روس میں گھریلو تشدد: پیار کرتا ہے تو پیٹتا ہے نا


یہ وہ ملک ہے جہاں عورت کو طلاق کا حق، دنیا میں سب سے پہلے تفویض کیا گیا تھا، جہاں 8 مارچ کو یوم خواتین کے طور پر بہت پہلے منایا جانا شروع کیا گیا تھا، عورتوں کو حق رائے دہی دینے والے اولیں ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے جن میں ڈاکٹر، اساتذہ، سائنسدان، مزدور، صناع سبھی پیشوں سے وابستہ خواتین شامل ہیں مگر یہاں سولھویں صدی میں رواج پانے والا محاورہ ”مرد مارتا ہے تو سمجھو وہ تم سے پیار کرتا ہے“ آج بھی مقبول ہے۔ عورتیں مردوں کی مار کو نہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ کچھ تو فخر سے کہتی ہیں ”پیار کرتا ہے تو مارتا ہے“ جس کو مار نہ کھانے والی یا مار نہ سہہ سکنے والی عورتوں نے بدل کر یوں کر لیا ہے : ”حسد کرتا ہے تو مانو پیار کرتا ہے“ ۔

روس کی حکومت کے سرکاری اندازوں کے مطابق چالیس فیصد متشددانہ جرائم گھروں کے اندر ہوتے ہیں۔ اندازے کے مطابق اس ملک میں 36000 عورتوں کو ان کے شوہر یا ان کے مرد (بوائے فرینڈ وغیرہ) روزانہ پیٹتے ہیں جبکہ اس ملک میں ہر سال 26000 بچوں کو ماں یا باپ یا دونوں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

ایک این جی او، جو گھریلو تشدد کے شکار افراد کی مدد کرتی ہے کے مطابق روس میں گھریلو بدسلوکی کے نتیجے میں ہر برس 14000 سے زیادہ عورتیں ماری جاتی ہیں۔

Alyona Popova

عورتوں کے حقوق کی خاطر لڑنے والی الیونا پوپووا کہتی ہیں کہ ملک میں عورتوں سے متعلق قدیم سوچیں پھر سے پروان چڑھنے لگی ہیں بلکہ مبصرین مردوں اور عورتوں دونوں ہی نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ ”عورت مشتعل کرتی تو مرد تشدد کرنے پر اتر آتا ہے“ یا یہ کہ ”کوئی ایسی حرکت کی ہوگی تاکہ مار کھائے“ وغیرہ وغیرہ۔ پوپووا کا کہنا ہے کہ عورتیں اپنے طور پر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ انہیں معاشرہ سکھاتا ہے کہ شادیاں کرو تاکہ مرد تمہارے معاملات نمٹائیں۔ مرد تمہیں پیٹتا ہے، اس لیے پیٹتا ہے کہ وہ طاقتور ہے۔ تمہیں تو سب سے پہلے اس بات سے مطمئن ہونا چاہیے کہ تم بیاہی گئی ہو ”۔

بیاہ ہونا روس کے علاوہ دوسرے یورپی ملکوں میں بھی مسئلہ ہے۔ لڑکی کی شادی بیس اور پچیس برس کی عمر کے درمیاں میں ہو جانی چاہیے۔ اس عمر میں ہونے والی بیشتر شادیاں ”پیار“ کی وجہ سے ہوتی ہیں جو ایک ”جذباتی“ فیصلہ ہوتا ہے۔ پہلے بچے کے بعد مرد کی بیوی میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے اور وہ بیاہ سے باہر تعلقات بنانے پر مائل ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں جان لینے کے بعد اکثر بیویاں طلاق لے لیتی ہیں۔

روس میں پچیس برس سے اوپر کی لڑکی کو لڑکی نہیں بلکہ ”تیوچی“ یعنی آنٹی سمجھا جاتا ہے بلکہ دبے دبے لفظوں میں کہا بھی جاتا ہے۔ اس عمر کے بعد ہم عمر سے بیاہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور ایک بچے کی موجودگی میں تو خاصا مشکل کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ”غیر کے بچے کو بھلا کون اپنا بچہ خیال کرتا ہے“ لیکن بچہ ماں کا تو ہوتا ہی ہے۔ اس پر وہ توجہ کم نہیں کر سکتی۔ جو بچے والی ”تیوچی“ سے بیاہ کر بھی لے گا تو اس کی خواہش ہوگی کہ بیوی اس کو توجہ دے۔ یوں اختلاف ہو جاتا ہے اور بات جوتم پیزار تک پہنچ جاتی ہے۔

مسئلہ صرف روس کا ہی نہیں ہے جہاں باوجود قانون ہونے کے اگر ہمسائے پولیس کو اطلاع کر بھی دیں تو علاقے کا تھانیدار آ کر سرزنش کرے گا اور کہے گا کہ ”آپ کے گھر کا اندرونی معاملہ ہے، اس لیے بہتر ہے خود ہی نمٹائیں“ بلکہ امریکہ تک میں عورتوں پر مردوں کی جانب سے تشدد کیا جانا کچھ کم نہیں ہے۔ روس میں اگر یہ عیب نچلے یا درمیانے طبقے میں زیادہ ہے تو امریکہ میں ایسے تشدد کی سب سے زیادہ شکار اعلٰی طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں ہوتی ہیں جو ایسے سلوک کی شکایت اس لیے نہیں کرتیں کہ وہ ناز و نعم کھو جانے سے خائف ہوتی ہیں۔

چار سال پہلے روس کے صدر نے کریمینل کوڈ کی ایک ترمیم پر دستخط کیے تھے جس کی رو سے گھروں میں کیے جانے والے تشدد کو ”غنڈہ گردی“ اور ”نفرت پر مبنی جرم“ کے طور پر قابل گرفت بنایا گیا ہے لیکن انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی ایلینا مازولینا نے 27 جولائی کو اسمبلی میں ایک قرار داد جمع کروائی تاکہ اس ترمیم کو رد کروایا جا سکے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ گھریلو جھگڑوں کی بنیاد پر آپ روس بھر کے مردوں کو جیلوں میں تو نہیں ٹھونس سکتے۔ قرار داد تو رد ہو گئی لیکن مار کھانے والی بہت کم بیویوں نے شوہروں یا دوستوں پر تعزیر لگوائی۔

پاکستان جیسے ملکوں میں سمجھا جاتا ہے کہ مغرب میں عورتیں آزاد ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے البتہ انہیں اس بات کی آزادی ضرور ہے کہ وہ جب چاہیں اس مرد سے جان چھڑا لیں جو ان کو برا لگتا ہو مگر اس کے بعد کے مسائل تو ختم نہیں ہوتے۔ کام کے ساتھ ساتھ اکیلی عورتوں کو بچے یا بچوں کو کنڈر گارٹن یا سکولوں میں پہنچانا اور وہاں سے لینا، بچوں کے لیے کھانا تیار کرنا، ان کو سکول جانے کے لیے تیار کروانے کے ساتھ ساتھ خود بھی کام پر جانے کے لیے تیار ہونا۔ بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کے لیے کمانا۔ ایسی بہت سی مائیں اور بچوں والے اکیلے باپ ہیں جنہوں نے اپنا بچہ/ بچے معاوضتا ”یتیم خانوں میں جمع کروائے ہوتے ہیں جنہیں وہ چھٹی کے دن مل سکتے ہیں، گھر لے جا سکتے ہیں، سیر کروا سکتے ہیں۔

عورتوں کا مردوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ کہیں اس کی وجہ معاشی پسماندگی ہوتی ہے تو کہیں شراب کا زیادہ استعمال۔ کہیں جہیز نہ لائے جانے کو بنیاد بنا لیا جاتا ہے تو کہیں عورت کی بدمزاجی اس کا جواز بن جاتی ہے مگر جو بات طے ہے وہ یہ کہ ایسا وہی مرد کرتے ہیں جنہیں اپنے مرد کی حیثیت سے جسمانی طور طاقتور اور سماجی طور پر بالا دست ہونے کا زعم ہوتا ہے۔

یہ خیال کیا جانا کہ تعلیم یافتہ ہونے سے ایسے مردوں کا یہ زعم ماند پڑ جاتا ہے ماسوائے خوش خیالی کے اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ مغرب میں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ متشدد پائے گئے ہیں۔ یہ ہزاروں سال کی مردانہ بالادستی کا نفسیاتی شاخسانہ ہے جس سے نمٹنے کی خاطر محض اس رویے کے خلاف قوانین کا ہونا یا نسائیت پسندی کا فروغ ہی کافی نہیں بلکہ کمپلکس طریقے اختیار کرکے ہی اسے کم کیا جا سکتا ہے جن میں مندرجہ بالا قدم یعنی قانون بنانا اور اسے لاگو کرنا، عورتوں کا اپنے بارے میں باشعور ہونا اپنی جگہ پر سماجی اور معاشی بالیدگی کے ساتھ ساتھ بچوں کو قوم کی ملکیت سمجھ کر ان کے لیے، چاہے ان کے گھروں کے حالات اور والدین کے تعلقات کسی بھی طرح کے کیوں نہ ہوں، مکمل سہولیات اور وسائل کی فراہمی شامل ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).