محبت کرنے والے دو آدمی


دِن کب کا اپنا بستر لپیٹ کر سرمئی شام میں ڈھل چکا تھا،شام ،رات کا رُوپ اُوڑھ چکی تھی،ہم کھانے کا انتظار کھینچ رہے تھے،دیسی مرُغ گلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔دیہاتی علاقہ تھا،شہر سے دُور۔ککر کی سہولت موجود نہ تھی۔کچن سے آواز آئی ابھی گوشت گلنے میں وقت لگے گا،وہاں پر موجود سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،سب کے چہروں سے بھوک جھانک رہی تھی۔

مَیں نے وقت گزارنے کے لیے میزبان سے اُس کے گاؤں سے متعلق پوچھنا شروع کردیا۔اُس نے گفتگو کے دوران ایک بزرگ کا ذکرشروع کردیا۔میزبان کے مطابق’’بزرگ کی عمر لگ بھگ اَسی برس ہے،صحت مند ہیں۔جوانی کے دِنوں میں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔مقامی گورنمنٹ سکول میں ٹیچر تھے۔ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں،آج تک اِن کو کسی شخص نے خالی سر نہیں دیکھا،ہمیشہ پگڑی سمیت دیکھا ہے۔آج تک کسی کے سامنے کھانا کھایا، قہقہہ لگایا،نہ ہی کسی نے اِن کو نہاتے دیکھا۔

یہ اُونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔یہ ہمیشہ ہر ایک کو سلام میں پہل کرتے ہیں ،چاہے سامنے کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو۔اگر کوئی ٹھان لے کہ وہ سلام میں پہل کرے گا ،تو یہ ممکن نہیں ہوپاتا۔یہاں کے اردگردعلاقوں میں اِن کا بہت زیادہ احترام ہے۔اگر کہیں سے گزریں اور وہاں دوسولوگ بیٹھے ہوں ، تو سب احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔اگر کوئی اِن کے گھر چلا جائے تو ایسا ممکن نہیں کہ کھانا کھائے بغیر واپس آئے۔یہ گاؤں کی مسجد میں کبھی کبھار جمعہ کی امامت کرواتے ہیں یا پھر عید کی نماز پڑھاتے ہیں۔

یہ کسی کی شکایت نہیں کرتے۔نہ کسی کی شکایت سننا پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اِن کے پاس جائے اور گائوں کے کسی فرد کی شکایت کرے ،تو آگے سے ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ’ خدا ہدایت دے‘ہمیشہ ایک ہی دُعا دیتے ہیں کہ خدا کسی کا محتاج نہ کرے‘‘ میزبان سے یہ سُن کر بزرگ سے ملنے کی تڑپ پیدا ہوئی ،اظہار کیا تو میزبان نے بزرگ کے داماد کو فون کیا،آگے سے جواب آیا کہ آجائیں ،بزرگ ابھی جاگ رہے ہیں۔مَیں ،حنیف صاحب اور میزبان چل دئیے۔

چار پانچ منٹ بعد اُن کی گلی میں پہنچے ،یہ تنگ مگر صاف ستھری گلی تھی،گھر کے سامنے بزرگ کا داما دہمارا انتظار کررہے تھے ،وہ ہمیں بیٹھک میں لے گئے،تو سامنے کرسی پر یہ موجود تھے،کھڑے ہو کر ملے ،تھوڑی دیر بعد چائے آگئی،جس میں گائوں کی مٹھاس شامل تھی۔ یہ ملاقات بیس منٹ کی ہوگی،اجازت چاہتے وقت ،مَیں نے اِن سے دُعا کی درخواست کی ۔اُن کے لبوں پر ’’خدا کسی کا محتاج نہ کرے‘‘الفاظ اُبھرے۔مجھے ایسی ہی دُعا کی ضرورت تھی۔

وہاں سے واپس آئے تو معلوم پڑا کہ کھانا تیار ہونے میں مزید تیس منٹ ہیں۔مَیں نے میزبان سے کہا کہ اب آپ کو مَیں اپنے ایک شہری بزرگ کی باتیں سناتا ہوں۔وہ دلچسپی سے میری طرف متوجہ ہوئے۔مَیں نے بتاناشروع کیا ’’اِن بزرگ کا نام نعیم اعوان ہے۔راولپنڈی میں بے نظیر ہسپتال کے ساتھ گلی میں اِن کی دُکان ہے۔یہ دُکان پولٹری کی خوراک اور ادویات پر مبنی ہے۔ یہ کافی کشادہ دُکان ہے ،جو سامان سے بھری رہتی ہے۔دُکان کی ایک نکڑ میں چائے تیار ہوتی رہتی ہے جو گاہک اور ملنے والا آتا ہے تو اعلیٰ قسم کی دودھ پتی پیش کی جاتی ہے۔اس کام کے لیے ایک خاتون کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے ،جو صرف گاہکوں اور ملاقاتیوں کو چائے، بسکٹ، کیک، نمکو، چکوال کی ریوڑی اور خشک میوہ جات پیش کرتی رہتی ہے۔

ایسا ممکن نہیں کہ کسی شخص نے دُکان میں قدم رکھا ہو اور اُس کی کھانے پینے کی چیزوں سے تواضع نہ کی گئی ہو۔ایک کائونٹر بسکٹ ،ریوڑی،نمکو،خشک میوہ جات سے بھرا رہتا ہے۔گاہک آتے ہیں ،سامان خریدتے ہیں ، ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر چائے پانی پیتے ہیں ، چل دیتے ہیں۔ا س دُکان میں ایک کائونٹر ویٹرنری ڈاکٹر کا بھی ہے ،وہاں پر موجود معالج لوگوں کو اُن کے جانوروں میں بیماریوں سے متعلق مفید مشوروں کے ساتھ ادویات تجویز کرتا ہے۔ اس معالج کو تنخواہ دی جاتی ہے،جبکہ جانوروں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔

یہ بزرگ اسلام آباد ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی ہیں۔ہاکی ٹیم کا سارا خرچہ یہ برداشت کرتے ہیں،اگر یہ نہ ہوںتو کھلاڑیوں کے پاس ’’ہاکی‘‘تک نہ ہو۔میری اِن سے چھ برس کے عرصہ میں درجن بھر ملاقاتیں ہیں،یہ ملاقاتیں اِن کی دُکان پر ہوئی ہیں۔پہلی ملاقات ملک منیر (ایک صحافی دوست) نے کروائی تھی ، بعدازاں ساری ملاقاتوں میں ملک منیر موجود رہے ہیں۔ مَیں جب کبھی اُس علاقہ سے گزر رہاہوں تو اِن سے ملنا ضروری خیال کرتا ہوں۔

مَیں جیسے ہی دُکان میں داخل ہونے لگتا ہوں تو یہ آگے بڑھ کر گلے لگاتے ہیں اور اپنے ساتھ کی نشست پر جگہ دیتے ہیں۔کھانے کا وقت ہو تو فوراً کھانا منگوانے کا آرڈر دیتے ہیں ،ورنہ چائے ،بسکٹ ،کیک، خشک میوہ جات سے میز بھرجاتی ہے۔جتنا منع کریں، مگر ایسا ممکن نہیں کہ تواضع میں کمی آئے۔ حلیم اور سادہ طبیعت ،گاہکوں سے ایسے پیش آتے ہیں،جیسے کوئی ادنیٰ ملازم اپنے افسر سے۔مَیں جب ہی اِن سے ملا،خوشی اور عزت کا بے پایاں احساس ہوا‘‘ میزبان نے مجھ سے یہ وعدہ لیا کہ جب وہ شہر آئیں گے تو اِن سے ملاقات ضرور کروائی جائے گی۔مَیں نے وعدہ باندھ لیا۔ مگر یہ وعدہ کبھی ایفا نہیں پائے گا۔

یہ سوموار کی شام کی بات ہے ،جب ملک منیر نے اطلاع دی کہ نعیم اعوان صاحب خدا کو پیارے ہوگئے ہیں۔یہ سنتے ہی دِل غم سے بھر تا چلاگیا۔منگل کی دوپہر کویہ اسلام آباد ایچ ایٹ کے قبرستان میں قبر اُوڑھ کر گہری نیند سوگئے۔آسمان رُودیا۔مَیں اب شاید کبھی بے نظیر ہسپتال کی اُس گلی سے نہ گزرپائوں گا۔اب وہاں کیا رہ گیا ہے؟یہ ملک انسانوں سے بھرا پڑا ہے ،مگر کتنے لوگ ہیں جو قطبال گائوں کے ریٹائرڈ سکول ٹیچر بزرگ اور نعیم اعوان جیسے ہیں؟جن سے مل کر زندگی سے محبت ہوجائے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).