نوشابہ کی ڈائری: الطاف حسین کو پیرصاحب کہنے لگے ہیں



20 جولائی 1989 ء

منگنی کیا ہوئی لگتا ہے زندگی ہی نئی نئی سی ہوگئی ہے۔ پتا نہیں انگلی میں پہنی انگوٹھی زیادہ چمکتی ہے یا اسے دیکھ کر میری آنکھیں، ہر لمحہ اس انگوٹھی کے سنہرے پن میں رنگ گیا ہے۔ بھابھی نے جب ذیشان کی تصویر دکھائی تو سچی بات ہے دل پورے زور سے دھڑکا تھا، مگر زبان سے یہی کہنا پڑا تھا کہ ”نہیں نہیں مجھے ابھی شادی نہیں کرنی“ اپنی بات تو نبھانا تھی نا، شادی کا ذکر چھڑتے ہی کہہ دیا تھا کہ جب تک بی اے نہ کرلوں کوئی سوچے بھی نہ۔

مگر جب بھابھی نے کہا، ”ابھی لڑکا بھی پڑھ رہا ہے بی ایس سی کے فائنل ائر میں ہے، انھوں نے کہا ہے منگنی کر دیں شادی لڑکی کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہو جائے گی“ تو میری بات بھی رہ گئی اور دل بھی بچ گیا۔ ذیشان اتنے وجیہ ہیں کہ کوئی بھی لڑکی ان پر فریفتہ ہو سکتی ہے، یہ سوچ کر کتنی خوشی ہو رہی ہے کہ انھوں نے مجھے پسند کیا۔ ارے تو کیا ہوا، مجھ میں کون سی کمی ہے۔

اب تو اکثر ذیشان کے خیالوں میں گم رہتی ہوں۔ شاید اس کی وجہ فراغت بھی ہے۔ انٹر کے بعد بی اے میں داخلے کے لیے خواہ مخواہ ایک سال کا وقفہ جو آ گیا ہے، فراغت نہ ہوگی تو کیا ہوگا۔ میڈم زاہدہ بتا رہی تھیں کہ 1977 میں حکومت سندھ نے طلبہ کو امتحان لیے بغیر اگلی جماعت میں بھیج دیا تھا تب سے ہر سال انٹر کرنے والوں کو ایک سال تاخیر سے گریجویشن میں داخلہ ملتا ہے، پتا نہیں کیا ضرورت تھی یہ کرنے کی، ان طلبہ کے تو مزے آگئے ہماری مصیبت ہوگئی۔ اب بس افسانے، ناول، تاریخ اور سیاست کی کتابیں ہیں، ذیشان کا خیال ہے اور فہد کی معصوم شرارتیں ہیں جن میں دل لگا رہتا ہے۔ فہد بالکل بھائی جان پر گیا ہے، بیٹا ہے نا اس لیے، بیٹی ہوتی تو بھابھی پر جاتی۔

فہد صاحب جب سے گھٹنوں کے بل چلنے لگے ہیں سارے گھر میں آفت آ گئی ہے۔ موصوف ہر چیز کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دن اخبار کھانے کی کوشش میں پورا فرنٹ پیج پھاڑ ڈالا۔ یہ حرکت کوئی غلطی سے بھی کردیتا تو ابو اس کا خون پی جاتے، لیکن پوتے نے کی تو ہنسے اور ٹیپ سے پھٹا صفحہ جوڑنے بیٹھ گئے۔ یاد آیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایم کیوایم نے جنگ اخبار کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ہمارے ہاکر سے بھی جنگ کی کاپیاں چھین کر جلا دی گئی تھیں۔

پھر اخبار والا ہمارے ہاں ”امن“ ڈال کر جانے لگا تھا۔ میرے وہ دن بڑی مشکل سے گزرے، ایک تو ”امن“ میں ”جنگ“ والی بات نہیں، جنگ میں تو ڈھیر ساری خبریں ہوتی ہیں، پھر رنگین صفحے، اور اس سے بھی بڑھ کر زبردست کالم، جمیل الدین عالی اور ارشاداحمد حقانی کے کالم کتنے معلوماتی ہوتے ہیں، اور نصراللہ خان کا مزاح پڑھ کر لطف آ جاتا ہے۔ رئیس امروہوی کے کالم اور قطعات بھی کیا زوردار ہوتے تھے، ان کا یہ شعر تو دل میں کھب کر رہ گیا ہے :

ہر عہد کی شہریت سے محروم
ہر شہر میں بے وطن ہیں ہم لوگ

وہ اپنے کالموں اور شعروں میں مہاجروں کا درد بیان کرتے رہے، اور اس کا صلہ اپنے سے نازیبا زبان کی صورت میں ملا اور شاید موت کی شکل میں بھی۔ اتنے بڑے آدمی کی جان چلی گئی اور کوئی جان نہ پایا کہ ان کی موت کا سبب قتل تھا یا حادثہ۔ مجھے یاد ہے ایم کیوایم نے جب پہلی بار جنگ کا بائیکاٹ کیا تھا تو رئیس امروہوی کے جنگ کی حمایت میں لکھنے پر الطاف حسین ان کی علمیت، بزرگی اور مہاجروں کے لیے خدمات کا ذرا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے اپنے بیان میں توتکار پر اتر آئے تھے۔

افسوس بھی ہوا تھا حیرت بھی۔ یہ وہی رئیس امروہوی ہیں جنھوں نے ”اردو کا جنازہ ہے“ جیسی نظم لکھ کر ممتاز بھٹو کی طرف سے پیش کیے جانے والے لسانی بل کے خلاف احتجاج کیا تھا، تو سندھ کے شہروں میں آگ لگ گئی تھی۔ بعض لوگ تو رئیس امروہوی کو ایم کیوایم کا خالق تک کہتے ہیں۔ وہ اپنے کالموں میں ایم کیوایم کی حمایت بھی کرتے رہے، پھر بھی ان سے یہ رویہ․․․! اور جب ان کی وفات ہوئی تو الطاف حسین کا بیان تھا ”مہاجر ثقافت کا تابندہ ستارہ غروب ہوگیا“ یہ الفاظ پڑھ کر میں سوچنے لگی کہ بعض لوگ زندہ ہوں تو خطرناک ہوتے ہیں اور مر کر بے ضرر ہو جاتے ہیں، پھر ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کوئی رئیس امروہوی کو ایم کیوایم کا خالق کہتا ہے کوئی جی ایم سید کو اور کوئی ضیا الحق کو، ویسے پھوپھا کا کہنا ہے کہ کسی اختررضوی صاحب اور کچھ اور شیعہ دانش وروں نے ایم کیوایم بنائی تاکہ مولانا اسفندیار خان کی تنظیم ”سواد اعظم اہلسنت“ کے اثرات اور نظریات کا توڑ کیا جا سکے۔ شمن دادا کہتے ہیں کہ ”تعصب بھرے القابات، کوٹا سسٹم، اپنے اکثریتی شہر میں اقلیت بن جانے کا خوف، قومیتوں کے نعروں کا شور․․․ جو حالات تھے ان میں ایم کیوایم نہ بنتی تو کیا بنتا۔

اس جماعت کے خالق یہ حالات ہیں، باقی تو سب نے اپنی اپنی غرض سے ناراض بچے کا سر سہلایا اور کمر ٹھونکی۔ ہم اردو بولنے والوں کا المیہ یہ ہے بٹیا کہ ہماری اپنی زبان ہے، ایک خاص ماحول میں رہنے اور بہ طور مسلمان یکساں حالات کا سامنا کرنے کی وجہ سے مزاج، ثقافت، رسم ورواج، مشترکہ ردعمل جیسے عناصر نے ہمیں ایک قومیت میں ڈھال دیا، اس قومیت کا خود ہمیں بھی عرصے تک شعور نہ تھا، ہم قوم بن گئے مگر کوئی زمین ہماری نہ ہو سکی۔

پاکستان بناتے ہوئے بھی شاید ہمارے لاشعور میں یہی جذبہ کارفرما تھا کہ ہمیں اپنی زمین مل جائے گی، لیکن یہاں آکر پتا چلا کہ پاکستان نام کی کوئی ہے ہی سرزمین نہیں، زمینیں تو صوبوں کی ملکیت ہیں۔ آخر لے دے کر کراچی ہاتھ آیا، سو اس پر حق جتایا اور کراچی والے کہلانے لگے۔ کراچی میں بسنے والے ہی نہیں اندرون سندھ رہتے بستے اردو بولنے والے بھی کراچی کو اپنے وطن کے طور پر دیکھنے لگے، لیکن جب ہر روز پنجاب اور سرحد سے آتی ریل گاڑیوں سے اتر کر شہر میں سکونت کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو ہمیں لگا ہم اب کراچی پر اپنا حق کھو رہے ہیں۔ دیگر عوام نے مل کر اس خطرے کو احساس محرومی میں بدل دیا، جس سے مہاجرقومی موومنٹ نے جنم لیا۔ ایم کیوایم خوف کی پیداوار ہے، خوف اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، خوف ہی اس کی سیاست ہے، اور مجھے ایم کیوایم سے خوف آنے لگا ہے۔“

شمن دادا سے ”اپنے وطن“ کے الفاظ نے میرے ذہن میں بھائی جان کا سنایا قصہ تازہ کر دیا۔ انھوں نے بتایا تھا، ”سندھی مہاجر فسادات کے دوران ہم رات رات بھر جاگ کر محلے میں پہرہ دیا کرتے تھے۔ دوسری طرف سندھی اور بلوچ لڑکے اپنی آبادیوں میں چوکنا جاگتے رہتے۔ ہم ان سے خوف زدہ تھے وہ ہم سے۔ میرا دوست دھنی بخش اس سب پر بہت دکھی تھا، وہ ان حالات میں بھی تقریباً روزانہ ہمارے گھر آتا۔ کہتا تھا․․․․اڑے کیا مصیبت ہے، ادھر ہم ساری رات خوار ادھر تم، ماپ کرو نی اپنے اپنے گھر سکون سے سو، یہ لسانی مسانی بل کا چکر میں تو ام ایک دوسرے سے کوئی زبان ہی نہیں بول رہا نہ سندھی، نہ اردو، تھو ڑے ان سیاست دانوں کا شکل پر نالت۔

دھنی بخش بے چارے کی کون سنتا۔ ہم بھی جاگتے رہے اور وہ لوگ بھی۔ ایک طرف پولیس ہماری دشمن بنی ہوئی تھی، میرے دوست شہریار سمیت تین مہاجر لڑکے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے، دوسری طرف ہم اردگرد کے گوٹھوں اور شہر کی سندھی بلوچ بستیوں سے خوف زدہ تھے۔ ہمارے ساتھ محلے کے پنجابی بھی محلے کی حفاظت کے لیے بیدار رہتے۔ ہاتھوں میں ہاکیاں ہوتیں، ڈنڈے، اینٹیں اور پتھر، پانی میں مرچیں ڈال کر رکھ لیتے۔ کسی کو خطرہ محسوس ہوتا تو وہ پتھر یا ڈنڈے سے کھمبا بجا دیتا، پھر ایک کے بعد ایک کھمبے بجنے لگتے۔

ایسی ہی ایک رات میں اور ساتھ والی گلی کا پرویز ہاکیاں تھامے دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے۔ پرویز کے والدین سینتالیس میں جالندھر سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ اچانک کھمبا بجا، ہم اچھل کر کھڑے ہوئے اور ہاکیاں تلوار کی طرح لہراتے آگے بڑھ کر آنکھیں پھاڑے ادھرادھر دیکھنے لگے۔ ایک گھنٹے تک یوں ہی چوکس رہے، کچھ بھی نہیں ہوا، تھک کر پھر دیوار کے سہارے بیٹھ گئے۔ اچانک پرویز بولا، یار! میں سوچتا ہوں ہم تو اپنے پنجاب چلے جائیں گے، تم مہاجروں کا کیا ہوگا۔

’اپنے پنجاب‘ ․․․․لگ رہا تھا جیسے میرے سر پر آسمان ہے نہ پیروں تلے زمین، اس لمحے پہلی بار میں نے سوچا پاکستان میں اور ملک سے باہر کہیں ایک انچ بھی زمین ایسی نہیں جسے میں پوری اپنائیت، پورے مان، پورے اعتماد سے ’اپنا‘ کہہ سکوں۔“ بھائی جان سے یہ واقعہ سن کر اسی احساس نے مجھے گھیر لیا جو بھائی جان کے دل میں چبھ گیا تھا۔

ساری کتابیں ایک طرف شمن دادا کی باتیں ایک طرف۔ بعض اوقات ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن دماغ میں گھومتی رہتی ہیں، پھر کسی موقع پر ایک جھماکا سا ہوتا ہے اور ان کے الفاظ کے معنی روشن ہو جاتے ہیں۔ شمن دادا حالات پر بہت افسردہ رہتے ہیں۔ اپنی کہانی سنائی تو تعجب ہوا کہ اتنا سب کچھ سہنے کے بعد وہ مسکرا بھی لیتے ہیں۔ بتانے لگے، ”تقسیم کے بعد ہندوستان سے آتے ہوئے جب ٹرین کی ٹرین کٹ گئی تو میں ماں باپ کی لاشوں کے نیچے زخمی پڑا اکلوتے بھائی کے کٹے ہوئے سر کو دیکھتے ہوئے بے تابی سے موت کا انتظار کر رہا تھا، مگر زندگی پوری بے رحمی کے ساتھ مجھ سے چمٹی رہی۔

پاکستان میں کچھ عرصہ بتانے کے بعد اپنے ماموں کے پاس مشرقی پاکستان چلاگیا۔ وہاں ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے کیا، پھر نوکری کی۔ سوچا جو ہونا تھا ہوچکا، اب کوئی قیامت نہیں آئے گی، لیکن ایک رات قیامت لوٹ آئی۔ اس بار مجھے ماموں اور ممانی کے جسم گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھنا پڑے، اب کی تو آنکھوں کے سامنے ماموں کی بیٹیوں ․․․“ اتنا کہہ کر ان کی رندھی ہوئی آواز خاموش ہوگئی تھی۔ انھوں نے آنکھیں میچیں اور ان کا سر سینے پر جھکتا چلا گیا۔ اس شام وہ اپنے دو مقتول عزیزوں کے جنازوں کو کندھا دے کر آئے تھے۔ ان میں سے ایک جماعت اسلامی کا کارکن تھا دوسرا ایم کیوایم کا۔

ایسے جنازے تو اب معمول ہیں جن کے کفن پر خون کے دھبے ہوتے ہیں، مگر بعض خونیں واقعات ایسے مزید سانحات کا خدشہ بھی ساتھ لاتے ہیں۔ ہر ایک اس خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ جیسے جامعہ کراچی پر یلغار اور پیپلز اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے تین کارکنوں کا قتل۔ جب ایم کیوایم نے الزام لگایا تھا کہ پی ایس ایف کے نجیب احمد نے الطاف حسین کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی ہے تو ہر ایک کہہ رہا تھا کہ اب نجیب نہیں بچے گا۔

وہ تو اب تک بچا ہوا ہے لیکن اس کی ’پی ایس ایف‘ کو قیمت چکانی پڑی۔ یہ سن کر عجیب لگا کہ نجیب بھی مہاجر ہے۔ سب کہتے ہیں کہ یہ پیپلزپارٹی کے مہاجر غدار ہیں۔ غدار تو خیر ہر اس مہاجر کو کہا جاتا ہے جو ایم کیوایم کے علاوہ کسی بھی دوسری جماعت میں ہے، یہاں تک کہ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر کو بھی، پروفیسرغفور اور مولانا نورانی کو تو مہاجردشمن سمجھا ہی جاتا ہے۔ ایک مرتبہ شہاب بھائی نے کہا تھا ”مہاجروں کی ایک ہی جماعت ایک ہی قیادت ہونی چاہیے، تاکہ مہاجر متحدہ رہیں کوئی انھیں تقسیم نہ کر سکے۔

“ وہ اس دن ’مہاجر اتحاد تحریک‘ کا پمفلٹ بانٹنے والے کارکنوں کی مار لگا کر آئے تھے، انھوں نے خود بڑے فخر سے بتایا تھا۔ مہاجر اتحاد تحریک مہاجرقومی موومنٹ سے چند روز پہلے قائم ہوئی تھی، میرپورخاص سے ٹرین پر کراچی آتے ہوئے میں نے اس کا نام اور نعرے دیواروں پر لکھے دیکھے تھے، پھر ”ایک ہی قیادت“ کی سوچ مہاجر اتحاد تحریک کو ہڑپ کر گئی۔ نہ جانے یہ مہاجروں کے تقسیم ہونے کا خطرہ کیوں ہے۔ مہاجروں کی اکثریت تو الطاف حسین کے نام کی مالاجپتی ہے، اور ایم کیو ایم کے کارکن اور راہ نما سر سے پیر تک اپنے قائد کی محبت اور عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب الطاف حسین کی جیل سے رہائی کے فیصلے پر عمل میں ذرا سی تاخیر ہوگئی تھی تو کارکنوں نے جیل کی دیوار توڑ ڈالی تھی۔ اب عقیدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ الطاف حسین کو پیرصاحب کہا جانے لگا ہے۔

زینت پھپھو کی بیماری کی وجہ سے ابو بہت پریشان ہیں۔ ہم زینت پھپھو کے گھر گئے تھے تو ابو نے عرفان کو پاس بٹھا کر دیر تک سمجھایا تھا کہ افغانستان نہ جائے، مگر اس کے سر پر تو جہاد سوار ہے۔ عمران کو بھی چھوٹے بھائی کی بہت فکر ہے۔ کہہ رہا تھا، ”میں نے بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن ایک تو وہ گھر پر ٹکتا ہی کم ہے، دوسرے مجھے تو بے دین سمجھتا ہے اس لیے میری بات کیوں مانے گا۔ مدرسۂ سیف السلام کے لڑکوں کے ساتھ بیٹھا پتا نہیں کیا کچھڑی پکاتا رہتا ہے۔

“ یہ مدرسہ پھپھو کے گھر سے قریب ہے، میں نے بھی دیکھا ہے، کیا شان دار بڑی سی عمارت ہے۔ سنا ہے سعودی عرب کے شیخ اس مدرسے کو چندہ بھیجتے ہیں۔ سوچ رہی ہوں کہ عرفان اب وہاں کس جہاد پر گیا ہے؟ اب تو روسی فوج بھی افغانستان سے جا چکی ہے۔ مجاہدین آپس ہی میں لڑ رہے ہیں۔ اللہ کرے زندہ سلامت واپس آ جائے اور پھر نہ جائے۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: انھیں بس چوبیس گھنٹے کا ٹائم ملا ہے بدلہ لینے کے لیے…نوشابہ کی ڈائری (13): ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).