شینشوب کے پھول


جھرنے کے کنارے اس کا ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ پانی کی سطح کافی نیچی تھی۔ دور دراز کے ایک چشمے سے کاریز بنا کر پانی باغ تک لایا گیا تھا۔ لیکن سوکھے کے موسم میں پانی کی سطح اتنی کم ہو جاتی کہ کاریز بھی سوکھ جاتی۔ آج پہاڑیوں پر بارش ہوئی تھی اور جھرنا زور و شور سے بہہ رہا تھا۔ بارش کے پانی کا قطرہ قطرہ باغ کے لئے آب حیات تھا۔ میر بلاچ بہتے ہوئے پانی کو پودوں کی طرف جاتے دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ سیب کی فصل تیار ہونے کے قریب تھی۔

زمردیں سیبوں کے رخسار سرخی مائل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جولائی اگست کے مہینوں میں ویران بنجر زمینیں بھی جنگلی پھولوں سے سج جاتی تھیں۔ اونچے ٹیلوں پر کاسنی رنگ کے شینشوب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ پھول اتنے زیادہ تھے کہ پورا ٹیلہ ہی چھپ گیا تھا۔ بارش کے بعد اس کے پتے تھوڑے بڑے اور زیادہ سبز جبکہ پھول بھی دھل کر مزید چمک اٹھتے ہیں۔ وہ جب بھی کلی آتا تو گھر کی نسبت زیادہ وقت جھرنے کے کنارے پھولوں کے اس تختے کو دیکھتے ہی گزارتا تھا۔ وہ پودوں کو چھوتا نہیں تھا۔ صرف ان کے درمیان بیٹھا رہتا۔ بھینی بھینی خوشبو کا وہ متوالا تھا۔

میر بلاچ کو پتا تھا کہ لالین گل ایسے موسم میں گھر میں بیٹھی نہیں رہے گی۔ جھرنے کے بہتے پانی سے مسرور ہونے ضرور آئے گی۔ وہ اس کے ساتھ اسلام آباد میں ہی پڑھتی تھی۔ پہاڑی کے اس پار ان کا قبیلہ آباد تھا۔ وہ دور سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے کاسنی رنگ کے خوابوں کی اپسرا، ٹھنڈے میٹھے پانی کے سرابوں سے نکل کر خراماں خراماں چلتی ہوئی، لہلہاتی شینشوب کی ٹہنی لگ رہی تھی۔ وہ پھولوں کی طرف ہی آ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ لالین شینشوب کی جھاڑیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ اٹکھیلیاں کرے گی۔ ٹہنیوں کو مسلے گئی جس سے خوشبو تیز ہو جائے گی اور پوری فضا مہک اٹھے گی۔ پھر وہ اس خوشبو میں ڈوبا ہوا پیراہن لہراتی ہوئی اس کے پاس سے گزرے گی تو اس کا چھینک چھینک کر برا حال ہو جائے گا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے باغ کی طرف چل پڑا۔

لالین کا تعلق علاقے کے ایک مذہبی سیاسی خانوادے سے تھا۔ دور پار کے چچا صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے۔ یونیورسٹی میں ان کا آمنا سامنا اکثر ہوتا رہتا تھا۔ وہ جدید خیالات کی حامل تھی۔ دونوں ایک ہی علاقے کے تھے لیکن ان میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ مذہبی سیاسی خاندان سے تعلق، عظیم اسلاف کی باقیات الصالحات ہونے کا فہم، انسان میں احساس تفاخر پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی چال ڈھال اور بول چال سب اس چیز کی غمازی کرتے تھے۔ بولتی تو ہونٹوں کا خم اس میں اور اضافہ کر دیتا تھا۔

حرف استکبار اس کے منہ پر سجتے تھے۔ اتنی ضدی کہ اس کی استقامت پر رشک آتا۔ پر اعتماد لہجے میں باتیں کرتی تو ہونٹوں سے مضبوط دلائل اور علم کے پھول جھڑتے۔ نطق و لب کی بخیہ گری سے فضا میں نغمے بکھر جاتے۔ ایسے خاندان کا فرد ہونے کے باوجود کبھی کبھی خاندانی روایات، قبائلی رسوم اور مقامی رواجوں کے خلاف وہ عجیب باتیں کرتی تھی۔ یہ باتیں میر بلاچ اور لالین میں نظریاتی اختلافات کا باعث تھیں۔

وہ بے نیازی کی چادر اوڑھے، اپنی آرزوؤں پر ماتم کناں، روایات کا اسیر خاموش زندگی گزارنے والا جبکہ لالین کے خیالات میں جدت تھی۔ وہ سرداری نظام کی مخالف تھی۔ کلاس میں کھل کر اس کے خلاف بولتی۔

بلوچستان کے سیاسی و سماجی حالات پر عہد حاضر کی تہذیب چنداں اثر انداز نہیں ہو سکی۔ ان سنگلاخ چٹا نوں میں ابھی بھی خار مغیلاں ہی پنپتے ہیں۔ نامہربان موسم، غربت اور سرداری نظام ابھی بھی لوگوں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہے۔ غربت ابھی بھی پورے صوبے میں خوراک کی تلاش میں بادہ پیمائی کرتے دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر قبائل ابھی بھی خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ جب غربت ہوگی تو گروپ بندی ہوگی اور مختلف قبائل میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے لڑائیاں ہوں گی۔ یونیورسٹی میں بلوچی طلبا کی اپنی تنظیمیں موجود تھیں، وہ ان تمام میں شامل تھی۔ اکثر صوبے کے معاشی اور معاشرتی نظام پر بات ہوتی تو اس کے خیالات سب سے انوکھے ہوتے۔ وہ کہتی تھی کہ

بلوچوں کی غربت کی وجہ آپس کی لڑائیاں ہیں۔ ان لڑائیوں کو خون قبائلی وفاداری مہیا کرتی ہے۔ وفاداری جو قبیلہ، نسل اور خاندان کی بنیاد ہے۔ کامیابی اور ترقی حاصل کرنے کے لئے وفاداری کی جڑ کو کاٹنا پڑے گا۔ یہ جڑ خاندان ہے۔ جس سماج میں پیداوار کم ہو، غربت ہو، محنت کے مواقع کم ہوں، وہاں دولت کا ارتکاز زیادہ ہوتا ہے۔ غریب ہمیشہ غریب رہتا ہے اور اس کی محنت، سرمایہ دار اور جاگیر دار چرا کر لے جاتا ہے۔ اس دولت کو مخصوص ہاتھوں تک محدود رکھنے کے لئے ذاتی ملکیت کا تصور فروغ پاتا ہے۔ اس جائیداد پر نسل در نسل قبضہ برقرار رکھنے کے لئے سماج میں جنسی تعلقات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ دولت اور تعلقات نسلی تفاخر کو جنم دیتے ہیں۔

اس نسلی تعصب کو ختم کرنے کے لئے پہلے گھروں کے اندر کھڑے قد آور بت گرانے پڑیں گے۔ پندار کے یہ بت دھرم، سعادت مندی، عقیدت مندی اور فرمانبرداری کے سہارے، بڑے کرتے، کھلی شلواریں اور دس گزی پگڑی باندھے، غیرت کا پہاڑ بنے، اپنی اولادوں کی خواہشات، ارمان اور جذبات کی قبروں پر استادہ ہیں۔ عمر رسیدہ اور بڑا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ہر بات، ہر قانون، ہر روایت اور رسم و رواج سب صحیح ہیں اور انہیں اپنا ہر حکم خدائی دعویٰ کے ساتھ منوانے کا حق ہے۔ انسان مال مویشی کی طرح ہانکے نہیں جا سکتے۔ فرمانبرداری غلامی کی ہی ایک مرغوب قسم ہے۔ خاندانی نظام کو توڑنا پڑے گا۔ انسانی تعلقات رغبت، محبت اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہونے چاہیے نہ کہ دولت و وراثت کے لالچ اور رنگ و نسل کی غنڈا گردی پر ۔

٭٭٭٭٭

اب میر بلاچ کو یونان آئے دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ جب سے اس نے اپنا ملک چھوڑا پھر کبھی واپسی کا نہیں سوچا۔ یونان میں اس نے ایک ریستوران بنا لیا۔ اسے یونیورسٹی کے دن بہت یاد آتے ہیں۔ دوستیاں، پیار، چھوٹے موٹے جھگڑے اور پھر سے پیار۔ لیکن بلوچی سر زمین عجیب ہے ایک بار لڑائی شروع ہو جائے تو ختم ہی نہیں ہوتی۔ وہ ابھی فائنل ائر میں ہی تھا کہ اس کے باپ کو لالین گل کے بھائی نے قتل کر دیا۔ لڑائی بڑھتی گئی۔

باغات اجڑ گئے۔ دو نوں اطراف نقصانات بڑھتے گئے۔ لالین کا بھائی قتل کر دیا گیا۔ بلاچ کا بھائی اور ایک کزن بھی۔ اب وہ اور ایک بہن ہی زندہ بچے تھے۔ وہ حالات سے تنگ آ گیا۔ رشتہ دار اسے بزدلی کا طعنہ دیتے۔ وہ صلح کرنا چاہتا تھا۔ جرگہ بلایا گیا اور لالین کو ونی کی بھینٹ چڑھا کر اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ دے دیا گیا۔ اس جیسے تعلیم یافتہ فرد کے لئے یہ ناقابل قبول تھا۔ سارا خاندان اس کے خلاف ہو گیا۔ اس نے اپنی بہن کو ساتھ لیا اور راتوں رات ایران کی سرحد پار کر گیا۔ لڑائی جاری رہی۔

وہ پر سکون زندگی گزار رہا تھا کہ ایک دن اس کے ریستوران میں لالین گل اور اس کا بھائی داخل ہوا۔ وہ انہیں دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اسے اطلاع مل چکی تھی کہ لالین کے خاندان میں بھی وہی دو افراد زندہ ہیں اور دونوں ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ وہ اس کا ہی پوچھ رہے تھے۔ لالین کمزور ہو چکی تھی۔ رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ لیکن یہ پیلاہٹ اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا رہی تھی۔ وہ سیدھے اس کے دفتر میں آ گئے۔ وہ اس سے معافی کے طلبگار تھے۔ بلاچ نے بتایا کہ وہ تو لڑائی میں حصہ دار ہی نہیں تھا۔ اس کے باپ نے اسے ایسی دشمنیوں سے دور رکھنے کے لئے بچپن میں اسلام آباد بھیج دیا تھا۔

اس دن کے بعد بھی وہ اکثر اس کے پاس آتے رہے۔ پھر اس کے گھر بھی آنا جانا شروع ہو گیا۔ وہ ان سے تعلقات بڑھانا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی۔ بلوچ دوست بھی اسے منع کرتے تھے۔ ایک دن دونوں اس کے گھر میں بیٹھے تھے۔ اس نے آج کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

لالین نے بھی بھانپ لیا۔ اس کے کمرے میں سجے ہوئے تازہ پھولوں کی طرف اشارہ کر کے بولی، ”یہ کاسنی رنگ کے پھولوں والی ٹہنیاں شینشوب کی ہیں۔“

وہ مسکراتے ہوئے بولا ”یہ زوفا ہے۔ اس سے ملتا جلتا۔ اسی نسل کا پھول۔“
”تمہارے دفتر اور گھر ہر جگہ یہ پھول سجے ہوتے ہیں۔“
”مجھے یہ بہت پسند ہیں۔“
”تم اپنا وطن نہیں بھولے اور اپنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔“
تھوڑی دیر وہ خاموش رہی اور افسردہ سے لہجے میں بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی
”اور اپنی۔ ۔ ۔
زمین بھی، جس کے کنارے شینشوب کا قالین بچھا ہوتا تھا۔ ”

”ہاں! میں ان کو چھو بھی لیتا ہوں کیونکہ ان کی خوشبو اتنی تیز نہیں۔ ان کا لمس بوجھل اداسی تو نہیں مٹاتا لیکن یادیں تازہ کر دیتا ہے۔“

”تمہارے ریستوران کی ہر میز پر عسل شینشوب بھی پڑا ہو تا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تمہیں اپنا وطن بہت یاد آتا ہے؟“

”ہاں اپنی دھرتی بہت دل دکھاتی ہے۔ جب وطن بدر ہو جائیں تو سر کوئے نا آشنائیاں دن سے رات کرنا بہت مشکل ہو تا ہے۔“

لالین کا بھائی بولا، ”تو، آؤ! واپس چلیں۔ آؤ! صلح کر لیں۔“
”میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔“
بھائی کچھ دیر خاموش رہا پھر ڈرتے ڈرتے کہنے لگا
”اگر تم ہمیں معاف کر چکے ہو تو لالین سے شادی کر لو۔“
میر بلاچ یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
”میں تو شادی شدہ ہوں۔“
”پھر کیا ہے؟ دوسری شادی میں کیا ممانعت ہے۔“
”تمہیں پتا ہے اس ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔“

اب لالین کے بھائی نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا
”لالین کی ہم شادی نہیں کر سکتے کیونکہ جرگہ فیصلہ دے چکا ہے۔ تم نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا۔ لڑائی جاری رہی۔ اب بھی اگر تم راضی ہو جاؤ تو حالات صحیح ہو سکتے ہیں۔ قانون کو چھوڑو، تم اسے نکاحی بیوی کے طور پر رکھ لو۔“

”جاؤ! بھائی اسی لا قانونیت نے ہی تو ہمارے دیس کو تباہ کیا ہے۔ اب جب کہ ہم اسے چھوڑ کر دیار غیر میں بس گئے ہیں تو پھر وہی فرسودہ رسم و رواج اپنا لیں۔ جاؤ! اور اسے شادی اپنی مرضی سے کرنے دو۔ ایسی شادی جو الفت، محبت اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہو نہ کہ دوستی و دشمنی اور رنگ و نسل کی غنڈا گردی پر ۔“

وہ تینوں ہی رو رہے تھے۔ لالین تشکر اور محبت بھری نظروں سے اسے ٹک دیکھ رہی تھی۔ بلاچ اسے بہت بلندی پر دکھائی دے رہا تھا۔

وہ جانے لگے تو میر بلاچ نے زوفا کی ایک ٹہنی پکڑ کر لالین گل کو پکڑاتے ہوئے کہا ”یہ ٹہنی لیتے جاؤ، حضرت داؤد نے دعا کی تھی، مجھے زوفا سے پاک کر ۔ تم بھی اسے ہاتھ میں پکڑ کر یہ گیت گانا، دل کو بہت سکون ملتا ہے۔ بائیبل کے مطابق یسوع مسیحؑ کی سولی پر پیاس بجھانے کے لئے سرکے میں بھیگی ہوئی زوفے کی ٹہنی ہی ان کے لبوں تک پہنچائی گئی تھی۔ تم بھی اس کو بھگو کر ہونٹوں سے لگانا، جسم ترو تازہ ہو جاتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).