ریپ اور جنسی ہراسانی


گزشتہ رات ایک انتہائی افسوس ناک خبر سننے کو ملی کہ لاہور سے گجرانوالہ کے رستے پر نو تعمیر شدہ موٹر وے پر ایک خاتون کی عزت کو پامال کیا گیا۔ تفصیلات سب نے پڑھ لی ہیں اور دہرانا میرے لیے تو ممکن نہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ ریپ کا واقعہ ہوا اور سوشل میڈیا پر آواز بلند ہوئی ہے۔ مگر جس طرح میڈیا اور سوشل میڈیا پر آواز بلند ہو رہی ہے اسی طرح ان واقعات کی رپورٹس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

خواتین کا ریپ سڑک پر ہو رہا ہے۔ سکول میں ہو رہا ہے۔ ہسپتال میں ہو رہا ہے۔ گھر میں ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ قبر میں ہو رہا ہے۔

خواتین کا ہو رہا ہے۔ لڑکیوں کا ہو رہا ہے حتیٰ کہ سال بھر کی بچیوں کا ہو رہا ہے اور کر کون رہا ہے۔ اجنبی کر رہے ہیں۔ استاد کر رہے ہیں۔ رشتے دار کر رہے ہیں حتیٰ کہ اپنے باپ کر رہے ہیں۔ معاشرہ پستی میں جا نہیں رہا، جا چکا ہے۔ ہمارا سوشل فیبرک تباہ ہو چکا ہے۔ اپنے مرد ہونے سے گھن آنے لگی ہے اب تو۔

سارا وقت لٹھ لے کر عورت کے پیچھے پڑے رہتے، یہ کیوں پہنا، وہ کیوں پہنا، ادھر کیوں گئیں، ادھر کیوں گئیں وغیرہ، اب تو اپنے گھر میں، اپنی گاڑی میں، اپنے لوگوں میں محفوظ نہیں تو ایک بار مرد ہی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔

پاکستان کو انسانی نصاب کی ضرورت ہے۔ کتابوں میں لکھ دینے سے اشرف المخلوقات نہیں ہو جاتے، بننا پڑتا ہے۔

گھر کی خواتین پر پابندیاں لگا کر دوسرے کے گھر کی خواتین کو مال غنیمت سمجھتے ہیں ہمارے لوگ اور اگر کوئی بھاؤ نہ دے تو اپنے خاندان کی عورتوں بچیوں پر اپنی فرسٹریشن نکالتے ہیں۔ مرد گندے ترین واٹس ایپ میسیج ایک دوسرے کو بھیج کر کہتے ہیں ہمارے گھر کی عورتیں ایسا نہیں کرتیں۔

کتنے ہی لوگ یہاں سوشل میڈیا پر ہیں۔ خواتین کے بارے میں لغو باتیں کرتے ہیں مگر ان کے گھر کی خواتین اس سوشل میڈیا پر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی جیسی مخلوق کو جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہم کیسے ہیں۔ گھناؤنے اندر تک۔

اور ان سے بچے لڑکے کی بھی محفوظ نہیں، اور یہ معاشرتی رویہ ہے۔ کسی کے جسم کو نوچ کر اسے بے عزت کرنا۔ پکڑ کر برہنہ وڈیو بنا لینا، جسم سے کپڑے اتار کر چھترول کرنا، گلیوں میں بے پردہ گھمانا یہ سب اسی معاشرے میں ہو رہا ہے اور اب اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ آپ کہیں بھی محفوظ نہیں۔

یونیورسٹیوں میں طالبات کو اکثر ایسے رویے اور بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔ محض ایک اسائنمنٹ کے نمبر لگانے کے لیے ساتھ تصویر بنانے کا اصرار تک سننے میں آیا ہے۔ کیا کریں۔

اصل بات حل کی ہے۔ میرے خیال سے، سب سے پہلے دو بچوں کی پالیسی کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی مینج ہو سکے اس کے بعد ہر بچے کو مین سٹریم سکول میں جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں ان کو تربیت دی جائے نہ کہ محض لکھنا پڑھنا۔ بھاڑ میں جائے میڈیم، مواد پر توجہ دیں۔ خاص طور پر پانچ سے پندرہ سال۔

بچوں کو ساتھ رہنے کی تربیت دیں نہ کہ الگ رکھ کر فرسٹریٹڈ جانور بنا کے اچانک معاشرے میں بھیج دیں جہاں وہ ہر ایک کو نوچ کھاتا پھرے۔
دس برس شدید عمل کریں تو شاید ہم امید کی پہلی کرن دیکھ پائیں، ورنہ گھپ اندھیرا ہے اور اس اندھیرے میں سنائی دیتی چیخیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).