سیاست دان دوسروں کی صفائیاں دینے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟


تاریخ کی گرد آلود کتاب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی جرنیلوں پر کرپشن کے الزامات لگے، ان کے دفاع میں سیاست دان سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل عاصم باجوہ تک جرنیلوں کے دامن کرپشن کے الزامات سے آلودہ ہوئے تو ان کی ڈھال سیاست دان ہی بنے۔

قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب نے جب اپنے پسر گوہر ایوب کے نام پر گندھارا انڈسٹری کا معاملہ میڈیا کی زینت بنا تو صدر کے وزیروں اور رفیقوں میں کوئی ایسا نہ تھا جو انھیں اس سے باز رکھتا۔ سب لوگ انھیں ایڑ لگا لگا کر اسی راستے پر گامزن رکھنا چاہتے تھے جو انھوں نے غلط طور پر اختیار کیا تھا۔ اس وقت کے وزیرخزانہ مسٹر محمد شعیب نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور اعداد و شمار کی شعبدہ بازی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گندھارا انڈسٹری کی تجارتی کارروائی میں ہرگز پیچیدگی نہیں اور یہ انتہائی کھرا، بے لاگ اور صاف سودا ہے۔ ایک وزیر نے اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر یہاں تک اعلان کر دیا اگر صدر مملکت کا بیٹا گندھارا انڈسٹری کا حقدار نہیں تو اسے کسی یتیم خانے میں داخل کر دیا جائے۔ ہر وزیر اخبار والوں پر حسب توفیق لعن طعن کر رہا تھا کہ گندھارا انڈسٹری کی آڑ میں قومی صحافت سربراہ مملکت کے وقار کو مجروح اور پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہے۔

جنرل یحییٰ خان پر مالی کرپشن کے الزامات تو نہیں لگے مگر وہ اخلاقی کرپشن کی پاتال میں تھے۔ جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ لکھا گیا کہ فوجیوں کو میرٹ کے بغیر زمینیں الاٹ کی گئی اور غیر قانونی مراعات بھی فراہم ہوتی رہیں۔ رپورٹ میں ان خواتین کے نام بھی درج ہیں جن کا ایوان صدر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ رپورٹ میں ان افسروں کے نام دیے گئے جن کا کورٹ مارشل کرنا تھا۔ مگر جن کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی گئی انھیں ترقیوں اور اعزازات سے نوازا گیا اور یہ نیک کام بھٹو جیسے جمہوری لیڈر نے کیا۔

جنرل ضیا الحق کا زمانہ آتا ہے ائر مارشل اور جنرل اختر عبدالرحمن پر کرپشن کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ انور شمیم ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے ( 85۔ 1978 ) تک فضائیہ کے سربراہ رہے جبکہ جنرل اختر عبدالرحمن ( 86۔ 1979 ) تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ دونوں چار ستارہ جرنیلوں کے بارے میں رپورٹ ہوا کہ انھوں نے دفاعی سودوں اور افغان جنگ کے دنوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے کھلے کھاتوں سے لاکھوں ڈالر کمائے۔ آئین اور قانون کے دائرے میں لا کر ان جرنیلوں کے خلاف کارروائی تو دور کی بات الٹا جنرل ضیا الحق نے ائر مارشل انور شمیم کو کینیڈا اور سعودی عرب کے لیے پاکستان کا سفیر نامزد کیا، مگر دونوں حکومتوں نے کرپشن اور منشیات کے دھندے میں ملوث ہونے کی الزامات کی وجہ سے انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے وہاں ایک گھر اور کئی ملین ڈالر کی جاگیریں خریدی۔ نیب نے 2000 میں ان پر مقدمات بنائے مگر بوجوہ فائل داخل دفتر کر دی گئی۔ چلیں مانتے ہیں کہ ایسا جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے ہوا ہو گا مگر 2008 سے لے کر 20013 تک ملک میں تو پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت تھی انھوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ 2013 میں ائر مارشل صاحب کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی۔

