ہیموں کالانی: ’سندھ کا بھگت سنگھ‘ جسے انڈیا میں عزت ملی لیکن اپنی ہی دھرتی نے بھلا دیا


ہیموں کالانی کی انڈیا میں جاری ہونے والی ڈاک ٹکٹ

Indian Stamp Company
ہیموں کالانی کی انڈیا میں جاری ہونے والی ڈاک ٹکٹ

سکھر جیل سے فوجی ٹرک میں ایک نوجوان کی میت برآمد ہوتی ہے جس کے ساتھ سرخ ٹوپیاں پہنے برطانوی فوج کے اہلکار بھی ہیں۔ ان کے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ ہیں جو شہر اور آس پاس کے علاقوں سے صبح کو ہی اس جگہ جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

میت پھولوں کی پتیوں سے لدی ہوئی ہے اور صرف چہرہ نظر آ رہا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی عمر 19 یا 20 سال کے درمیان ہے۔

ہیموں کالانی نامی اس نوجوان کا شمار تحریکِ آزادی کے سب سے کم عمر کارکنوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے پھانسی کی سزا پانے کے وقت محض میٹرک کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔

ہیموں کالانی کون تھے؟

ہیموں کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا اور وہ پیسو مل کالانی کے گھر پیدا ہوئے۔ انھیں پیار سے ’ہیموں‘ پکارا جاتا تھا اور ان کے والد ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔

بعض حوالوں میں ہیموں کی تاریخِ پیدائش 11 مارچ 1923 بتائی گئی ہے جبکہ سکھر کے صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ میونسپل ہائی سکول کے داخلہ رجسٹر میں ہیموں کی تاریخ پیدائش 22 فروری 1922 درج ہے۔ اس سکول کا پرانا نام میوز سکول تھا اور یہیں سے ہیموں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔

دوران تعلیم ہیموں اکھاڑے میں بھی اترتے اور انھوں نے کرشن منڈل اکھاڑے میں داخلہ لے رکھا تھا۔ ہیموں کے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ وہ تیراکی کے ماہر تھے اور دریائے سندھ بھی عبور کر سکتے تھے۔

انڈین پارلیمان کے جاری کردہ ایک کتابچے کے مطابق ہیموں کالانی پر ان کے چچا ڈاکٹر منگھا رام کالانی کا اثر رہا جو طلبہ تنظیم سوراج سنہا سے وابستہ تھے۔

فتو مل ٹیکچندانی ’ویر ماتا کا بہادر بیٹا‘ کے عنوان سے سنہ 1981 میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اس تنظیم میں 19 اور 20 سال سے لے کر 25 سال تک کی عمر کے ہائی سکول اور کالج کے طالبعلم شامل ہوتے تھے اور اس تنظیم کا مقصد نوجوانوں میں دیش بھگتی کا جذبہ جگانا تھا۔

ہیموں کالانی

جنگ آزادی اور تحریکوں کا اثر

’تاریخ سکھر‘ میں مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں جو بھی تحریکیں چلائی جاتیں ان کا اثر کراچی، حیدرآباد اور سکھر پر پڑتا تھا کیونکہ کراچی بمبئی کے قریب تھا جبکہ سکھر کو لاہور کے قریب تصور کیا جاتا تھا۔ سندھ بھی سنہ 1843 سے سنہ 1936 تک انگریز دور میں بنائے گئے بمبئی صوبے کا حصہ رہا۔

’تحریک پاکستان میں سندھ کا کردار‘ کے مصنف پروفیسر محمد لائق زرداری لکھتے ہیں کہ جب 1857 کی جنگ آزادی شروع ہوئی تو اس کا اثر سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، شکارپور، جیکب آباد مں بھی محسوس ہوا۔

اسی دوران 14 ستمبر کو 24 مقامی سپاہیوں کا پتہ لگا جنھوں نے کراچی میں جنرل کمانڈنگ کمشنر اور دیگر افسران پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان میں سے 14 کو پانسی دی گئی، 3 کو قتل اور چار کو توپ سے اڑایا گیا۔

پروفیسر محمد لائق زرداری لکھتے ہیں ’حیدرآباد میں باغیوں نے قلعے پر قبضے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ اس کے بعد دہلی کے لال قلعے کی طرح محاذ بنائیں اور اس کے بعد جیکب آباد، سکھر، شکارپور میں بغاوت کی جائے۔ یہ خبر فوج کے برگیڈیئر تک پہنچ گئی اور باغیوں کے سربراہوں کو توپ سے اڑایا گیا۔ شکارپور میں باغیوں نے تین یورپی شہریوں کو نشانہ بنایا لیکن انھوں بھی گرفتار کر کے توپ سے اڑایا گیا۔ اسی طرح سکھر میں باغیوں کے قاصد کو دریا کنارے گرفتار کر کے پھانسی دی گئی۔ یوں بغاوت کی کوششیں ہوتی رہیں۔‘

پیر علی محمد راشدی اپنے یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سکھر کے آزاد میدان میں وقت کے تین بڑے رہنماؤں نے اجتماعات کیے۔ یہاں گاندھی نے تقریر کی جبکہ ناڈو کے نغمے اور نہرو کے نعرے بلند ہوئے۔ یہاں پر ہی کانگریس کے رضاکاروں کو لاٹھیاں پڑیں اور اسی میدان میں بہائے گئے خون کا کچھ حصہ ہندوستان کی آزادی والے نقشے پر لکیریں بنانے میں کام آیا۔

گاندھی کی ہدایت اور انقلابی کارروائیاں

سنہ 1942 برصغیر کی سیاست میں ایک اہم سال تھا۔ جب 18 اگست کو مھاتما گاندھی نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘ (Quit India) تحریک کا آغاز کیا تھا تو اسی سلسلے میں وہ کراچی بھی آئے تھے جہاں انھوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔

ہیموں کالانی کے کلاس فیلو لچھمن داس کیسوانی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک روز پتا چلا کہ گاندھی کراچی آ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست حشو سنبھانی کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ وہ گاندھی سے ملیں گے اور دونوں کراچی پہنچ گئے۔

یہاں ان کا سامنا ایک زبردست بھیڑ سے ہوا لیکن ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ سکھر کا ماسٹر رنگل مل ہتھ پنکھا لیے معزز مہمانوں کو ہوا دے رہا تھا۔ ’میں نے ان کے پاس جا کر کہا کہ سائیں آپ تھک گئے ہوں گے، مجھے سیوا کا موقعہ دیں۔‘

’میں پنکھا چلاتے چلاتے مہاتما گاندھی کے قریب پہنچ گیا۔ ٹھیک اسی وقت ان کی تقریر پوری ہوئی تھی۔ میں نے انھیں کہا کہ دیش کی سیوا کا موقع دیں تو انھوں نے پوچھا کیا کرتے ہو۔ میں نے بتایا کہ طالب علم ہوں جس پر ان کا کہنا تھا کہ عوام کو انگریز سرکار کے خلاف تیار کرو اور آزادی کا آندولن کرتے رہو۔‘

’لچھمن داس نے واپس آ کر یہ بات دوستوں کو بتائی جس کے بعد حشو، ہیموں کالانی، ہری لیلانی اور ٹیکم بھاٹیا سمیت ہم نے فیصلہ کیا کہ انقلابی کارروائیاں کریں گے۔‘

گاندھی کراچی میں

گاندھی کراچی میں

سکھر میں نامعلوم باغی اور دھماکے

لچھمن داس اعتراف کرتے ہیں کہ ہیموں اور انھوں نے پانچ سے زائد وارداتیں کیں۔ ان کے مطابق پہلی واردات اتوار کی رات کی تاریکی میں سکھر کے کلیکٹر کے دفتر سے یونین جیک (برطانوی جھنڈا) اتار کر اس کی جگہ ترنگا لہرانا تھی۔

’ہمارے اس اقدام پر مقامی طور پر کافی بحث ہوئی کہ یہ انقلابی کہاں سے آ گئے ہیں۔ ہیموں نے یہ حقیقت اپنے چچا منگھا رام کالانی کو بتائی جس نے کہا کہ ساتھیوں سے ملاقات کراؤ۔‘

اس کے بعد سکھر کے ریلوے سٹیشن کے راستے میں آنے والی ایک پرانی پولیس چوکی کو بم سے اڑانے کا فیصلہ کیا گیا۔

’منگھا رام نے ہمیں بم لا کر دیا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ بم کہاں سے ملتے ہیں۔‘ اس پر منگھا نے کہا کہ یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، جب بھی ضرورت ہوگی وہ لا کر دیں گا۔

لچھمن داس کے مطابق اس چوکی کے علاوہ غریب آباد پولیس چوکی، ریلوے پولیس سٹیشن اور بندر روڈ پولیس گھاٹ میں دھماکے کیے گئے۔

کچھ دنوں بعد سب ہیموں کے چچا منگھا رام کے پاس جمع ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ عدالت میں بم رکھا جائے۔ تھیلے میں بم رکھ کر عدالت لے جایا گیا لیکن کسی کلرک کو شک پڑا اور بم کو ناکارہ بنا دیا گیا۔

ہیموں کالانی پکڑے گئے

لچھمن داس لکھتے ہیں کہ 22 اکتوبر 1942 کو ہیموں کے چچا منگھا رام نے بتایا کہ انگریز فوج کی اسلحہ سے بھری ہوئے ٹرین سکھر اسٹیشن سے روہڑی جائے گی اور ان سے کہا کہ وہ اس کو لوٹنے کی کوشش کریں۔ ’اس وقت ہم پربھات ٹاکیز میں فلم دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ وقفے میں باہر موجود ہیموں اور ہری نے یہ بات بتائی۔‘

’ہم نے سکھر کے پرانے دروازے سے تھوڑی دور پٹڑی کی فش پلیٹ سے بولٹ کھولنا شروع کیے۔ پانا چھوٹا تھا اس لیے بار بار گھوم جاتا تھا۔ ہم پانچوں نے طاقت لگا کر مشکل سے بولٹ ڈھیلے کیے ہی تھے کہ ایک فوجی نے بتی مار کر آواز دی کون ہو؟ ہم چاروں، ہری، حشو، ٹیکم ایک دم چھلانگ لگا کر فرار ہو گئے لیکن ہیموں معلوم نہیں کیوں رُک گیا اور پولیس کی گرفت میں آ گیا۔‘

جیھٹو لالوانی لکھتے ہیں کہ دراصل ’ٹھک ٹھک‘ کی آواز سن کر قریبی بسکٹ فیکٹری کے چوکیدار نے پولیس کو ٹیلی فون کر کے اطلاع دی تھی جبکہ ہیموں کے بھائی ٹیکچند کا کہنا تھا کہ چوکیدار نے ہی ہیموں کو پکڑا کر پولیس کے حوالے کیا تاہم پولیس ریکارڈ میں اس کی گرفتاری بذریعہ پولیس دکھائی گئی۔

صبح کو اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ’کوئٹہ جانے والی ٹرین کو گرانے کی کوشش ناکام، ایک باغی کو گرفتار کر لیا گیا‘۔

ہیموں نے ساتھیوں کے نام نہیں بتائے

ہیموں کالانی کے ساتھ اس واردات میں کون کون شریک تھے، ہیموں نے وہ نام ظاہر نہیں کیے۔ برسوں بعد لچھمن داس نے اپنی یادداشتیں لکھ کر دعویٰ کیا کہ وہ اور ان کے دوست ان وارداتوں میں ہیموں کے ساتھ تھے۔

لچھمن داس لکھتے ہیں ’ریلوے لائن 12 فٹ اونچی تھی، ہمیں چوٹیں آئیں۔ ہری اور ٹیکم پرانے سکھر چلے گئے، میں اور حشو کشتی پر روہڑی آ گئے اور رات والی گاڑی میں سوار ہو کر شکارپور پہنچ گئے۔ ہم گھبرائے ہوئے تھے کہ ہیموں نام نہ بتا دے۔ پولیس نے اس پر تشدد کیا، لالچ دی، لیکن اس نے نام نہیں بتائے اور کہا کہ اس نے اکیلے یہ کام کیا ہے۔‘

کمیونسٹ رہنما کامریڈ سوبھو گیانچندانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہیموں کالانی کے رہنما پرچو ودھارتی تھے، جو بعد میں انڈیا جا کر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔

نبی بخش کھوسو نے سنہ 1973 میں تحریر کیے گئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پرانے سکھر میں ٹنکی کے پیچھے انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

