غربت، تعلیم اور بچوں سے مشقت


میں سیمینار کے اختتام پر جونہی سٹیج سے اتری ایک خوبرو نوجوان بجلی کی سی سرعت کے ساتھ میری طرف لپکا۔ ”ڈاکٹر صاحبہ! ٓپ نے مجھے پہچانا؟ میں آپ کے سکول میں پڑھتا تھا۔ میرا نام وسیم ہے۔ آپ نے جو سکول قالین باف بچوں کے لئے بنایا تھا۔ کیامیں آپ کو یاد ہوں؟ آپ جب بھی سکول آتیں میرے گریڈز دیکھ کر مجھے شاباش دیتیں۔ میں ایم فل کر رہا ہوں۔ ۔ ۔“ ۔ آنکھوں کی چمک اور الفاظ کی بے ربطگی اس کی خوشی اور بے چینی کی غماز تھی وہ جلدی جلدی مجھے اپنی کامیابیوں کی طویل داستان سنانا چاہتا تھا۔

شاباش! میں اتنا ہی کہہ سکی اور پھر ہم ایک کونے میں الگ تھلگ بیٹھ گئے تا کہ میں اس کی کم وبیش دو دہائیوں پر مشتمل کہانی سن سکوں کہ وہ ایک قالین باف بچے سے ایک استاد اور پھر ایک ڈیویلپمنٹ ورکر کیسے بنا؟ ماضی کے مناظر میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ساتھ ایک خوبرو نوجوان نہیں بلکہ ایک 9 سالہ معصوم بچہ بیٹھا ہے جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے بڑی مہارت سے ”سوتری“ قالین بن رہا ہے جس کے پاس نہ تو قالین کی روئی سے بچنے کے لئے کوئی ماسک ہے اور نہ ہی اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کے مواقع میسر ہیں۔ تعلیم تک رسائی تو کجا سارا دن ایک ہی پوزیشن میں بیٹھ کر قالین بننے سے متاثر ہو نے والی صحت کی بحالی کی بھی کوئی سہولت نہ تھی۔ مگر آنکھوں کی چمک تب بھی ویسی ہی تھی جیسی آج ہے۔

وسیم سے میرا پہلا مکالمہ کچھ یوں ہوا تھا۔ وسیم تم قالین کا ایک ”وار“ لگا لیتے ہو؟ اس نے حیران کن مسکراہٹ سے میری طرف دیکھا جیسے میں نے کوئی احمقانہ سوال پوچھ لیا ہو اور کہنے لگا میں تو بچہ ہوں مجھے نقشہ (قالین کا ڈیزائن) پڑھنانہیں آتا ہاں اگر کوئی بڑا بتائے گا تو پھر میں لگا لوں گا۔ ویسے میں پورے دن میں ایک وار لگا سکتا ہوں جس کے مجھے 15 سے 20 روپے ملیں گے اور اگر وار غلط ہو گیا تو ٹھیکدار پیسے بھی نہیں دے گا اور جرمانہ بھی لگائے گا۔

آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی اور وہ ڈوبتی آواز سے بولا۔ پھر ہماراکھانا کہاں سے آئے گا؟ سوال کا رخ میری طرف ہو گیا۔ اور میں بھانپ گئی کہ بچہ بلا کا ذہین ہے۔ میں نے جواب دیا اگر ہم آپ کو سکول میں داخل کروا دیں تو آپ پڑھ لکھ کر بڑے افسر بن جائیں گے اور زیادہ پیسے کمائیں گے۔ نہیں! ہم بڑے تینوں بہن بھائی اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر روزانہ قالین کے 7 سے 8 وار لگاتے ہیں میں سکول چلا جاؤں تو پھر میری جگہ وار کون لگائے گا؟

اس مکالمہ کا اختتام مہینوں بعد بالاخر وسیم کے گاؤں میں لاہور کی ایک سماجی تنظیم کی معاونت اور سوئٹزر لینڈ کی تنظیم کے مالی تعاون سے قالین باف بچوں کے لئے روزانہ تین گھنٹوں کے دورانیہ کے ایک سکول کے قیام پر ہوا تا کہ یہ بچے کام کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی سکیں۔ چونکہ اس گاؤں میں تیار ہونے والے زیادہ ترسوتری قالین جو بہت وزنی اور مہنگے ہوتے اور سوئیٹرز لینڈ برآمد ہوا کرتے تھے لہٰذا قالین خریدنے والی کمپنیاں Social responsibility کے اصول پر عملداری کرتے ہوئے مختلف سماجی تنظیموں کے ذریعے منافع کا کچھ حصہ قالین باف بچوں کی فلاح وبہبود پر بھی صرف کرتیں تھیں۔

ڈاکٹر صاحبہ! جونہی قالین بافی کا کاروبار گاؤں میں بند ہوا، سکول بھی بند ہو گیا۔ لڑکے گردونواح میں کنکریٹ کی چھتیں تیار کرنے والی فیکٹریوں میں جانے لگے اور لڑکیاں گھریلو ملازمائیں بن گئیں۔ وسیم کی بھاری آواز ابھری اور مجھے ماضی کی یادوں سے کھینچ لائی۔ وسیم نے اپنی بات آگے بڑھائی چونکہ مجھے پڑھائی کا بہت شوق تھا اس لئے میں نے آپ کے سکول سے پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد بھی سارا دن مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کو جاری رکھا۔

اگر کچھ پیسے جمع ہو جاتے تو ریگو لرپڑھ لیتا ورنہ پرائیویٹ پڑھتا اور اگر حالات بالکل تنگ دستی کا شکار ہوتے تو پھر پڑھائی میں تعطل بھی آجاتا۔ جہدوجہد کے اس کٹھن سفر کے بعد بالآخر میں ایک مقام پر پہنچ گیا ہوں۔ وسیم کی پرجوش گفتگو نے ہم دونوں کو خوشی سے لبریز کر دیا۔ تاہم غربت، تعلیم اور بچوں سے مشقت کے باہمی تعلق کا معمہ تو ابھی بھی فہم طلب ہے۔

بچہ مزدوری کے مسئلے سے میری شناسائی اتنی ہی پرانی ہے جتنی ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے میری وابستگی ہے۔ البتہ تعلیم کی قدرومنزلت ہمارے خمیر میں رچی بسی ہے۔ میں نے بچپن سے ہی اپنے والدین کو (دونوں گورنمنٹ سکول ٹیچرز تھے) گھر کے کشادہ صحن میں اپنے شاگردوں کو مفت تعلیم دیتے دیکھا۔ استاد شاگرد کے اس رشتہ میں کبھی یہ تمیز روا نہ رکھی گئی کہ کون سا بچہ گاؤں کے زمیندار کا ہے اور کون سا بچہ بذات خود ایک کھیت مزدور ہے۔ ان کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ یہ بچے پڑھ لکھ کر ملک کے باوقار شہری بنیں۔ اور پھر حسن اتفاق دیکھیے کہ ہم تینوں بہنوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بحیثیت استاد ہی کیا۔

نوے کی دہائی کے آخر میں جب میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین سرگودھا میں کیمسٹری کی لیکچرار تھی تو کاتھولک چرچ کے ساتھ مل کر بھٹہ مزدور بچوں کے لئے ایک سکول شروع کیا۔ اپنا بہت سا وقت رضا کارانہ طور پر ان بچوں کو پڑھانے میں گزارا اور ایک دن جب میں نے ایک بچے سے پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ تو اس نے جواب دیا فادر (کاتھولک پریسٹ)۔ میں چونک گئی کیونکہ یہ کوئی مذہبی سکول نہ تھا لیکن بچے سے سوال و جواب کے دوران میں یہ جان کر حقیقتاً پریشان ہوئی کہ اس کی تو دنیا ہی بڑی مختصر تھی کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں ایک ہی پڑھا لکھا شخص دیکھا اور وہ کاتھولک پریسٹ تھا۔

بھٹہ کی چمنی سے اینٹیں تھاپنے کے پہڑھ (مقام) کی گرووپیش میں الجھے ان بچوں کو قطعاً علم نہ تھا کہ ڈاکٹر، انجنئیر، سول سرونٹ وغیرہ بھی بنا جا سکتا ہے اور اس سکول میں پڑھا نے والی دونوں اساتذہ بھی خواتین ہی تھیں لہٰذا ان بچوں کی سمجھ اور مشاہدے کے مطابق لڑکے پڑھ لکھ کر کاتھولک پریسٹ اور لڑکیاں استاد ہی بن سکتیں تھیں۔

مزدور بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی سالہا سالہ جدوجہد نے مجھے یہ ضرور باور کروادیا کہ بچہ مزدوری بہت سی گتھیوں میں الجھا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا کوئی آسان حل موجود نہیں۔ اگر چہ انٹرنیشنل لیبر ٓآگنائزیشن (آئی ایل او ) نے 1973 ء میں کام کے لئے عمر کی حد متعین کرنے کے موقف کو زیر بحث لاتے ہوئے بچہ مزدوری کے ایشو کو بڑ ے مدلل طریقے سے اجاگر کیا۔ بعدازاں دنیا کی 191 ریاستوں نے بچہ مزدوری کو ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز کا حصہ بناتے ہوئے 2015 تک اس کے خاتمے کا ہدف مقررکیا جو کئی وجوہات کی وجہ سے حاصل نہ ہو سکا۔

ٓٓ آئی ایل او کی 2016 ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 150 ملین بچے چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جن میں سے 60 ملین کی عمر 5 سے 11 سال کے درمیان ہے جبکہ باقی 11 سے 14 سال کی عمر کے زمرے میں آتے ہیں۔ 96 %چائلڈ ورکرز کا تعلق ایشیاء، لاطینی امریکہ اور افریقہ سے ہے۔

فیڈرل بیوروآف سٹیٹسٹکس کے مطابق پاکستان میں چارکروڑبچوں میں سے ایک کروڑ نوے لاکھ بچے مزدوری کرتے ہیں اور اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ملک میں موجود مسئلوں میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر گھریلو بچہ مزدوری کو ہی لے لیں۔ اس میں چھ سال تک کی عمر کے بچے کام کر رہے ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ بچے تعلیم حاصل کر لیں تو اپنے سماجی اور معاشی حالات بدل سکتے ہیں۔

یونیسیف کے مطابق پاکستان دنیا میں دوسرا ملک ہے جس میں زیادہ سے زیادہ بچے سکول سے باہر ہیں۔ جبکہ آئین کا آرٹیکل 25 A بیان کرتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کومفت اور لازمی تعلیم دی جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق ارض پاک میں ایک لاکھ ستر ہزار سٹریٹ چلڈرن میں سے تقریباً 90 %جنسی تجارت میں ملوث ہیں جو بچہ مزدوری کی بدترین شکل ہے اور ایک بہت خطرناک حقیقت ہے۔

حکومت پاکستان نے آئی ایل اوکے کنونشن 138 اور 182 کی توثیق کر رکھی ہے جو بالترتیب مزدوری کے لئے کم سے کم عمر مقررکرنے اور مزدوری کی خطرناک اقسام کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے حقوق کے بین الاقوامی میثاق اور اس کے دو پروٹوکولز پر بھی توثیق کی مہر ثبت کی جا چکی ہے۔ پاکستان کے بچوں سے متعلق زیادہ تر قوانین مثلاً فیکٹریز ایکٹ، شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈینینس، مائینزایکٹ، روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈینینس وغیرہ میں کام کرنے کی کم از کم عمر 15 سال ہے جبکہ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 کے مطابق یہ 14 سال ہے۔ خطرناک پیشوں میں بچوں کی مزدوری کو روکنے کے لئے تمام صوبے اپنی قانون سازی کو بہتر کر رہے ہیں۔ یہ عمر اسلام آباد اور بلوچستان میں 14 سال ہے جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں 18 سال ہے۔

حال ہی میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے گھریلو بچہ مزدوری کو ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 کی خطرناک کاموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جس سے اسلام آباد ( آئی سی ٹی) میں 14 سال کی عمر تک گھریلو بچہ مزدوری پرپابندی ہے۔ صوبے اس پر ایک سادہ سی قرارداد کے ذریعے قانون سازی کر سکتے ہیں۔ تاہم پنجاب میں اس معاملے میں صورتحال تھوڑی بہترہے۔ پنجاب کے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 ء کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے کے لئے گھریلو مزدوری کوجرم قرار دیا گیا۔

چونکہ چائلڈ لیبر ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے لہٰذا اس کے خاتمے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ بلاشبہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے نہ صرف بہتر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے بلکہ پہلے سے موجود قوانین پر موثر عملدرآمد کی بھی اشدضرورت ہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے کچھ نہ کچھ قوانین موجود ہیں۔ البتہ ان قوانین میں بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر فرد ہونی چاہیے۔ کم ازکم مختلف بچہ مزدوری قوانین میں عمر کا تعین آئین کے آرٹیکل 25 Aسے متصادم تو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے دو سطحوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اول ریاست کی سماجی اداروں کے ساتھ مضبوط ہم آہنگی تا کہ دونوں مل کر چائلڈ لیبر کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی کوششوں کوموثر بنا سکیں۔ دوئم کمیونٹی میں موجود رضا کاروں کی نشاندہی اور شمولیت کو چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لئے یقینی بنایا جائے تا کہ وہ یا تو بچوں کو واپس سکولوں تک لا سکیں یا پھر انہیں غیر رسمی ماحول میں رضا کارانہ طور پر مفت تعلیم دے سکیں۔

کیونکہ اگر غربت، تعلیم اور بچوں سے مشقت کے مابین گہرا ارتباط ہے تو اس کے خاتمے کے لئے ریاست، سماجی ادارے اور کمیونٹی رضا کار کے درمیان مضبوط رشتہ کی استواری بھی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو ایک قالین باف بچے سے ایک استاد اور پھر ایک ڈیویلپمنٹ ورکر بننے کی امید افزاء کہانیوں سے اس سماج کو متعارف کروا سکتی ہے۔

ڈاکٹر روبینہ فیروز بھٹی نیشنل کمیشن برائے حقوق اطفال کی رکن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).