جنرل مشرف کے دور میں ہی نیب کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھتے ہیں کہ بطور چیئرمین نیب انہوں نے ”ڈی ایچ اے لاہور کی انکوائری کروائی۔ انکوائری شروع ہوئی تو مجھے بے پناہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ جی ایچ کیو کی طرف سے کہا گیا کہ انکوائری بند کرو وگرنہ سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ بہرحال میں نے انکوائری بند نہیں کی جب انکوائری مکمل ہوئی اور میرے پاس آئی تو مجھے خیال آیا کہ شاید کوئی غلطی نہ ہو اور کوئی معصوم پھنس نہ جائے۔ ایک نامور جسٹس ریٹائرڈ جسٹس محمد غنی صاحب سے درخواست کی گئی کہ انکوائری کی تفصیل دیکھ لیں۔ انھوں نے ریاضت کے ساتھ تفصیل جائزہ لیا اور انکوائری کے تمام نتائج کو درست قرار دیا۔ قریباً پانچ ماہ کی کاوشوں اور 53 لوگوں کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد بریگیڈیئر خلیل صاحب نے انکوائری مکمل کی۔ بریگیڈیئر صاحب نہایت اعلی کردار کے مالک تھے اور بے خوف کام کیا جس کا صلہ انھیں فوج کی ناراضگی کی صورت میں ملا۔ انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ ڈی ایچ اے کی منیجمنٹ کرپشن میں بے دھڑک ملوث تھی اور دن رات نوٹ بنا رہی تھی۔ انکوائری رپورٹ 2005 میں دستخط کر کے جی ایچ کیو بھیجی وہاں اٹک گئی“ ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرف مارشل لا کے بعد دو جمہوری حکومتیں آئی مگر ایک بار پھر خاموشی، بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب کی بار بھی سیاستدان ڈھال بنے۔

جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد جنرل کیانی سپہ سالار بنے۔ جنرل کیانی کے بھائیوں امجد، بابر اور کامران کیانی کے متعلق کرپشن کیسز رپورٹ ہوئے کہ انھوں نے اسلام آباد میں ڈی ایچ اے ایلیسیم رانچز کے نام سے ہاؤسنگ سوسائٹی شروع کی۔ کامران کیانی ڈی ایچ اے سٹی لاہور کے بھی مرکزی کردار تھے۔ دونوں لینڈ ڈیویلپمنٹ منصوبوں کی مالیت 71 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی۔ کامران کیانی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں باقاعدہ اشتہاری ہیں۔ نیب کی جانب سے کیانی برادران میں سے کبھی کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ یہ معاملہ ڈی ایچ اے کی جانب سے 2009 میں اسلام آباد میں شروع کی گئی ڈی ایچ اے ویلی سکیم کے علاوہ ہے جو ڈیڑھ لاکھ سرمایہ کاروں کے 13 کروڑ ڈالر ڈکار گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ سب ہوا۔ کہا جاتا ہے جنرل کیانی جب بھی صدر آصف زرداری سے ملاقات کے لیے جاتے تو آصف زرداری سندھی ٹوپی کو سر پر سیدھا کر کے شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے جنرل صاحب بھائیوں کا کاروبار کیسا جا رہا ہے؟

جنرل کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے۔ جنرل راحیل شریف جاتے جاتے لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر دو ارب روپے مالیت کی 868 کنال اراضی اپنے نام کرواتے ہیں نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہیں اور جہاں اراضی الاٹ ہوتی ہے وہاں شہباز شریف کی حکومت ہوتی ہے۔ اس کا دفاع بھی سیاست دان کرتے ہیں۔

جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ پر کرپشن کے الزامات لگے۔ پہلے تو جنرل صاحب انکاری ہو گئے پھر چار صفحات پر تردید جاری کرنے کے ساتھ ساتھ معاون خصوصی اطلاعات برائے وزیراعظم سے استعفیٰ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان یہ کہہ کر استعفیٰ قبول نہیں کرتے کہ آپ کے وضاحتی بیان سے میں مطمئن ہوں آپ اپنا کام جاری رکھیں۔

احمد نورانی نے یہ سٹوری بریک کی تو ملک کے طول و عرض سے تمام سیاست دان خاموش ہو گئے۔ کسی نے بولنا تک گوارا نہیں کیا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پتا نہیں یہ اپنے منہ میں زبانیں بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے اس معاملے پر بات کی اور عمران حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہاں آ کر احتساب کیوں رک گیا؟ شہباز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل سے لے کر محمود اچکزئی تک سب مہر بلب۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے کہ جج ہو یا جرنیل، سیاست دان ہو یا بیوروکریٹ ہر ایک اپنے خفیہ اور ظاہری اثاثے ایمانداری سے ڈکلیئر کرے۔ اگر کہیں ثابت ہو گیا کہ اثاثے لوٹ مار سے بنائے گئے تو انھیں عبرت کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب جمہور کی طاقت سے آنے والا سیاست دان نادیدہ قوتوں کا کاسہ لیس بننے سے انکار کرے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui