پاک سعودی تعلقات اور OIC


دنیا کے کل قابل رہائش حصے میں سے اکیس فیصد حصے پر اور دنیا کے کل رقبہ کے 31.46 کلو میٹر رقبے پر 1.86 بلین یا 24.1 فیصد آبادی کے ساتھ 57 اسلامی ریاستیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ان مسلم ممالک میں انڈونیشیا کی 270 بلین آبادی کے بعد پاکستان 216.57 ملین آبادی کے ساتھ دوسرا بڑا اور واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مخالفین کے لئے باعث تشویش جبکہ مسلم امہ کے لیے باعث فخر ہے۔ نیوکلیئر اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ساتھ جدید۔ منظم اور پروفیشنل افواج کا حامل یہ ملک ویسے بھی دشمن کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔

6,53000 ایکٹیو پرسونلز پر مشتمل فوج کا بجٹ 10.3 ملین ڈالر ہے۔ پاک فوج کے 5083 جوان اس وقت یونائیٹڈ نیشن کے امن مشن میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ تعداد یونائیٹڈ نیشن کے امن مشن میں چھٹے بڑے ملک کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1180 جوان اس وقت سعودی عرب میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں پاک فوج کے جوانوں کی یہ تعداد ماضی کی نسبت اس وقت بہت کم ہے۔ جس کی وجہ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا امریکی افواج پر زیادہ انحصار ہے۔

گزشتہ چالیس سالوں سے پاک سعودیہ اور خلیجی ممالک میں گہرے تعلقات رہے ہیں۔ تاہم پاک سعودیہ کی قیادتوں کے تغیر و تبدل سے یہ تعلقات بھی نظرثانی کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ 1949، 1951

میں ورلڈ مسلم کانگریس (WMC) کے اجلاسوں کی میزبانی کراچی میں کی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے سعودیہ پاکستان سے مخاصمانہ جذبات رکھتا تھا۔ کیونکہ یہی 1950 کی دہائی تھی جب پاکستان اسلامی دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا۔ جبکہ سعودی عرب خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد سے مسلسل مسلم امہ کی لیڈرشپ کے خواب دیکھنے کی وجہ سے مسابقت رکھنا شروع ہوگیا اور پاکستان کو اپنا حریف سمجھتا تھا۔ پاکستان اس وقت امریکہ کے قریب تھا اور اس سے دفاعی معاہدے کر چکا تھا۔

پاکستان کی دیکھا دیکھی 1950 کے اواخر میں سعودیہ نے بھی امریکہ سے قربتیں بڑھانا شروع کر دی۔ اور یوں امریکی چالبازیوں عیارانہ و مکارانہ مشاورتوں سے سعودی عرب نے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سائیڈ لائن کرکے امت مسلمہ کی قیادت کا سہرا کسی حد تک اپنے سر پر سجانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ جس کا اعتراف محمد بن سلمان نے حالیہ امریکی نیوز چینل کو انٹرویو کے دوران بھی کیا۔

تاہم پاکستان نے 25 ستمبر 1964 کو ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھ دی۔

مگر 21 اگست 1969 کو ایک یہودی نواز مسیحی شدت پسند آسٹریلوی شہری ڈینس مائیکل روہن نے مسجد اقصی کو آگ لگا دی۔ جس سے نا صرف مسجد کی لکڑی سے بنی چھت کا ایک حصہ بلکہ آٹھ سو سالہ قدیم منبر بھی جل گیا۔ اس واقعے سے مسلم امہ میں شدید اضطراب پیدا ہوا۔ نتیجتاً اسلامی ممالک کی تنظیم کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ یوں 25 ستمبر 1969 کو آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا انعقاد مراکش کے شہر رباط میں ہوا۔ 1972 میں اس تنظیم کا باقاعدہ نام اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن OIC رکھ دیا گیا۔

