مقدس


صائمہ حسب عادت صبح جلدی اٹھی اور اس نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ پھر وہ تلاوت کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں گئی۔ اس نے طاق کی طرف ہاتھ اٹھایا تو کیا دیکھتی ہے کہ قرآن غائب ہے۔ اس نے سوچا شاید وہ بیسمنٹ میں قرآن رکھ کر بھول گئی ہو۔ وہ وہاں گئی تو وہاں بھی قرآن غائب تھا۔ پھر وہ اپنے بیٹے کے کمرے میں گئی لیکن وہاں بھی قرآن موجود نہ تھا۔ صائمہ کو جب اندازہ ہوا کہ گھر کے سب قرآن غائب تھے تو وہ بہت حیران ہوئی۔

صائمہ پچھلے چند ہفتوں سے ٹی وی پر یہ خبر سن رہی تھی کہ امریکہ کے ایک پادری نے اعلان کیا تھا کہ وہ 11 ستمبر کو امریکیوں میں سینکڑوں قرآن تقسیم کرے گا تا کہ وہ اسے جلا دیں۔ صائمہ نے اپنے بھائی عابد سے کہا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو اس قوم پر عذاب آئے گا۔ صائمہ کو قرآن نہ ملے تو اس نے استغفراللہ کا ورد کرنا شروع کر دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنی ہمسائی صابرہ کو فون کیا کہ اس سے قرآن مانگے۔ صابرہ اپنا قرآن لینے گئی تو یہ جان کر پریشان ہوئی کہ وہ بھی غائب تھا۔ جب دونوں سہیلیوں کی تفتیش بڑھی تو انہوں نے اپنی سب سہیلیوں کو فون کیا اور یہ جان کر اور بھی پریشان ہو گئیں کہ سب کے قرآن غائب تھے۔ آخر اس کی وجہ؟ مختلف عورتوں کی رائے مختلف تھی۔

، خدا نے دنیا سے قرآن اٹھا لیا ہے،
، اللہ قرآن کی توہین برداشت نہیں کر سکتا،
، خدا نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے،
، ہم سب پر ؑعذاب آنے والا ہے،

تھوڑی دیر کے بعد صائمہ کا بھائی عابد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ کہنے لگا
، باجی غضب ہو گیا،
، کیا ہوا؟ ،
، میں نماز پڑھنے گیا تو پتہ چلا کل رات مسجد ڈھے گئی ہے۔ خود بخود مسمار ہو گئی ہے،

، تم دوسری مسجد چلے جاتے،
، باجی! ہماری مسجد ہی نہیں شہر کی ساری مسجدیں مسمار ہو گئی ہیں،

، عابد ایک اور غضب ہو گیا ہے،
، وہ کیا؟ ،
، ہمارا قرآن غائب ہو گیا ہے۔ میں نے اپنی سب سہیلیوں کو فون کیا ہے۔ سب کے قرآن غائب ہو گئے ہیں۔ ،
، باجی یہ قیامت کے آثار ہیں،
، عابد میرا خیال ہے کوئی بڑا عذاب آنے والا ہے،

۔

صائمہ اور عابد نے شام کی خبریں سنیں تو پتہ چلا کہ 11 ستمبر کی صبح کو دنیا کی سب آسمانی کتابیں جن میں قرآن، تورات، زبور، انجیل اور گیتا شامل ہیں غائب ہو گئی ہیں اور سب عبادت گاہیں جن میں مسجد، مندر، گرجا اور سناگاگ شامل ہیں، ڈھے گئے ہیں۔

ساری دنیا میں روحانی بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ عوام و خواص گہری سوچ میں ہیں کہ آخر خدا نے کیوں اپنے گھروں کو ڈھا دیا ہے اور اپنی کتابوں کو اٹھا لیا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کا خیال ہے کہ عبادت گاہیں امن اور آشتی کی بجائے وحشت اور دہشت پھیلانے لگی تھیں اس لیے ان پر عذاب آیا ہے۔

۔

اگلے کئی ہفتے ساری دنیا کے لوگ صائمہ اور عابد کی طرح حیران و پریشان رہے۔ آخر سب مذاہب اور قوموں کے رہنما جمع ہوئے اور ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ آخر وہ کون سی کتابیں ہیں جنہیں مقدس قرار دیا جا سکتا ہے۔ سب قوموں کے رہنما اپنے اپنے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا کلام لے آئے۔ اس کانفرنس میں چند رہنماؤں کو چنا گیا اور انہیں تمام قوموں کا بہترین ادب پیش کیا گیا تا کہ وہ ایک نئی مقدس کتاب مرتب کر سکیں۔ اس ادب میں کنفیوشس کے فرمودات، کبیر داس، بلھے شاہ، والٹ وٹمین اور ولیم بلیک کی نظمیں اور چیف سئیٹل کی تقاریر شامل تھیں۔

اس کانفرنس کے آخر میں اعلان کیا گیا کہ خدا کے سب ماننے اور چاہنے والوں کو ایک چھت تلے جمع کیا جائے اور ہر شہر اور دیہات میں اکیسویں صدی کا پیغام عام کیا جائے کہ
ایک خدا۔ ایک دھرم۔ ایک دنیا۔ ایک انسان

کانفرنس کے آخر میں ساری دنیا کے ٹی وی سٹیشنوں نے خصوصی پروگرام نشر کیے۔ ایک پروگرام میں ایک ماہر نفسیات، ایک ماہر روحانیات اور ایک انسان دوست فلاسفر کا انٹرویو لیا گیا۔

ماہر نفسیات نے کہا کہ آج بھی انسان کو خدا اور مقدس کتاب چاہیے کیونکہ وہ اس کی روحانی ضرورت ہیں۔ ماہر روحانیات نے کہا کہ اب انسانوں کو آسمانی خدا کی ضرورت نہیں۔ خدا ہم سب کے اندر موجود ہے اور وہ ہمارا ضمیر ہے۔ پروگرام کے آخر میں انسان دوست فلاسفر نے کہا کہ انسان کا انفرادی اور اجتماعی ارتقا اپنی ذات کے عرفان اور سماجی شعور پر منحصر ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے بعد ساری دنیا کے انسان سمجھ جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں کیونکہ وہ سب ایک ہی دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail