پاکستانی عوام اور خارجہ پالیسی: دل تو پاگل ہے


ہم جلد باز لوگ ہیں۔ بحثیت قوم ہمیں محبت بڑی جلدی ہو جاتی ہے۔ ذرا کسی نے تھوڑی سی اہمیت دی، ہم نے اسے پیار کا انداز سمجھ لیا۔ جب پاکستان بنا تو اس سے پہلے ہمیں کسی سے محبت ہوتی، ہم نے نفرت کرنا سیکھی۔ محمد علی جناح کا خیال اور گمان تھا کہ پاکستان الگ ملک بن بھی گیا، تب بھی انڈیا پاکستان تعلقات ایسے ہی رہیں گے، جیسے امریکہ اور کینیڈا کے ہیں۔ آنا جانا بھی آسان رہے گا اور تجارت بھی ہو گی۔ آخر کو صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ثقافت اور تاریخ ایک جیسی ہے۔ لیکن بٹوارہ ہوتے ہی دونوں جانب سے وہ قتل و غارت ہوئی کہ راوی اور بیاس سرخ ہو گئے۔

جناح دنیا سے چلے گئے۔ اور ہمیں کہانیاں سنائی گئیں کہ ہندو کتنا بڑا ظالم ہے۔ ہمیں اسی لئے اپنا وطن لینا پڑا کیونکہ ہندو بنیا تو ہمیں ایک دن چین سے نہ رہنے دیتا۔ گاندھی اور نہرو کی کردار کشی کی گئی۔ ہمیں نفرت کرنا سکھایا گیا اور ہم نے نفرت کرنا سیکھ لی۔ ہم نے نہ انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کا کچھ خیال کیا نہ اپنے ہاں رہنے والے ہندوں کا۔ اور ساتھ ہی اپنی تاریخ مسخ کر دی۔

ایران وہ ملک تھا جس نے پاکستان سب کو سب سے پہلے ایک آزاد مملکت کے طور پر قبول کیا۔ ایران کی یہ محبت ہمیں بہت بھائی۔ ہمارا بس نہیں چلتا تھا کہ ایران کا منہ چوم لیں۔ شاہ ایران بہت زیادہ مذہبی نہ ہوتے ہوئے بھی ایک مضبوط اسلامی بلاک کے حامی تھے۔ پاکستان میں فوجی حکومت آئی لیکن شاہ ایران کو اس سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ تو خود ایک مطلق العنان حکمران تھے۔ ایوب خان کے دور میں یہ دوستی قائم رہی۔ دونوں سربراہوں کا آنا جانا رہا۔ سنا ہے 65 کی جنگ میں ایران نے اپنے ہوائی اڈے بھی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پھر اس دوستی میں ترکی بھی شامل ہو گیا۔ وہ دونوں ہمارے برادر اور قارداش ہو گئے۔ ہم ان کی محبت میں ڈوب گئے۔

تینوں ملکوں نے مل کر ایک معاہدہ کیا جسے آر سی ڈی کا نام دیا گیا۔ یہ معاہدہ بہت مقبول ہوا۔ اس کے تحت ایک کام یہ بھی ہوا کہ تینوں ملکوں کے طالب علموں کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسری کی ثقافت، زبان اور سسٹم سے آگاہی بھی ہوئی۔ یہ دور ایک اچھا دور تھا اور ہماری عزت و تکریم بھی بنی رہی۔

پھر ہمارا مشرقی پاکستان ہمارے ناروا سلوک کی تاب نہ لاتے ہوئے الگ ہو گیا۔ مغربی پاکستان نے بنگالیوں سے وہی سلوک کیا جو ذرا امیر لوگ اپنے غریب رشتہ داروں سے کرتے ہیں۔ مدد، خیرات تو دے دیں گے لیکن ملنا جلنا نہیں بھاتا۔ وہ الگ ہوئے اور بہت اچھا ہوا۔ اب وہ ہم سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ آبادی بھی ہم سے کم اور ترقی کی رفتار ہم سے زیادہ۔ اپنے مذہبی لیڈروں کو بھی کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ فساد نہیں پھیلانے دیتے۔ لیکن بنگلا دیش سے ہمارے تعلقات دوستی کی سطح پر نہیں آ سکے گو ہم نے معافی بھی مانگ لی۔

بھٹو کے دور میں بھی ایران سے تعلقات اچھے رہے۔ بھٹو نے نا صرف ایران و ترکی سے دوستانہ رکھا بلکہ چین اور عرب ممالک سے بھی اچھے تعلقات بنائے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کو بھٹو کی شکل میں ایک پرجوش اور پر کشش لیڈر نظر آیا۔ انہوں نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ۔ اسلامی کانفرنس کا اہتمام ہوا اور اسلامی بم بنانے کی باتیں ہونے لگئیں۔ اب ہمیں سعودیوں سے الفت ہو گئی۔

بھٹو نے یو اے ای کے ساتھ بھی قربت بڑھائی۔ ہمارے مزدور وہاں جانے لگے اور وہاں سے شہزادے یہاں آنے لگے۔ انہوں نے نوکریاں دیں اور ہم ان کے لاڈ اٹھاتے ہوئے اپنے نایاب تلور نچھاور کر دیئے۔ بھٹو نے انڈونیشیا اور ملایئشیا سے بھی دوستی کی۔ ہمیں ان پر بے تحاشا پیار آیا۔ بھٹو پروگریسیو اور روشن خیال تھے لیکن مذہبی حلقوں کے دباو میں آ گئے۔ جمعہ کی چھٹی، ریس اورشراب پر پابندی، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا بھٹو کے دور میں ہوا۔ یہاں تک کہ کراچی کے ساحل پر جو کسینو بن رہا تھا اس کی تعمیر بھی روک دی گئی۔ پاکستان پر افسردگی چھا گئی۔ اسی دور میں لیبیا کے ساتھ بہت گرمجوش دوستی کی ابتدا ہوئی۔ ہم ان کے یار ہو گئے۔ قذافی اسٹیڈیم اسی دوستی کی نشانی ہے۔

ایران میں انقلاب آیا۔ ادھر بھٹو پھانسی چڑھ گئے اور پاکستان میں ضیا نامی ایک تاریکی چھا گئی۔ دونوں ملکوں میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی گئی۔ وہ ہم پر الزام لگاتے رہے ہم ان پر۔ تعلقات سرد پڑ گئے۔ پھر بھی ایران ہمارے ساتھ کسی نا کسی صورت میں کھڑا رہا ہے۔ ترکی جو یوروپ کا مرد بیمار کہلانے لگا تھا کمال پاشا کی قیادت میں ترقی کی راہ پر بگٹٹ دوڑنے لگا۔ ایران ترکی اور پاکستان یہی چاہتے تھے کہ اسلامی دنیا میں ان کا مقام ہو اور ان کی آواز سنی جائے۔ ہماری دونوں کے ساتھ اچھی نبھ رہی تھی۔

لیکن ضیا کے تاریک دور میں دوریاں ہونے لگیں۔ ضیا نے سعودی عرب سے تعلقات بڑھائے۔ اور وہابیت کو فروغ دیا۔ ہماری اردو میں عربی لہجہ گھلنے لگا۔ ہم رمضان کو رامادان اورکراچی کو کراتشی کہنے لگے۔ شکر ہے کہ پاکستان الباکستان نہیں بنا۔ (2012 تا 2015، پاکستاں میں ہر دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ پر الباکستان لکھا تھا- مدیر)

افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ ہم نے تو دوستی کا ہاتھ کئی بار بڑھایا لیکن افغانستان کو ہم سے شکایات ہی رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ڈیورنڈ لائن ہے جو انگریزوں نے افغان حکمرانوں سے کھینچوائی اور انہیں نا چاہتے ہوئے بھی اسے ماننا پڑا۔ اس لکیر کو افغانوں نے دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ افغان آپس میں سو اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس لکیر کے سب فقیر ہیں۔ افغانستان میں بادشاہت آئی پھر روسی سوشلزم آیا لیکن ہمارے تعلقات ویسے ہی برے رہے۔ پھر ہمیں افغانوں کو اپنا بنانے کا موقع مل گیا۔ ہم ان کی لڑائی میں شریک ہو گئے۔ طالبان سے بنیادی نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی بھر پور حمایت کی۔ لیکن افغان پھر بھی ہمارے نہ ہوئے اور ہم ان کے پندرہ لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین اور شاید اتنے ہی غیر رجسٹرڈ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر بھی بدنام ہیں۔

 ضیا نے ہمیں جس مذہبیت میں ڈبویا، ہم اس میں شرابور ہو گئے۔ ڈالر آ رہے تھے لیکن پتہ نہیں جاتے کہاں تھے۔ جہاد ہو رہا تھا۔ نعرے لگ رہے تھے۔ یہ ایسا زہریلا سانپ تھا جس کے زہر سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔ جو بھی حکومت آئی وہ اسی سانپ سے لپٹی رہی۔ کہنے کو سب ہی کہتے تھے کہ ہم ڈیکٹیشن نہیں لیں گے۔ لیکن یہ بات صرف کہنے کی حد تک ہی تھی۔ ہر حکمران اپنے اپنے دور میں کسی نا کسی سے احکامات لیتا رہا۔ ضیا الحق کس کا محکوم تھا؟ بے نظیر اور نواز شریف کس کے حکم کے پابند تھے جو افغان جنگ میں اپنے لوگ مرواتے رہے؟ اور جنرل مشرف تو بقول خود اپنے کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے، کس کی ایک فون کال پر سپر ڈال دی؟ بے نظیر کو کس نے راضی کیا کہ وہ مشرف سے ہاتھ ملا لیں؟ انہوں نے اپنے مقدمے ختم کراوئے اور ہاتھ ملا لیا۔ پھر جان سے گئیں۔

 نواز شریف کو جلا وطن کیا گیا تو سعودی عرب نے انہیں مہمان بنا لیا۔ گئے تو دس سال کے لئے تھے لیکن پانچ سال میں واپس آ گئے۔ یہ کس کے کہنے پو ہوا؟ نواز شریف کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ فی البدیہ بول نہیں سکتے تھے۔ امریکی صدر سے پرچیوں کی مدد سے بات کی۔ چین گئے تو بھائی شہباز شریف انہیں بتاتے رہے کہ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے۔ ترکی کے ساتھ بہت ہی قریبی دوستی ہو گئی۔ ہر ٹھیکہ ترکی کمپنی کو ملنے لگا۔ فتح اللہ گولن کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کی تنظیم اور اس سے وابستہ اداروں کو دہشت گرد قرار دے اور انہیں واپس بھیجے۔ اور پاکستان نے اسکولوں میں کام کرنے والے اسٹاف کو جبری ترکی واپس بھیج دیا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی جانوں کو وہاں خطرہ تھا۔ نواز شریف نے انڈیا سے بھی پینگیں بڑھایں، ساریاں بھجوائیں، شادی میں بلایا۔ بغیر ویزا کے انٹری بھی کروا دی۔ اپنے  ذاتی تجارتی معاہدے بھی کئے۔ سعودی عرب کے حکمران تو ان کے پکے یار تھے ہی، وہ یہی سمجھنے لگے کہ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا۔

جب سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا اور ہماری مدد چاہی تو ہم نے اس جنگ میں نہ کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور یہ بالکل صحیح فیصلہ تھا۔ سعودیوں کو ہم سے یہ امید نہیں تھی۔ وہ ہماری مدد بھی کرتے تھے، تیل بھی ادھار دیتے تھے۔ کچھ ہمیں بھی قرض کی پینے کی عادت ہو گئی تھی۔ لیکن جب ادھار چکانے کا وقت آیا تو ہم نے مجبوری کا اظہار کیا۔ بس اپنا جنرل راحیل شریف سعودی فوج کی سپہ سالاری کے لئے بھیج دیا۔ لیکن سعودیوں کے دلوں میں گرہ پڑ چکی تھی۔ بدلہ بھی انہوں نے کشمیر کے مسلئے پر پاکستان کی کھل کر حمایت نہ کرنے سے لے لیا۔

عمران خان آئے تو انہوں نے بھی یہ ساری دوستیاں نبھانے کی ٹھان لی۔ دوروں پر دورے کئے۔ کبھی اس کے در پر کبھی اس کے در پر۔ آتے ہی انڈیا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ مودی کو سراہا اور امید لگائی کہ وہ کامیاب ہوئے تو دونوں ملکوں کے مسائل حل ہو جایں گے۔ مودی نے اتنی پیاری باتوں کا جواب یوں دیا کہ انہیں اپنی تقریب میں بلاوا بھی نہ بھیجا۔ پھر پلوامہ ہوا اور پھر بالاکوٹ حملہ بھی۔ ہم نے پھر بھی ان کا پائلٹ فوری طور پر واپس بھیج دیا ۔ رہی سہی امید اس وقت دم توڑ گئی جب انڈیا نے یکطرفہ طور پر اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔

وزیر اعظم نے عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھایا مگر کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کا اجلاس طلب کروانے میں ناکامی رہی۔ بیشتر مسلم ممالک کی جانب سے اس معاملے پر کھل کر پاکستان اور کشمیر کے حق میں بیانات کا نہ آنا ہمارے لئے شدید تعجب کی بات تھی۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہماری ایک پکار پر سب دوڑے چلے آیں گے۔ لیکن یہاں سب ملکوں کے اپنے اپنے مفاد ہیں۔ کوئی کسی کے لئے لڑنے اور اپنا نقصان کروانے کو تیار نہیں۔ اتنے احمق تو بس ہم ہی ہیں۔ چین جو کھل کر ہمارا ساتھ دیتا ہے اس کی وجہ ہماری شہد سے میٹھی دوستی اس کے اپنے مفاد میں ہے۔ سی پیک کا 62 ارب ڈالر کا عظیم منصوبہ۔ ترکی نے بھی کشمیر کے معاملے میں ساتھ دیا اور شاید اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کے کئی منصوبے پاکستان میں چل رہے ہیں۔

سعودی عرب اب کھل کر ہم سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کی شوفری بھی کی لیکن انہوں نے اس کا بھی کچھ لحاظ نا کیا اور اپنے پیسے واپس مانگ لئے۔ ہم قرض کی ادایئگی بھی قرض لے کر کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ رقم چین سے ایک ارب ڈالر قرض لے کر واپس کی گئی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنے کےلئے سعودی عرب سے مزید قرض لینے کی درخواست کی تھی لیکن سعودی عرب نے نیا چھوڑ، پرانا قرض بھی واپس مانگ لیا۔ یعنی نمازیں بخشوانے گئے اور الٹے روزے گلے پڑ گئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے پر سعودی عرب پر تنقید کی تھی اس پر جو رنجش سعودیوں کو ہوئی، اسے دور کرنے کے لئےجنرل باجوہ صاحب گئے تو شہزادے نے ملاقات بھی نہ کی۔ ان لبوں نے نہ کی مسیحائی۔ ۔ ۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں وزیر اعظم مہاتیر محمد کی سربراہی میں کوالالپمور سمٹ ہوئی اور پاکستان نے عین وقت پر معذرت کر لی۔ ایسا کس کے کہنے پر کیا؟ وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے متاثر ہیں، جس کا وہ اظہار بھر کر چکے ہیں۔ ملائیشین ماڈل کو ملک میں اپنانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے ترک صدر اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات میں مسلم امہ کی مثبت عکاسی کے لیے مل کر ایک نیا ٹی وی چینل بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس کے باوجود بھی وہ سمٹ میں نہیں گئے۔ اورایک دن قبل اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کی اس سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی وجوہات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چند تحفظات جنہیں وقت کی کمی کے باعث دور نہ کر پانے اور اسی لئے پاکستان اب اس سمٹ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے کی خبر نے تو ہمیں اور بھی مایوس کر دیا۔ مصر اور اردن تو پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ اب سنا ہے کہ اومان بھی اسرایئل کو قبول کرنے والا ہے۔ ترکی پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسرایئل کو قبول کیا۔ اب ہمیں بھی سوچنا چاہیئے کہ کیا اسرایئل کو قبول کرنا ہمارے مفاد میں ہے؟ یا ہم یونہی دشمنی نبھائیں گے؟ وہ عرب ممالک جن کا اسرایئل سے جھگڑا تھا، جنگ تھی، وہ تو ایک کے بعد ایک اسے مانتے چلے جا رہے ہیں اور ان ممالک میں امن ہو گیا۔ ہم فلسطین کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کیسے ہو گا؟ ہم تو کشمیریوں کے لئے بھی کچھ نہ کر سکے۔

اب عرب ممالک تو آگے کی سوچ رہے ہیں اور ہم ریورس گیئر میں جا رہے ہیں بلکہ اب سمت بھی کوئی اور ہی ہے۔ ترکی بھی کچھ کچھ مذہبیت کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ لیکن آزادی وہاں اب بھی ہے۔ مسجد جانا چاہیں تو قدم قدم پر ہیں۔ مے نوشی کرنا چاہیں تو بار اور پب بھی فراواں ہیں۔ روزہ رکھیں تو آپ کی مرضی، نہ رکھیں تو کوئی زبردستی نہیں۔ کیا ہم ایسی آزادی نہیں چاہتے؟

ہوائی جہاز کے سفر میں ہنگامی حالت میں جو احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ آکسیجن ماسک جب سامنے آ کر گرے تو سب سے پہلے اپنا ماسک لگائیں، پھر کسی اور کی مدد کریں۔ ہمیں بھی اب یہی کرنا چاہیے۔

اب ہم ہر ایک کے گلے لگ لگ کے تھک چکے ہیں۔ گلے لگانے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ہم تو ان کے گلے ہی پڑ گئے۔ ہر ایک سے امیدیں باندھ کر مایوس ہوئے جا رہے ہیں۔ جتنی محبتیں کیں، اتنے ہی بریک اپ بھی ہوئے۔ دشمنیاں نبھاتے نبھاتے اکیلے رہ گئے ہیں۔ ہمیں بھی سکون اور امن درکار ہے۔ شدید گھٹن ہے۔ سانس لینے کو تازہ ہوا تک میسر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).