جس کا بنیادی مقصد مسلم امہ کے مشترکہ سیاسی۔ معاشی۔ ثقافتی۔ سائنسی۔ سماجی مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا تھا۔ بعد ازاں او۔ آئی۔ سی کے پاکستان سمیت بانی ممالک کے متحرک و مخلص بانی رہنماؤں کو چن چن کر قتل کر دیا گیا۔ سعودی عرب نے اس صورتحال سے بھرپور استفادہ حاصل کیا۔ جمہوریت کے اس دور میں اپنی بادشاہت کو دوام دلانے کے ساتھ ساتھ او آئی سی کے تمام تر مفادات اور شیری ثمرات اکیلا حاصل کرتا چلا گیا۔

آپ اندازہ کریں کہ او آئی سی کے 23 ذیلی ادارے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر او۔ آئی۔ سی سے منسلک ہیں میں سے دس اہم اور مضبوط ترین ادارے جن میں اسلامی فقہ اکیڈمی۔ بینکنگ۔ جہاز رانی۔ فنانس۔ اسلامی فنڈز کی تقسیم جیسے اہم مالی معاملات اور میڈیا شامل ہیں کے ہیڈکوارٹرز جدہ اور ریاض میں واقع ہیں۔ او آئی سی کا مستقل ہیڈکوارٹر یا سیکرٹریٹ بھی جدہ میں ہی قائم ہے۔ اور یوں سعودیہ او آئی سی پر تاحال غالب۔ قابض اور متصرف چلا آ رہا ہے۔ امت مسلمہ کے مسائل اور مفادات کو پس پشت ڈال کر سرزمین عرب کی اپنے رشتہ داروں میں بندر بانٹ کر کے اپنے ووٹ بینک اور معاشی طاقت میں مزید اور شدید اضافہ کر رہا ہے۔ اب او آئی سی محض oh i see بن چکی ہے۔ جس کا ادراک دیگر اسلامی ممالک کو شاید بروقت ہو چکا تھا جس پر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔

مگر پاکستان اسلامی بھائی چارے کی محبت۔ خلوص اور مروت کا پاس رکھتے ہوئے نامناسب اور غیر موزوں سعودی اقدامات سے ہمیشہ صرف نظر کرتا آیا ہے۔ او ائی سی کے قیام کو 50 سال ہو چکے ہیں مگر کسی ایک بھی مسئلے کو حل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ فلسطین و کشمیر سے آج دن تک لہو ٹپک رہا ہے۔ یہود و ہنود کے مظالم ہیں کہ روکے نہیں رکتے۔ بوسنیا۔ چیچنیا۔ ہرگوزینیا۔ عراق و شام اور برما کے مسلمانوں کا خون جس قدر ارزاں رہا ہے وہ سارے عالم نے دیکھا ہے۔ ان تمام واقعات پر او۔ آئی۔ سی یعنی سعودیہ نے جو مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ سعودی آمریت کا یہ عالم ہے کہ جب چاہتا اپنے پر تنقید کرنے وال مسلم ممالک کے شہریوں پر حج کی ادائیگی پر پابندیاں تک عائد کر دیتا ہے۔

امت مسلمہ کا درد آل سعود کے دلوں سے ہمیشہ میلوں دور ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی۔ قطر۔ شام۔ بنگلہ دیش۔ ملائیشیا۔ انڈونیشیا۔ لبنان۔ ایران۔ مصر سعودی خود غرضی۔ دولت جمع کرنے کی حرص و ہوس۔ باہمی عزت و احترام کے فقدان۔ اور متکبرانہ رویے سے تنگ آ کر نالاں و ناراض ہوتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر گئے ہیں۔

یہی واردات اب سعودیہ نے پاکستان کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت ملک کی باگ ڈور سنبھالتے وقت شدید معاشی بحران کا شکار تھی۔ جس پر سعودیہ نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پاکستان کو 3 ارب ڈالر کا قرض % 3.2 سود پر دے کر دس مطالبات بھی تھما دیے۔ جن میں سے تین بڑے مطالبات چائنہ بلاک سے نکلنا۔ سی پیک کو ختم کرنا۔ اور کشمیر پر خاموشی اختیار کرنا شامل تھے۔ جو پاکستان کسی صورت بھی نہیں کر سکتا تھا۔

یہ ادھار تیل اور قرضہ دے کر اس زعم میں مبتلا ہوگئے تھے کہ شاید پاکستان اس کی کوئی عرب طفیلی ریاست ہے جو اس کے آگے بچھی چلی جائے گی۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب 39 ممالک سے فوجی اکٹھی کر کے بھی اپنے سے کئی گنا کمزور نحیف و نزار۔ ناتواں اور بھک و ننگ کا شکار افلاس زدہ یمنی حوثیوں کو شکست تو درکنار مذاکرات کی میز تک بھی نہیں لا سکا اور چلا ہے پاکستان سے مطالبات منوانے۔ شاہ محمود قریشی کے محض ایک بیان سے سعودی عرب میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔ اور وہ اپنے کندورے تھامے حیران و پریشان امداد طلب نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔

ایسے میں ان کی نظر پاکستان میں موجود ان کے وظیفہ خور لاہور کے مشہور بلانوش المعروف ”مئے لانا“ ملاں پر پڑی جسے انہوں نے فوری طور پر اپنے دو بیٹوں سمیت سعودیہ طلب کر لیا ہے۔ یہاں ان کی مئے کی تشنگی کو حلال شراب سے دور کیا جائے گا اور جیبوں میں اشرفیوں کو ٹھونس کر اپنا ایجنڈا دے کر واپس بھیجا جائے گا۔ جو آتے ہی ملک میں دفاع حرمین شریفین اور دفاع اسلام کانفرنسیں منعقد کرنیگے۔ اور پھر ان کانفرنسوں سے موقع کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے مطابق خطاب کے لئے امام کعبہ قدم رنجہ فرمائیں گے۔

اور ملک بھر کے ”فرزندان توحید“ کے قلوب کو گرمائیں گے جذباتی عوام کو حکومت اور فوج کے خلاف بھڑکانے کی بھونڈی سی کوشش کی جائے گی۔ مگر اس بار یقین رکھئے کہ دفاع اسلام یا دفاع حرمین شریفین کارڈ نہیں چلے گا کیونکہ عوام جان چکی ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بیان سے اسلام یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہے۔ اگر کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ آل سعود کی بادشاہت کو ہے۔

عوام یہ بھی جان چکی ہے کہ حرمین شریفین کو آل سعود نے ”مقدس کاروبار“ بنا رکھا ہے۔ سعودی عرب کو تیل کے بعد سب سے زیادہ آمدن حج و عمرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کا سالانہ حجم لگ بھگ 20 بلین ڈالرز ہے۔ جبکہ اسلام سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ریاض اور جدہ سمیت ملک بھر کے دیگر شہروں میں سینما کلب کے افتتاح ہو چکے۔ جوئے کے اڈے اور شراب خانے کھل چکے۔ حلال ڈانس و حلال شراب متعارف ہو چکی۔ نیوم نامی شہر کی ساحل سمندر پر تعمیر زور و شور کے ساتھ دن رات جاری ہے جہاں سعودی وغیرملکی خواتین و حضرات مختصر لباس میں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں خیرہ اور سورج کی تمازت سے اپنے جسم میں وٹامن اے اور ڈی کی کمی کو پورا کریں گے۔

