت کے کیس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کی تفہیم کی حد تک ایک فریق بننے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

اس چھے رکنی کمیٹی کے سربراہ پاکستان کے سینئیر ترین ورکنگ جرنلسٹ جناب ضیا الدین ہوں گے جبکہ منیزے جہانگیر، ناصر ملک، فوزیہ شاہد، عصمت اللہ نیازی اور آصف بشیر چوہدری اس کے ممبر ہوں گے۔ چیئرمین کو اس بات کا اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ حسب ضرورت ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے سکتے ہیں اور سول سوسائٹی سے مزید ممبران بھی شامل کر سکتے ہیں۔

کمیٹی بنانے کا فیصلہ پی ایف یو جے کی صحافیوں کے بظاہر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں پاکستان میں آزادی اظہار کو کچلنے کی کوشش میں تشدد اور اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر فکرمندی کے باعث کیا گیا ہے۔

مطیع اللہ جان کو 21 جولائی کو صبح 11 بج کر دس منٹ پر اسلام آباد کے ہائی سیکیورٹی زون G۔ 6۔ 1 / 3 سے پولیس یونیفارم پہنے لوگوں کے گروہ نے اغوا کیا تھا جو پولیس کی بتیوں والی گاڑیوں میں سوار اور مسلح تھے۔ ان کے اغوا نے میڈیا پر ایک شدید ارتعاش پیدا کیا اور بظاہر اس کی وجہ سے اغوا کنندگان نے اسی رات انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد کرنے کے بعد آزاد کر دیا۔

یہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دو ہفتے پہلے انور جان کھیتران، بلوچستان کے علاقے برکھان کے ایک صحافی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ دو برس پہلے ”دی نیوز“ کے رپورٹر احمد نورانی کو آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر سے چند گز دور اسلام آباد کے ہائی سیکیورٹی زون میں مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ قریب المرگ ہو گئے تھے۔

یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ صحافیوں پر تشدد اور اغوا کے ان تمام کیسوں میں کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا جبکہ اسلام آباد کے طول و عرض میں سیف سٹی کے دو ہزار سے زائد کیمرے لگے ہوئے ہیں۔

بروز بدھ اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رپورٹ جمع کروائی جس نے یہ ثابت کر دیا کہ نا تو نادرا ہی پولیس سے تعاون کر رہی ہے اور نا پولیس کی تفتیشی ٹیم کو جیو فینسنگ مہیا کی گئی ہے۔ کوئی خفیہ ہاتھ دکھائی دیتا ہے جو نادرا کو جو تفتیشی افسران کو چہرے کی شناخت کا ریکارڈ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے ڈپارٹمنٹ کو روک رہا ہے جو جیو فینسنگ دینے کا ذمہ دار ہے۔

پی ایف یو جے مطیع اللہ جان کے توہین عدالت کیس میں آزادی اظہار کے بنیادی حق کے سنگین مضمرات کے بارے میں بھی فکرمند ہے جس کی ضمانت آئین کا آرٹیکل 19 دیتا ہے۔ اسی فکرمندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پی ایف یو جے نے آئین کے آرٹیکل 19 کی حد تک اس کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ایف یو جے نے سپریم کورٹ کے معزز ججوں کے اس کیس میں سخت ریمارکس کو بھی فکرمندی سے نوٹ کیا ہے۔ جبکہ عدالتیں لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ مانی جاتی ہیں، معزز ججوں کی ایسی آبزرویشنوں سے سول سوسائٹی نے بالعموم اور صحافی کمیونٹی نے بالخصوص اچھا تاثر نہیں لیا۔

پی ای یو جے پاکستان میں آزادی اظہار اور جمہوریت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کی توثیق کرتی ہے اور ریاستی اداروں کی جانب سے میڈیا ہاؤسز پر شدید دباؤ اور میڈیا پر عائد غیر علانیہ سینسر شپ پر سخت فکرمندی کا اظہار کرتی ہے۔ پی ایف یو جے یہ دہراتی ہے کہ وہ ان تمام عناصر کے خلاف کھڑی ہو گی جو آزاد پریس اور سوشل میڈیا کو خاموش کرنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments