فہمیدہ ریاض: ڈرو مت، پورا سچ بدصورت نہیں ہوتا


خبر پڑھی کہ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی بیٹی نے ملک میں صحافیوں اور ادیبوں کے اغوا اور تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنی مرحومہ والدہ کے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔ بہادر ماں کی بہادر بیٹی۔ خود فہمیدہ کے اپنے الفاظ ہیں۔ “فنکار کو اپنے فن کے ساتھ مکمل طور پر مخلص اور معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ میرے لیے فن مقدس ہے”

فہمیدہ ریاض سے پہلا تعارف اسکول کے زمانے میں ہی ہو گیا تھا۔ اسکول کالج کے زمانے میں فہمیدہ کی رومانی نظمیں پڑھیں۔ گھر میں فنون رسالہ آتا تھا۔ یہ نظمیں پڑھ کر کچھ عجیب سا پراسرار سا احساس ہوتا تھا۔

“اب سو جاو۔ وہ لڑکی۔ ذرا سی بات۔ آخری بار۔ اور ایسی ہی اور بہت سی نظمیں۔ ہم سہلیاں انہیں دل کو تھام تھام کے پڑھتیں۔ اتنی بار پڑھتے کہ زبانی یاد ہو گیں۔ فہمیدہ کا مجموعہ پتھر کی زبان آیا اور مقدس کتاب کی طرح اسے پڑھا۔۔۔ بار بار۔ کالج کی شرمیلی، کچھ الجھی ہوئی روایت میں جکڑی ہوئی اس لڑکی کے اشعار سے ہم سب ہی کسی نہ کسی صورت ریلیٹ کر تے رہے۔

ایک خاتون کی جانب سے رومان کا ایسا اظہار خوشگوار بھی تھا اور حیران کن بھی۔

 گھر کے قصے بیان ہوتے رہے

اپنی مجبوریوں پہ روتے رہے

جان کی دی قسم کہ شاد رہیں

التجا کی کہ بھول جائیں ہمیں

تھام کر یاتھ ان سے قول لیا

بیاہ کر لیں گے وہ کہیں اپنا

اف کس قدر درد تھا اس نظم میں۔ اور آخری بند۔

تھرتھراتے لبوں سے دے کے دعا

عمر بھر کے لیئے وداع کیا

مگر اب تک یہ سوچ ہے دل میں

ان سے اک بار اور مل آئیں

 کتنی ہی لڑکیوں نے اسے پڑھتے ہوئے دوپٹے بھگوئے ہوں گے۔ ترک تعلق کے بعد بھی چاہت ہے کہ بس ایک بار اور مل آئیں۔

پھر وہ نظم ” وہ ناجانے کیسی لڑکی ہو گی تم اب جس کے گھر جاتے ہو” اسی نظم میں معصومیت سے پوچھنا ” تم اب جس کے گھر جاتے ہو کیا وہ مجھ سے اچھی ہو گی؟” دوسری لڑکی کا ہونا تو مان لیا مگر کیا وہ مجھ سے اچھی ہو گی؟۔۔۔

شہزادے کو لوری دیتے ہوئے کہنا۔

سو جاؤ تم شہزادے ہو

اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو۔

اچھا تو کوئی اور بھی تھی

اچھا پھر بات کہاں نکلی؟

خواہ مخواہ دل چاہنے لگتا کہ کوئی ایسا ہی حادثہ ہمارے ساتھ بھی ہو جائے اور ہم دل تھام کر کسی سے پوچھیں کہ اچھا تو کوئی اور بھی تھی؟

پھر وطن میں ظلمت کی چادر تنی اور الفاظ پر قدغن لگی، لکھاریوں پر کوڑے برسے۔ کاغذ قلم آلہ جرم ثابت ہونے لگے۔ فہمیدہ کا لہجہ بدلا اور ہم بھی بڑے ہو گئے۔

“کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے؟‘‘میں فہمیدہ نے ضیا دورِ آمریت کے خلاف بغاوت اور احتجاج کی شاعری کی جو اپنی مثال اپ ہے۔ اور وہ نظم ” تلاوت” جس میں کئی مکروہ چہرے بے نقاب ہوئے۔

دیوار پہ پھر سے وہی صُورت آئی

لے جاؤ کہیں دُور

لے جاؤ یہ بے نور یہ بے آب اُجالا

لے جاؤ یہ ابہام

رہنے دو مرے کلبۂ احزاں میں سیاہی

روشن تھا صحیفہ

روشن تھا ہر اِک ورق

ہر لفظ کی قندیل

آنکھوں سے اُبلتے ہوئے اشکوں نے بجھائی۔

 “بدن دریدہ” آئی اور ہم نے جانا کہ عورت صرف نازک احساست ہی نہیں بلکہ مضبوط سوچ بھی رکھتی ہے۔ فیمینیزم کے کئی نئے رنگ نظر آنے لگے۔ کمزور مردوں سے ناکام محبت پر مضبوط عورت کی باتیں کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئیں۔

اقلیما

جو ہابیل کی قابیل کی ماں جائی ہے

ماں جائی

مگر مختلف

مختلف بیچ میں رانوں کے

اور پستانوں کے ابھاروں میں

اور اپنے پیٹ کے اندر

اپنی کوکھ میں

ان سب کی قسمت کیوں ہے

اک فربہ بھیڑ کے بچے کی قربانی

وہ اپنے بدن کی قیدی

تپتی ہوئی دھوپ میں جلتے

ٹیلے پر کھڑی ہوئی ہے

پتھر پر نقش بنی ہے

اس نقش کو غور سے دیکھو

لمبی رانوں سے اوپر

ابھرے پستانوں سے اوپر

پیچیدہ کوکھ سے اوپر

اقلیما کا سر بھی ہے

اللہ کبھی اقلیما سے بھی کلام کرے

اور کچھ پوچھے

’بدن دریدہ‘ کا لہجہ بالکل مختلف تھا۔ وہ کالج کی محبت کرنے والی سہمی سی لڑکی اب ڈٹ کر کھڑی ہے۔ یہ معاشرہ سدھار شاعری نہیں، یہ آپ بیتی ہے۔ یہ عورت کے استحصال پر بغاوت کا اعلان ہے۔ مردانہ معاشرہ دنگ رہ گیا۔ کچھ پتھر بھی اس کی سمت آئے۔ کہ اس کی اتنی جرات کیسے ہوئی ایسی باتیں لکھنے کی۔ شادی شدہ زندگی کے تجربات، جنسی عمل، پیٹ میں ایک نئی جان کے وجود کا احساس، ماں بننے کا اعزاز، وہ سارے عنوان جو مردوں کو عورت کی زبان سے مکروہ لگتے ہیں وہ ان سب پر بہادری سے بولی۔

وہ خود کہتی ہے

“جب جان سے گزرنا ہی ٹھہرا تو سر جُھکا کر کیوں جائیں۔ کیوں نہ اس مقتل کو رزم گاہ بنا دیں۔ آخری سانس تک جنگ کریں۔ سو میں نے بھی اپنی گردن جھکی ہوئی نہیں پائی۔ میری نظمیں جو آپ کے سامنے ہیں، ایک رجز ہیں، جنھیں بلند آواز سے پڑھتی ہوئی میں اپنے مقتل سے گزری۔ “

اپنی ترقی پسند فکر کو آگے بڑھانے کے لیئے ایک رسالہ ’آواز‘ کا اجرا کیا لیکن ضیا الحق کے دور میں یہ رسالہ حکومتی پابندیوں اور تنگ نظری کا شکار بھی ہو گیا۔ لیکن فہمیدہ کی آواز دب نہ سکی۔

 فتووں کی سنگساری سے بچنے کے لیئے وطن بدر ہوئی۔ ایک عالمی مشاعرے میں شرکت کی غرض بھارت گئیں اور وہیں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہاں کے حالات دیکھ کر مایوسی سے بولی۔

تم بالکل ہم جیسے نکلے

 اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

 وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن

 جس میں ہم نے صدی گنوائی

 آخر پہنچی دوار توہارے

ارے بدھائی بہت بدھائی

 پھر فہمیدہ میں اور بھی جرات آ گئی۔ وہ اور بھی ڈٹ گئی۔ مردوں کو ایسا للکارا کہ بہت سوں کے پسینے چھوٹ گئے۔۔

کولھوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے

سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر

تھا پارۂ دل بھی زیر پستاں

لیکن مرا مول ہے جو ان پر

گھبرا کے نہ یوں گریز پا ہو

پیمائش میری ختم ہو جب

اپنا بھی کوئی عضو ناپو

مردوں کی مردانگی کے اور بھی پسنیے چھوٹ گئے جب وہ بے باک سچائی سے کہتی ہے۔

کس سے اب آرزوئے وصل کریں

اس خرابے میں کوئی مرد کہاں

عورت جنس پر لکھنے سے گھبراتی ہے۔ لیکن فہمیدہ نے یہ بت بھی توڑ ڈالا۔ شاید وقت کا تقاضا بھی تھا کہ کوئی تو بولے۔ کوئی تو اس پر بات کرے۔ جنسی جذبے اور اس کی لذت کو بیان کیا۔

یہ کیسی لذت سے جسم شل ہو رہا ہے میرا

یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل

یہ کیف کیا ہے کہ سانس رک رک کہ آرہا ہے

یہ چھوٹتی نبض، رکتی دھڑکن، یہ ہچکیاں سی

گلاب و کافور کی لپٹ تیز ہوگئی ہے

یہ آبنوسی بدن، یہ بازو، کشادہ سینہ

میرے لہو میں سمٹتا سیال ایک نکتے پہ آگیا ہے

فہمیدہ ریاض نے فرمائشی شاعری نہیں کی۔ اس نے جو دیکھا اور محسوس کیا وہی لکھا۔ اس کی طرز شاعری بھی روایتی عورتوں کی شاعری نہیں تھی۔ وہ تو روایات کی باغی تھی۔ گھٹی ہوئی فضا میں سانس لینے کے لیئے چھوٹا سا روزن چاہتی تھی۔ سب سے ٹکراتے ہوئےاپنی جگہ بناتی گئی۔  کبھی کبھی کہیں کہیں وہ نڈھال سی بھی نظر آتی ہے لیکن سپر نہیں ڈالتی۔

مَیں بیٹھی ہوں سمجھوتوں کے سائبانوں میں

پَیر لڑکھڑاتے ہیں، ٹھوکر لگتی ہے

تو مَیں اپنا عہد دوہراتی ہُوں…..

بارُود کا گیت لکھنے کا عہد

لیکن…..

میرے دوست

مَیں تھک بھی جاتی ہوں۔

 وہ پھر کمر کس کر معاشرے کا سامنا کرتی ہے۔ ظلم پر احتجاج کرتی ہے۔

آزادی، انصاف، مساوات

یہ لفظوں کے خالی گملے

تم ہی تو اپنے بیلچوں سے ان میں مٹی بھروگے

دانائی کی نرم بھربھری مِٹی ڈال کر

مگر

اِبلیسیت کو کُھل کھیلنے کی چُھوٹ نہ ہو گی

ہم اسے مُلک بدر کرنے والے ہیں۔

پھر فہمیدہ کچھ کچھ روحانیت کی طرف بھی مائل ہو گئی۔

 فرید الدین عطار کی سات سو برس قدیم فارسی کلاسِک’’ منطق الطیر‘‘پر مبنی ایک خوبصورت تمثیلی کہانی ’’قافلے پرندوں کے‘‘ اوررومی کی غزلیات کو اردو کا پیرایہ دینا انتہائی مشکل کام تھا۔ لیکن وہ تو تھی ہی مشکل پسند۔

فہمیدہ نے نثر بھی لکھی۔ ان کا ناول ” قلعہ فراموشی” شاہکار ہے لیکن ادبی حلقے اسے نظر انداز کیئے ہوئے ہیں۔ اس ناول کو جمیلہ ہاشمی کے ناول “دشتِ سوس” کی سی اہمیت ملنی چاہیئے۔ یہاں بھی کچھ تنگ نظری کا ثبوت دیا گیا۔ یہ کہانی لکھنا آسان کام نہیں تھا۔ تحقیق اور مطالعہ اپنی جگہ ٹھوس ہے لیکن کہانی ان کا اپنا تخیل ہے اور اپنی تخلیق ہے۔ اور یہ کہانی بھی معاشرتی ناانصافی اور طبقاتی تقسیم، مذہب کے نام پر استحصال پر احتجاج ہی ہے۔ ناول میں کردار نگاری پر بہت محنت کی گئی ہے۔ منظر کشی ایسی کہ لگے فلم دیکھ رہے ہیں۔

فہمیدہ کی آخری کتاب ’تم کبیر‘ ہے جس میں اس نے اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر ایک انتہائی دل سوز نظم تحریر کی ہے۔ یہ نظم ایک فن پارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں فہمیدہ نے دل چیر کے رکھ دیا ہے۔ میں یہ دکھ سمجھ بھی سکتی ہوں اور محسوس بھی کر سکتی ہوں کیونکہ میں نے بھی اپنا جوان بیٹا کھویا ہے۔

میں بندہ و ناچار کہ سیراب نہ ہو پاؤں

اے ظاہر و موجود، مرا جسم دُعا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).