ملک میں یہودی چھاؤنی کی تعمیر اور اپنی حفاظت پر اب امریکی و یہودی فوجی مامور کر رکھے ہیں۔ بے کس۔ مجبور و مظلوم فسلطینیوں کی آہ و بکا کے باوجود اسرائیل میں اپنی قونصلیٹ بھی قائم کردی ہے۔ اسرائیلی ائر لائنز کی آمدورفت اور اسرائیل سے دفاعی معاہدے تک کیے جا چکے ہیں۔ یعنی اگر یہودیوں نے ہی حرمین الشریفین کی حفاظت کرنی ہے تو پھر خطرہ کس سے ہے؟ حالانکہ ہر مسلمان آگاہ ہے کہ حرمین شریفین کو اصل خطرہ تو یہود و نصاری سے ہے۔ بہرحال حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ خود خداوند متعال نے لیا ہوا ہے۔ جناب عبدالمطلب علیہ السلام اور ابراہہ کا واقعہ ہمارے بچوں کو یاد ہے اور سورہ فیل بھی اس کی گواہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر جس طرح منافقانہ کردار سعودیہ نے بطور مسلم برادر کے ادا کیا ہے وہ یقیناً ناقابل برداشت ہے۔ انڈیا کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانا اور وہاں انویسٹمنٹ کرنا، مودی کو بلا کر ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازنا بلاشبہ تکلیف دہ عمل تھا۔ او آئی سی کے اجلاس میں پاکستانی احتجاج کے باوجود انڈیا کو بٹھانا بھی کچھ کم اذیت ناک نہ تھا۔ کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے زبردستی بلیک میل کر کے روکنا شمشیر بر گردن سے کم نہ تھا۔

اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر ہمارے خلاف ووٹ دینا بھی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔ اب گزشتہ ایک سال سے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ نہ بلانا اور مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کی حمایت نہ دلوانا بھی سراسر زیادتی ہے۔ پاکستان سے قبل از وقت قرض کی واپسی کا تقاضا بھی غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہے۔

تاہم پاکستان نے چائنہ سے ایک ارب ڈالر قرض سعودیہ کی نسبت کم سود یعنی 1.2 فیصد پر حاصل کرکے ادائیگی کر دی ہے۔ اور پاکستان نے آئندہ لائحہ عمل کا ایک واضح پیغام بھی دے دیا ہے۔ سعودی عرب سے پٹرول اور قرض حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس دیگر آپشنز موجود نہیں۔ ایرانی پٹرولیم مصنوعات ہماری ضروریات پوری کرنے کے لیے سعودیہ کی نسبت زیادہ سستی۔ بہتر اور ہمارے ڈور اسٹپ پر موجود ہیں۔ اور قرض کے لیے چائنا موجود ہے۔ ایران اور چین ہمارے پرخلوص اور برابری کی سطح پر عزت دینے۔ ہمارا وقار بلند کرنے والے اور ہماری شہ رگ کشمیر پر ہمارے ہم آواز ہمسایہ دوست ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ ہماری دوستی صرف سرکاری سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی ہمیشہ پائیدار رہی ہے اور ہمیں اس دوستی پر ناز ہے۔

بھلا کون سا ایسا پاکستانی گھر ہے جس میں ایرانی قالین۔ کمبل۔ کولر۔ ڈنر سیٹ۔ سرف۔ صابن یا شیمپو استعمال نہ ہوتا ہو۔ اور اسی طرح سے کوئی بھی ایسا گھر نہیں جہاں چائنا کی الیکٹریکل پروڈکٹس استعمال نہ ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس سعودی اور ہماری عوام کے درمیان صدیوں کے فاصلہ ہے۔ ہماری عوام کے ساتھ ان کی عوام کا رویہ آقا اور غلام کا سا ہے۔ رزق کی تلاش میں سعودیہ اور دیگر عرب ریاستوں میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ بدؤوں کا ظالمانہ سلوک اس بات کا غماز ہے کہ عرب عوام بھی ہمیں کس قدر حقیر سمجھتی ہے۔

عربی اور خارجی یا اجنبی جیسی اصطلاحوں سے تفاوت و تقسیم اور نفرت و بیگانگی واضح ہے۔ عربی عجمی کی یہ متعصبانہ تفریق اور سوچ اس خلیج کو مزید گہرا کرتی چلی جاتی ہے۔ جبکہ ایران و چین سے ہمارے سرحدیں مضبوط اور محفوظ ہیں۔ گو کہ کچھ عرصہ قبل نان اسٹیٹ ایکٹرز نے فرقہ وارانہ تشدد سے ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کو خراب کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ مگر پاکستانی و ایرانی سول و ملٹری قیادت کی دور اندیشی نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

ایران کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا یوم آزادی ایران میں سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ ماہ اگست میں مشہد مقدس میں شاہراہوں پر نصب کھمبوں پر پاکستانی پرچموں کی بہاریں دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ گو کہ پاکستانی میڈیا ان خبروں سے خود اور پاکستانی عوام کو بھی بے خبر رکھتا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کو ایرانی اقبال لاہوری کے نام سے جانتے ہیں۔ اور ان کے نام سے کئی لائبریریاں قائم کر رکھی ہیں۔ محلے اور شاہراہیں بھی علامہ اقبال کے نام سے منسوب ہیں۔ ایران کے امام انقلاب آیت اللہ سید روح اللہ خمینی نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کہا تھا کہ انقلاب ایران علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات کا مرہون منت ہے۔ انڈیا کے کشمیریوں پر مظالم روکنے کے لئے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا واضح اور دو ٹوک موقف بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران ہی تھا اور ایران ہی تھا جس نے انڈیا کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں ہمیشہ پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا۔

پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ماضی میں پاک حکومتوں نے ایران کے ساتھ بجلی اور سوئی گیس کے معاہدے بھی کیے۔ جن کی پاسداری کرتے ہوئے ایران نے بجلی اور سوئی گیس کی پائپ لائنز پاکستان کے اندر تک پہنچا دیں جنہیں اب از سرنو ریونیو کیا جا سکتا ہے۔ ایران سے دفاعی معاہدے کرکے انڈیا اسرائیل کٹھ جوڑ کو توڑ کے کشمیر کی جانب بڑھتے قدم روکے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ایران کی اسرائیل پر بھرپور اسٹڈی ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی کی طرح مشترکہ جنگی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔

قدرت ہمیشہ پاکستان پر مہربان رہی ہے سعودی پالیسیوں سے تنگ آکر بالآخر پاکستان نے علم بغاوت بلند کر ہی دیا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ اہلیت رہی ہے کہ وہ ایسے بحرانوں سے نکل کر نئی صف بندیوں کے ذریعے مسائل کا حل اور متبادل نظام بھی پیش کر دیتا ہے۔ یعنی گوشہ نشیں یا تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔

ایک بار پھر وہ موقع مل گیا ہے کہ پاکستان مسلم کش سعودی پالیسیوں سے نالاں اور ناراض مسلم ممالک کو اپنی سربراہی میں او۔ آئی۔ سی کے متبادل نظام کی راہ دکھائے۔ کیونکہ تنہائی کا شکار عالم اسلام اس وقت پاکستان کی راہ تک رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالم اسلام کو پاکستان کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ یقیناً یہ سب کچھ اس قدر آسان نہ ہے۔ روس جیسی صاف گو اور قابل اعتبار طاقت کے ساتھ بھی پاکستان کو ماضی کی تلخیاں اور غلطیاں بھلا کر اپنے روابط مضبوط اور تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان چائنہ و رشیا کی قیادت میں عالمی بلاک اور اپنی قیادت میں قطر۔ ترکی۔ ایران۔ عراق۔ شام۔ افغانستان۔ ملائیشیا۔ انڈونیشیا۔ مصر۔ لبنان اور بنگلہ دیش سمیت دیگر اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی عالمی بلاک تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صرف دل و دماغ کو یکسو کرکے امریکی بلاک سے چھٹکارا پا کر آگے بڑھنا ہوگا اور پھر وہ وقت بھی دور نہیں جب سعودی عرب دوبارہ پکے ہوئے پھل کی طرح آپ کی جھولی میں آن گرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).