ہیموں، پرچو ودیارتی اور اس کا کزن عیشی ودیارتی اس کے سرکردہ تھے۔ پرچو ودیارتی اس سے قبل قمبر سے لے کر کراچی کے علاقے کلفٹن تک کئی عسکری کارروائیاں کر چکے تھے۔

ہیموں کا مقدمہ اسپیشل ٹربیونل میں چلایا گیا، آئین پاکستان کے انجنیئر عبدالحفیظ پیرزادہ کے والد عبدالستار پیرزادہ، نندیرام وادھوانی، سادھو رام کالانی سمیت چار وکلا نے مقدمے کی پیروی کی

ہیموں کا مقدمہ سپیشل ٹربیونل میں چلایا گیا تھا اور آئین پاکستان کے خالق عبدالحفیظ پیرزادہ کے والد عبدالستار پیرزادہ، نندیرام وادھوانی اور سادھو رام کالانی سمیت چار وکلا نے مقدمے کی پیروی کی (علامتی تصویر)

ہیموں کا مقدمہ

ہیموں کالانی کی اس واردات سے قبل سانگھڑ میں 16 مئی 1942 میں لاہور جانے والی ٹرین کو لوٹا جا چکا تھا اور حُر جماعت کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کی گرفتاری کے خلاف جماعت کی جانب سے گوریلا کارروائیاں جاری تھیں اور اسی کے پیش نظر انگریز حکومت نے یکم جون 1943 کو یہاں مارش لا کا نفاذ کر دیا تھا۔

ہیموں کا مقدمہ سپیشل ٹربیونل میں چلایا گیا اور آئین پاکستان کے موجد عبدالحفیظ پیرزادہ کے والد عبدالستار پیرزادہ، نندیرام وادھوانی اور سادھو رام کالانی سمیت چار وکلا نے مقدمے کی پیروی کی۔

’ہیموں کی بہادری اور ہمت‘ کے عنوان سے مضمون میں جیٹھو لالوانی لکھتے ہیں کہ وکلا نے ہیموں کو سمجھایا کہ عدالت میں ’اقرار جرم‘ نہیں کرنا۔

ہیموں کو زنجیروں میں جکڑ کر عدالت میں پیش کیا گیا اور اس نے کہا کہ اس کو کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وکلا نے عدالت سے گذارش کی کہ ہیموں نوعمر ہے، اس کی غلطی کو نظر انداز کر کے معاف کیا جائے۔

عمر قید سزائے موت میں تبدیل

ٹربیونل نے ہیموں کو دس سال قید کی سزا سنائی اور مقدمات کے کاغذات حیدرآباد میں واقع سندھ ہیڈ کوارٹر بھیج دیے گئے جہاں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل رچرڈسن نے اسے سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

پروفیسر لائق زرداری لکھتے ہیں کہ حیدرآباد سینٹرل جیل میں مخفی انداز میں کورٹ مارشل کے مقدمات چلائے جاتے تھے۔ بعد میں میجر جنرل رچرڈسن نے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کو بھی سزائے موت سنائی جس پر 20 مارچ 1943 کو عمل کیا گیا۔

کراچی کے اس وقت کے میئر جمشید مہتا، سادھو بیلو، کے مہنت سوامی، ھرنام داس، ساھو ٹی ایل واسوانی، عبدالستار پیرزادہ سمیت کئی معززین نے وائسرائے اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے رحم کی اپیلیں کیں تاہم ان تمام میں ہیموں کے دستخط سے کوئی بھی اپیل شامل نہیں تھی۔

ہیموں کالانی کے بھائی ٹیکچند نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی والدہ نے بھی ہیموں سے ملاقات میں رحم کی اپیل پر دستخط کرنے اور واقعے میں ملوث ساتھیوں کے نام بتانے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن اس نے ہر بار انکار کر دیا۔

پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’اھی ڈینھن اھی شینھن‘ یعنی ’وہ دن، وہ شیر‘ میں لکھتے ہیں کہ رشتے داروں نے رحم کی کئی اپیلیں کی لیکن کسی ایک پر بھی ہیموں نے دستخط نہیں کیے، ملٹری کمانڈر نے رحم کی درخواستوں پر فیصلے سے قبل اپنے کارندے بھیجے تاکہ ہیموں سے ملاقات کر کے معلوم کریں اس کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہے یا نہیں، لیکن وہ اٹل رہا اور کہا کہ اگر بچ گیا تو دوبارہ بھی یہی کرے گا۔

اس کے بعد اسے بلآخر پھانسی دے دی گئی۔

ٹیلی گرام ایک روز قبل پہنچا

ہیموں کالانی کے بھائی ٹیکچند کالانی نے وہ ٹیلی گرام سنبھال کر رکھا تھا جس کی چار سطروں میں ہیمن داس کی موت کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔

ٹیکچند کا کہنا تھا کہ انھیں 20 جنوری کو ٹیلی گرام ملا کہ اگلے روز یعنی 21 جنوری کی صبح ہیموں کو پھانسی دی جائے گی۔

ٹیکچند کا کہنا تھا کہ آخری ملاقات میں ہیموں نے رشتے داروں سے کہا ’آپ کیوں رو رہے ہیں؟ مجھے آشیر واد دو کہ جلد دوسرا جنم لے کر یہ کام مکمل کروں۔‘ ٹیکچند کے مطابق ہیموں نے سلاخوں سے ہازو باہر نکال کر انھیں ملے اور کہا ’میں ایک کام ادھورا چھوڑ کر جا رہا ہوں، تم یہ مکمل کرنا۔‘

پھانسی کے روز ہیموں سے آخری خواہش معلوم کی گئی تو انھوں نے کہا کہ میں نعرے لگاتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جاؤں گا اور آپ ’سرکاری اہلکار‘ ان نعروں کا جواب دیں گے۔

جیٹھو لالوانی سمیت کئی لوگوں نے لکھا ہے اور ہیموں کے بھائی کا بھی کہنا ہے کہ ہیموں نے ’انقلاب زندہ آباد، یونین جیک مردہ آباد‘ اور ’وندے ماترم‘ کے نعرے لگائے اور اہلکاروں نے انھیں جواب دیا۔

سرد لاش کا سفر

شکارپور کے رہائشی عامر عباس سومرو نے چند سال قبل انڈیا کا سفر کیا اور ہیموں کے بھائی ٹیکچند سے ملاقات کی۔

وہ اپنے سفر نامے میں اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہیموں کی لاش کی وصولی کے لیے ایک ہزار روپے ضمانت طلب کی گئی تھی جو ان کے خاندان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ بعد میں ایک معزز شخص نے یہ رقم ادا کر کے لاش وصول کی۔

جیٹھو لالوانی کے مطابق ہیموں کے والدین سے یہ تحریری طور پر لکھوایا گیا تھا کہ لاش حوالگی کے بعد شہر میں دنگا فساد ہوا تو اس کے ذمہ داری ان پر ہو گی۔ ’ہیموں کو پھانسی صبح سویرے دی گئی جبکہ لاش شام ساڑھے چار بجے والدین کے حوالے ہوئی۔‘

تعلیمی اداروں میں طلبا نے بائیکاٹ کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ شمشان گھاٹ کے راستے میں، گھروں کی کھڑکیوں میں، لوگ ان کا آخری دیدار کرتے رہے اور ہیموں کو پرانے سکھر میں اگنی سنسار کیا گیا۔

نہرو اور سبھاش بوس کا خراج عیقدت

ہیموں کی موت کے بعد سندھ کے شہروں میں احتجاجی اجتماعات ہوئے۔ کراچی میں سوامی نارائن مندر میں سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور سادھو بیلو میں ہیموں کالانی کی تصویر لگائی گئی۔

جواہر لال نہرو نے 26 جنوری کو آزادی کے جشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا دماغ سندھ کی یاترا کر رہا ہے جہاں کچھ روز قبل نوجوان ہیموں کالانی کو پھانسی دی گئی ہے۔ اس نے حال ہی میں میٹرک پاس کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس کے گناہ کا کوئی بڑا ثبوت ملا تھا یا نہیں لیکن ایک چھوٹے ثبوت پر فوجی عدالت نے اس کو پھانسی کی سزا سنائی ہے جس سے صدمہ ہوا ہے۔ ہیموں کالانی سمیت وہ نوجوان جنھوں نے دیش کی آزادی کے لیے خون دیا ہے وہ آزادی کا گواہ رہے گا۔‘

سنہ 1943 میں جب نہرو کراچی آئے تو وہاں سے خاص طور پر سکھر پہنچے اور ہیموں کے والدہ جیٹھی بائی سے تعزیت کی۔ سبھاش چندر بوس کی ’آزاد ہند فوج‘ کے کپتان ڈھلون نے انھیں گولڈ میڈل دیا اور یوں ہیموں کو سندھ کا ’بھگت سندھ‘ قرار دیا گیا۔

ہیموں کالانی کے خاندان کی نقل مکانی

برصغیر کے بٹوارے کے بعد جب سندھ سے ہندو آبادی نے انڈیا کی طرف نقل مکانی کی تو آزادی کے اس سپاہی کا خاندان بھی وہ دھرتی چھوڑ گیا جس کے لیے اس کے بیٹے نے قربانی دی تھی۔

ممبئی میں مقیم سندھی زبان کے شاعر نند جویری نے بی بی سی کو بتایا کہ ہیموں کے والدین کا گھر ممبئی میں ان کے گھر کے پیچھے ہوتا تھا اور ہیموں کے والد پیسو مل کی سیمنٹ، ریت اور بجری کی دکان تھی۔

’1963 میں میں نے یہ علاقہ چھوڑ دیا تھا اور وہ بھی دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔ چھوٹا بھائی ٹیکچند کچھ عرصہ قبل انتقال کر گیا۔ سنہ 1960 میں حکومت نے ایک پلاٹ الاٹ کیا تھا جہاں تمام دوستوں نے ہیموں کالانی یادگار منڈل بنایا اور اب وہاں چھ منزلہ عمارت ہے جس میں کمپیوٹر کالج بھی ہے اور ہیموں کی بھابھی کملا اس کی ٹرسٹی ہیں۔‘

عامر عباس لکھتے ہیں کہ ٹیکچند کالانی نے انھیں بتایا کہ چمبور کی کمپ میں لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ ہیموں کون ہے۔ وہ ہر سال اس کی برسی مناتے رہے، پھر کہیں لوگوں کو معلوم ہوا اور ایوانوں تک بات پہنچی۔

بھگت سنگھ سے بڑا شہید

انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سنہ 1983 میں ہیموں کالانی یادگار ڈاک ٹکٹ بھی جاری کروائے اور ٹکٹ کے اجرا کی تقریب میں ہیموں کی والدہ جیٹھی بائی کے ساتھ بھگت سنگھ کی والدہ بھی موجود تھیں۔ اخبارات میں یہ تصویر سندھ ماتا اور پنجاب ماتا کے نام سے شائع ہوئیں۔

عامر عباس بتاتے ہیں ہیموں کے بھائی نے انھیں بتایا کہ بھگت سنگھ کی والدہ نے جیٹھی بائی سے کہا ’میرا بیٹا پھر بھی بڑا تھا لیکن تمہارا بیٹا میرے بیٹے سے بھی عظیم ہے جس نے اپنی کم عمر جوانی وطن کے لیے قربان کی۔‘

عامر عباس کے مطابق قصہ بیان کرتے ہوئے ٹیکچند کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ سسکیاں لینے لگے۔ ’یہ ملاقات اس وعدے پر ختم ہوئی کہ میں سکھر جا کر ان کے گھر کی تصاویر بھیجوں گا۔ میں نے یہ وعدہ پورا کیا لیکن سکھر کی میرکی گلی میں یہ گھر بارشوں کی وجہ سے مخدوش حالات میں تھا۔‘

انڈیا کی پارلیمان میں 21 اگست 2003 کو ہیموں کالانی کا دس، بارہ فٹ اونچا مجسمہ آویزاں کیا گیا۔ اس تقریب میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی، جیٹھ ملانی اور کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے بھی شرکت کی تھی۔

الھاس نگر میں وینس چوک کا نام ہیموں کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ انڈیا کے مختلف شہروں میں ایک درجن سے زائد سڑکیں اور تعلیمی ادارے ہیموں کالانی کے نام سے منسوب ہیں۔

پاکستان میں سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے واقع لوکس پارک کا نام ہیموں کالانی پارک رکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس کو محمد بن قاسم سے منسوب کر دیا گیا۔

اس طرح ہیموں کالانی آج سندھ کے شاعری اور ادب میں تو موجود ہیں لیکن اپنی جنم بھومی سے لاپتہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp