کیا حضرت عیسی بلوچ تھے؟


اس جملے پر آدھا پاکستان معترض ہوا۔ جن خاتون نے یہ ”منقول“ کیا، یعنی خود نہیں لکھا، ان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی بپا کر دیا گیا۔

میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ کہنا یا ہونا اتنی بری بات ہے کہ اگر یہ پوچھ لیا جائے تو توہین مذہب کا ارتکاب ہو جاتا ہے؟

دوسرے کیا اس منقول مزاح کو کوئی باشعور اور حساس پاکستانی واقعی مزاح یا مذاق سمجھ سکتا ہے؟

”اٹھا لیا جانا“ ۔۔۔ اس اصطلاح کا درد ان خاندانوں۔ ان ماؤں۔ ان بہنوں۔ ان باپوں سے پوچھئے جو اپنے پیاروں کی تصویر لئے در در بھٹکتے ہیں۔ جنھیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کہاں ہیں؟ کیوں اٹھا لئے گئے؟ کس حال میں ہیں؟ کبھی مل پائیں گے یا نہیں؟ (بیشتر نہیں ملتے) اور اگر برسوں بعد ملیں گے تو کس ذہنی اور جسمانی حالت میں ہوں گے؟

حضرت عیسی علیہ سلام اللہ کے دین کی تبلیغ کے ساتھ رومن بت پرست حکمرانوں اور یہودی مال و مفاد پرست راہبوں کے خلاف ایک طاقتور آواز ہیں۔۔ ان کو مصلوب کرنے کا فیصلہ رومن حاکم نے یہودی راہبوں کے اصرار پر کیا کیونکہ حضرت عیسی نے ان راہبوں کو للکارا تھا کہ تم نے اللہ کے گھر کو بازار اور دینی رسوم کو کاروبار بنا دیا ہے، کون عیسائی یا مسلمان ہے جو اس سے انکار کرے کہ یوں نہیں ہوا؟

وہ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے اور انہیں مسلم عقیدے کے مطابق مصلوب ہونے سے پہلے آسمان پر بلا لیا گیا، عیسائی عقیدے کے مطابق وہ مصلوب ہوئے، ان کی شہادت واقع ہوئی اور تیسرے دن وہ زندہ کیے گئے اور آسمان پر اٹھا لئے گئے۔

اب ”اٹھا لئے جانے“ کو بطور استعارہ استعمال کر کے ایک بات کہی گئی۔ کیا خبر کہ کسی کم علم، سادہ لوح بلوچ، پشتون یا مہاجر نے یہ سوال واقعی کیا ہو؟ جو سینہ بہ سینہ ( by word of mouth) آگے پھیل گیا ہو۔ ویسے اس بات یا لطیفے سے واقعی مزاح کشید کرنا بڑے ہی مضبوط اعصاب اور دل گردے والوں کا کام ہے۔

مجھے تو یہ واقعہ / لطیفہ ایک نوحہ۔۔۔ ایک نالہ۔۔۔ ایک آہ۔۔۔ ماؤں کے آنسوؤں، بیٹے کو برسوں ڈھونڈھتے باپ کے بے کاندھا جنازوں اور بہنوں کی بھائی کے ”اٹھا لئے جانے“ کے غم میں خودکشی کی تخلیق لگا۔

ہاں چند افراد جو کہ اسے معاذاللہ توہین قرار دے رہے ہیں۔ اصل بات کی پردہ پوشی نہ فرمائیں۔۔۔ توہین جناب یسوع مسیح علیہ السلام کی نہیں، دراصل ان کی ہوئی ہے جو مطیع اللہ جان، سارنگ جویو کو ”اٹھا لے“ جاتے ہیں۔ اس واقعہ/ لطیفے میں جن پر لطیف طنز کیا گیا ہے وہی عوام کی توجہ ”مسنگ پرسنز“ سے ہٹانے کے لئے اسے مذہب کا لبادہ پہنانے کی کوشش میں ہیں۔

انجم ایاز کی ایک سندھی نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے
ماں بچے کو بہلانے کو
چمکتا چودھویں کا چاند دکھاتی ہے
اور بھوکا بچہ کہتا ہے۔۔۔
ماں یہ تو بہت پیارا ہے
بالکل روٹی دکھتا ہے

اب اگر اس نظم میں صرف چاند کا مذاق نظر آئے تو مانے لیتے ہیں کہ، معاذاللہ میرے منہ میں خاک۔۔۔، توہین  کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).