بانو قدسیہ پتی بھگتی، اشفاق احمد پتنی بھگت کیوں نہیں؟


نیلم احمد بشیر نے پنڈورا باکس کھولاہے یا ایک ایسی پٹاری کا ڈھکن اٹھا دیا ہے جس میں برسہا برس کے خوابیدہ سوالات کلبلا کلبلا کے پھن پھیلا رہے ہیں۔

بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی تحریروں کی آئیڈیل عورت! کون ہے وہ آخر؟

بے جان، گونگی، ستی ساوتری، سر جھکائے، نگاہیں نیچی رکھے، اپنی خواہشات سے بے نیاز، ممتا کے شیرے سے لتھڑی، پتی ورتا، جی حضوری میں باکمال، لب پہ قفل لگائے، قربانی کے لئے ہمہ وقت تیار، اپنے آپ کو عجز، انکساری اور احساس کمتری کا کفن پہنائے!

سورج مکھی کی طرح مرد کے گرد پھیرے لگاتی، اس کی پوجا میں ہمہ وقت منہمک، اختلاف رائے کی جرات ندارد، مرد کی آوارہ گردیوں سے آنکھیں چراتی، بے وفائی کو امرت جان کے پی جانے والی، بستر میں اس کے لئے امراؤ جان ادا، رسوئی میں گھر کی ماما کو شرمانے والی، ہر ظلم چپ رہ کے اور ہنس کے برداشت کرنے والی، گھر سے باہر نکل کے اپنی ذات کی شناخت نہ کروانے پہ راضی برضا، ماں کے رتبے پہ فائز ہو کے اپنے وجود کو قربان کرنے پہ ہمہ وقت تیار اور ان تمام بھاشنوں کو مذہب کا چولا پہنا کے پرچار کرنے والی عورت!

دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے ایسی حکم کی غلام عورت کو کونسا مرد ناپسند کر سکتا ہے؟

مرد، جس کا خمیر اس خیال سے اٹھا ہے کہ پاؤں تلے زمین، مہربان آسمان، مہکتی ہوا، موجوں بھرا سمندر، اٹھکیلیاں کرتے ابر اور گنگناتی بارش غرض کائنات کی ہر خوبصورتی کا مقصد تخلیق اس کی ذات ہے۔ اور اس طویل فہرست میں وہ بھی شامل ہے جو روز اول تو قدم سے قدم ملا کے چلنے کے لئے بنی تھی لیکن نہ جانے کیوں کیسے، وہ ان تمام چیزوں کا حصہ بن گئی جو مرد کے توشہ خانے کا حصہ تھیں۔

ہر جوابدہی سے مبرا، عقل کل کے غرور، اپنی طاقت اور اختیار کے نشے میں مبتلا کیسے کسی ایسی عورت کو چاہ سکتا ہے جو منہ میں زبان رکھتی ہو۔ جس کے پاس اختلاف کی طاقت موجود ہو، جس کے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہ ہو، جو اپنا حق مانگتی ہو۔ انسان ہونے کا وہ حق، جو معاشرے کے مروجہ رسوم و رواج کو چیلنج کرے۔

اشفاق احمد نے اسی کی دہائی میں ڈرامہ “ماما سیمیں” لکھ کے معاشرے کو ایک پیغام دیا کہ گھر سے باہر نکلنے والی معاشی طور پہ خود کفیل عورت عورت کبھی اچھی ماں اور بیوی نہیں بن سکتی۔ ایک چھوٹے بچے کے منہ سے ماں کی غیر موجودگی کا رونا، بقیہ گھر والوں کے معنی خیز جملے معاشرے کو سمجھانے کے لئے کافی تھے کہ اچھی عورت کیسی ہونی چاہئے؟ ضیا الحق کے عورت کے گرد بنے ہوئے مکڑی کے جالے کو اشفاق احمد نے بہت خوبصورتی سے مضبوط کیا اور بے شمار ذہنوں میں یہ بیج بو دیا کہ ذہین، بااعتماد اور مضبوط عورت کا گھر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ بچے بے چارے لاوارثوں کی طرح ماں کی محبت سے محروم رہ کر پلتے بڑھتے ہیں اور ماں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں ملتی۔ دیکھیے ڈرامے کے کردار کیا کہتے ہیں

” بچے کو ماں کی بڑی ہڑک ہوتی ہے جی” (باپ کی کیوں نہیں؟)

“ بچہ ماں کے لئے ہیروا کرتا ہے”

“ ارسلان جب تم پیدا ہوئے تھے تمہاری ماں نے سات سال باہر پھاٹک کی شکل نہیں دیکھی تھی، اپنی ساری خوشیاں، خوشی خوشی تم پہ وار دیں”  (باپ نے کیا کیا؟)

“ ماما سیمیں آپ بہت گندی ہو، بہت گندی ہو” (ماما کچھ دن کے لئے لندن گئی ہیں)۔

“ماما لوگ وعدہ کرتی ہیں، پھر توڑ دیتی ہیں ”  (ماں اور باپ دونوں اکھٹے گئے ہیں لیکن باپ سے کوئی شکایت نہیں)

“گاؤں کی عورت جب شوہر بھائی باپ کے لئے کھانا لے جانے کے لئے کھیت ٹاپتی ہے، وہی اس کی پکنک ہوتی ہے”

“وہ خوشیاں جو عورت حاصل نہیں کر سکتی، وہ نیند جو وہ سو نہیں سکتی، وہ سفر جس پہ وہ جا نہیں سکتی، وہ انتظار جو بے ثمر ہوتا ہے، یہ سب بچے کی وجہ سے ہیں”۔

(یعنی یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بچے کے بعد عورت کا کل وقتی کام صرف بچے کی پرورش ہے البتہ مرد اس سے بری الذمہ ہے)

“تخلیق کے بہت دکھ ہوا کرتے ہیں، بغیر آنسوؤں کے نہ تصویر بنتی ہے اور نہ بچہ”

(اشفاق صاحب، تخلیق میں مرد کا بھی کچھ حصہ ہوا کرتا ہے یا سب عورتیں ہی مریم ہوا کرتی ہیں)۔

ماما سیمیں کے کردار کے ذریعے ایسی عورت کو راندہ درگاہ قرار دیا گیا جو شوہر اور بچے کے علاوہ اپنی ذات کے لئے کچھ خواب دیکھ سکے۔

اشفاق احمد کی فلاسفی کو ترویج دینے میں بانو قدسیہ بھی پیچھے نہ رہیں۔ اپنے قلم کے زور پہ اپنی ہی ہم صنف کو زہر کا پیالہ شہد کے پردے میں پلانے کو اٹھ کھڑی ہوئیں۔ پدرسری نظام کے مرد کی خواہشات کو بانو قدسیہ نے اپنے الفاظ سے وجود میں ڈھالا اور آواز اٹھنے کے اندیشے سے مذہب کی دھونی بھی دے دی۔ لکھتی ہیں،

” شادی کے بندھن میں جو سب سے بڑا چیلنج پیش آتا ہے وہ فری ول کی آزادی ہے”

” شادی میں بھی مکمل سرور اسی وقت ملتا ہے جب اپنے فیصلے کو ساتھی کی خواہش پر قربان کرنے کا شوق، ولولہ اور جوش ہو”

” اپنی فری ول چھوڑنی ہوگی، پھر رشتہ محمود و ایاز کا بن جائے گا، عاشق و معشوق کا نہیں رہے گا”

” محبت کی شادیاں عموماَ Disillusion پر ختم ہوتی ہیں اور ساتھی توقعات لگانے کے بعد اپنا اپنا خیمہ اکھاڑ کر طلاق کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ غلطی تو انسان کی اپنی شخصیت اس کے اپنے مرکز میں ہوتی ہے ” (راہ رواں، صفحہ نمبر 10)

بانو آپا اگر حیات ہوتیں تو ہم ضرور پوچھتے کہ کیا یہ کلیہ اور یہ فلسفہ میاں بیوی دونوں کے لئے تھا یا اشاروں کنایوں میں یہ زہر ہلاہل عورت کی رگوں میں اتارا گیا تھا۔صاحب، ہمیں جواب بھی انہی کی تحریروں سے مل گیا،

” اتنی روئی کات لو کہ تمہارے کھیس تیار ہو جائیں اور تم اپنے شوہر کو دکھا سکو کہ تم سلیقہ شعار بھی ہو اور پڑھی لکھی بھی ” (راہ رواں، صفحہ نمبر 11)

“میری والدہ کا خیال تھا کہ عورت جب مالی طور پر خود مختار ہو جاتی ہے تو پھر شادی کے قابل نہیں رہتی”  (راہ رواں، صفحہ نمبر 118)

(والدہ تو خود انسپکٹرس آف سکولز تھیں، جنہوں نے بیوگی میں بانو قدسیہ اور ان کے بھائی کی پرورش کی۔ کیا یہ ممکن تھا اگر وہ مالی طور پہ خود مختار نہ ہوتیں)۔

“ میں بھی آہستہ آہستہ اس فیصلے پر پہنچی کہ شاید مجھے اپنی خود معاملگی اور خود ساختہ آزادی کو خدا حافظ کہہ کر ہی اشفاق صاحب کے گھر میں داخلے کی ٹکٹ مل سکتی ہے” (راہ رواں، صفحہ نمبر 167)

(اپنی ماہیت قلب کی اصل وجہ بانو قدسیہ نے خود بیان کر دی، پدرسری نظام کے سامنے سر تسلیم خم)

“مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ہے۔ اس میں ہمیشہ پرانے پاپی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں۔ سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن عورت اس جھیل کی مانند ہے جس کا ہر چشمہ اس کے اندر ہی سے نکلتا ہے” (توجہ کی طالب،صفحہ نمبر 11)

بانو قدسیہ نے اشفاق احمد کی زیر نگرانی کس خوبصورتی سے مرد کے ہرجائی پن کی توجیہ تراشی ہے اور عورت کو وفا کی پتلی بنا کے ایک پیڈسٹل پہ کھڑا کر دینا بانو آپا کا فن کمال ہے۔

بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ عورت کی ظاہری شکل وصورت کا انتہائی ظالمانہ طریقے سے مذاق اڑایا گیا ہے جس کے لئے ہم ایک جہان حیرت میں ڈوبے جاتے ہیں کہ ایسی نامی گرامی ادیبہ کا قلم اور یہ الفاظ؟

” اشفاق خان صاحب کے دادا بے انتہا خوبصورت، ذہین اور دھن کے پکے تھے. بدقسمتی سے ان کی شادی ایک کریہہ صورت سانولی بدہیت لڑکی سے کر دی گئی. بیوی کا گھونگھٹ اٹھاتے ہی انہیں ابکائی آئی” (راہ رواں، صفحہ نمبر چودہ)

مذہب اور انسانیت کا اتنا پرچار کرنے والا خاندان اور ایک عورت کی شکل پہ اس قدر رکیک جملے؟ وہ بھی ایک ایسے مرد کے حوالے سے جو خود عالم اور اپنے یونانی حسن پہ نازاں تھا۔لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ابکائیاں لینے کے باوجود یونانی دیوتا وظیفہ زوجیت قائم کرکے ایک مرد کو دنیا میں لانے میں کامیاب رہا جو اپنی “بدصورت ماں”کی گود میں پلنے لگا۔

بابا جی (اشفاق احمد کے والد ) کا خیال تھا، اعلیٰ نسل کی بیوی، اعلی نسل کا کتا اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا اعلیٰ نسل کے اشراف کی نشانی ہے۔ (راہ روں، صفحہ نمبر سولہ )

یقین کیجیے، اس اعلان کے بعد لفظ اعلیٰ نسل سے بے انتہا گھن آئی جس نے عورت کا مقام اور فضیلت کتے اور گھوڑے کے برابر متعین کر دی۔ سوال یہ ہے کہ اشفاق احمد کے خاندان کے مردوں کی سوچ اگر ایسی تھی بھی تو بانو قدسیہ کے قلم نے ایسے رویوں کو قدرے فخریہ انداز میں کیوں قلم بند کیا؟ عورت ہونے کے ناطے انہیں اس عورت کا دکھ کیوں نہیں محسوس کیا جس نے تمام عمر اس خدا کی بنائی ہوئی صورت کا تاوان ادا کیا جو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا بھی خدا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ خدائی نظام ایک طرف لیکن اس دنیا کے ناخداؤں نے پدرسری نظام ترتیب ہی اس طور سے دیا ہے کہ مرد اس نظام کا بنیادی اور اہم مہرہ رہے اور عورت کی حثیت ثانوی رکھی جاتی ہے۔ طاقت کا منبع، فیصلے کرنے کی آزادی اور اختیار سے مرد کو نوازا گیا ہے۔ مرد ہی عورت کی قسمت کا فیصلہ کرے گا چاہے باپ ہو، بھائی، شوہر یا بیٹا۔ عورت اپنے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

اس نظام کے دائرے میں مرد کے ہمراہ صرف وہ عورت پنپ سکتی ہے جو اپنا سر جھکا کے، اپنی مرضی کو تیاگ کے، اپنے دل کو قفل لگا کے مرد کے ساتھ اس دائرے میں داخل ہو جائے۔ اب اسے نظام کے چلانے والوں سے شاباش بھی ملے گی اور انعام و کرام سے بھی نوازا بھی جائے گا۔ اسے ایک ایسی دیوی بنا کے ایک ایسے مینارے پہ کھڑا کر دیا جائے گا جہاں وہ ناپختہ ذہنوں کو ایسی بالیدگی کی طرف لے کے جائے کہ ان کی آنکھیں اس آسمان کی وسعتیں دیکھ ہی نہ سکیں جو کائنات میں ان کی منتظر ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ دیوی کے ہاتھ میں ان عورتوں کے لئے چابک بھی دے دیا جائے گا جو پدرسری کے دائرے میں داخل ہو کے مرد کے زیر دست نہیں ہونا چاہتیں۔ جو معاشی خود مختاری کی صورت میں اپنی پاؤں تلے اپنی زمیں اور سر پہ اپنا آسمان دیکھنے کی متمنی ہیں۔ ان بھٹکی ہوئی عورتوں کو لعن طعن کرنے کا کام بھی پدرسری نظام کی دیوی کو ہی تو کرنا ہے۔

بانو قدسیہ نے یہ دونوں کام بہت خوبصورتی سے کیے۔ نیلم احمد بشیر کہتی ہیں،

” محترمہ بانو قدسیہ اپنی تحریروں میں عورتوں کو سڑک پر بکھری ہوئی ٹافیاں اور کھلا گوشت تک کہہ چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مرد معصوم اور عورت اکثر چلتر باز ہوتی ہے۔ اگر مرد عورت کو دیکھ کر للچا جاتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی عورت ہی ہوتی ہے”

کیا ستم ظریفی ہے کہ بانو قدسیہ جن کی پرورش ایک پڑھی لکھی اور پروفیشنل عورت کے ہاتھوں ہوئی، ان کی زندگی میں اشفاق احمد کے آتے ہی کایا پلٹ گئی یا شاید پلٹ کے رکھ دی گئی۔

ممتاز مفتی نے بانو قدسیہ کا خاکہ ” پتی بھگتی ” کے عنوان سے لکھا، اور لطیف پیرائے میں کافی سچ لکھ مارا۔

” اشفاق برہمن ہے، قدسیہ شودر ہے، قدسی کی شخصیت کا جزو اعظم پتی بھگتی ہے” (مفتیانے، صفحہ نمبر 255)

” قدسی میاں کی پسند ناپسند بدلنے کی کوشش نہیں کرتی، الٹا اپنی پسند ناپسند کومیاں کی پسند ناپسند کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ میاں کی ہر خواہش کو پورا کرے چاہے وہ خواہش قدسی کے مفاد کے خلاف کیوں نہ ہو ”  (مفتیانے، صفحہ نمبر 256)

کیا ااشفاق احمد نے بیوی کے والہانہ پن کا ایسا ہی جواب دیا؟

مفتی لکھتے ہیں،

” اشفاق اسے مانتا نہیں اس لئے درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ اشفاق نے بانو کی کوئی تخلیق آج تک نہیں پڑھی۔ البتہ مربیانہ انداز میں کہتا رہتا ہے، بانو کبھی وقت ملا تو تیری تازہ کہانی پڑھوں گا۔

ایک روز مجھ سے کہہ رہا تھا، ہاں اچھا لکھتی ہے، میرا مطلب ہے خاصہ۔ پھر وہ مجھ سے قریب تر ہو کر بولا، تلقین شاہ کے جملے چرا لیتی ہے، ٹانکنے نہیں آتے” (مفتیانے، صفحہ نمبر 259)

” اشفاق احمد نے بانو کی تخلیقی قوتوں کو سچے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔اگر آپ بانو کی تخلیق کاری کے متعلق بات کریں تو کہے گا ہاں اچھی لکھتی ہے لیکن یار بڑی مغز ماری کے بعد اسے یہاں لایا ہوں۔ اب بھی میرے فقرے چراتی رہتی ہے ” (مفتیانے، صفحہ نمبر 235)

” بانو نے کئی بار اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہا۔ جب بھی وہ ادبی بات کرتی تو اشفاق کا رویہ کچھ ایسا ہوتا کہ بی بی آلو چھیلو، خان زادوں کے پوتڑے دھوؤ، میرے سلیپر ڈھونڈ کر پاؤں تلے رکھو. ادب کی بات چھوڑو۔ بانو کو بات سمجھ میں آ گئی کہ اس جاگیردار کے سامنے دال نہیں گلے گی ”  (مفتیانے، صفحہ نمبر 260 )

اگر ممتاز مفتی کے خاکوں کے متعلق یہ سوچ لیا جائے کہ علامتی طور پہ لکھے گئے ہیں تب بھی گردان اسی بات کی ہے کہ مرد اور عورت کے رشتے میں ااشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا ادبی مقام اپنی جگہ مگر درون خانہ پسندیدہ ترتیب پدرسری ہی کی تھی جس کا اظہار دونوں کے تحریر کردہ ڈراموں اور تحریروں میں دیکھا گیا۔ اور اس ترتیب کا سہرا اشفاق احمد کے سر بندھتا ہے۔

” قدسیہ ایک ویدر کاک ہےجو ہوا کے مطابق رخ بدلتی ہے۔ہوا خود اشفاق ہے۔ اگر اشفاق مشرق سے مغرب کو چلنے لگے تو قدسی ویدر کاک کا رخ مغرب کی طرف ہو جائے گا۔قدسیہ کے ہاں اپنا موسم ہے ہی نہیں”  (مفتیانے، صفحہ نمبر 264)

یہ ہے وہ تصور جو اس مشہور ادبی جوڑے نے معاشرے کی گھٹن زدہ فضا میں پہلے سے سہمی ہوئی عورت کو سجھایا، بتایا اور اس تصور کو نہ ماننے والی کو باغی اور بری عورت قرار دیا۔ ہمیں بانو قدسیہ کے “پتی بھگتی” رول پہ قطعی اعتراض نہ ہوتا اگر اشفاق احمد بھی جواب میں “پتنی بھگت”ہوتے!

معاف کیجئے گا، بانو قدسیہ کی بتائی اور سمجھائی ہوئی عورت، اشفاق احمد اور ان جیسوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے۔ لیکن معاشرے کے بہت سے ان مردوں کی نہیں، جنہیں با اعتماد، اپنے خیال اور اپنی رائے رکھنے والی آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے والی عورت بھاتی ہے۔ احمد بشیر اور ہمارے ابا جیسے مرد جنہوں نے اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو اظہار رائے سے نہیں روکا، ترقی کے دروازے بند نہیں کیے اور اپنی مرضی اور اپنی بات کرنے پہ قادر عورت کو اپنا فخر جانا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).