کیا آپ نے اپنی ماں کا ریپ ہوتے دیکھا ہے؟


یہ سوال تو بظاہر ایک انسان سے کرنا ہی تکلیف دہ ہے۔ مگر کیا آپ کے لئے یا میرے لئے ہے۔ شاید نہیں ہے۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس ملک میں روز ایک المیہ ہے روز ایک نئی داستان ہے۔ کیا آپ نے زینب کے واقعات کے بعد سبق سیکھا۔ کیا آپ نے مانسہرہ میں پچھلے سال، چار سال کی بچی جس کو ریپ کر کے کنویں میں پھینک دیا تھا وہ وہاں تین دن پڑی رہی۔ اس سے کچھ سیکھا۔ اور اس کے اگلے دن وہ سردی اور تکلیف کی شدت برداشت نا کرتے ہوئے مر گئی تھی۔ اچھا ہوا، ورنہ ایسی اولاد کو کون پالتا۔ کون اس کے زخم سیتا۔ کون اس کی زندگی بھر کونسلنگ کرتا۔

ہم روز ایسے واقعات دیکھ دیکھ کر بے حس ہو چکے ہیں۔ آخر کب تک روئیں سر پیٹیں۔ اس کا حل کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ کسی کی کوئی ذمہ داری ہی نہیں۔

چند دن قبل کراچی میں معصوم مروہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ قاتل اس قدر ظالم تھا کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنا لینے کے بعد ایک زور دار ضرب سے اس کو مارا۔ اس سے بھی بس نا چلا تو اس کی لاش جلا دی۔ اور ایسا درندہ اب تک ہم میں موجود ہے۔ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہے۔ کون ہے وہ۔ آپ میں یا کوئی اور۔ کیا قاتل، ملزم پکڑا گیا۔ کیا پکڑا جائے گا۔ ہرگز نہیں۔

پھر کل ہی ایک خواجہ سرا کو پشاور میں گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کا ایک ساتھی ابھی تک زخمی ہے۔ پشاور میں مسلسل خواجہ سرا ہٹ لسٹ پر ہیں۔ انہیں زبردستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور کوئی بھی ذرا چوں چرا کرے تو گولی اس کا مقدر بنتی ہے۔ ایک سوال آپ دنیا کی کون سی ریاست میں زندہ ہیں۔ آپ کس سوچ سے تعلق رکھتے ہیں کہ آپ ایک معصوم جنس کو انسان نہیں مانتے اور پھر اس کو جینے کا حق بھی نہیں دیتے۔

ہمارے ہمسایہ ملک میں ایک پچاسی سالہ دادی ریپ ہو گئی۔ وہ ملزم کو کہتی رہی کہ میں تیری ماں بھی نہیں دادی کی عمر کی ہوں۔ مگر وحشی کو اس سے کیا مطلب۔ ویسے بھی ایک کافر معاشرے کا ایک بے راہ روی کا شکار انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

ہمارے اسلامی جمہوریہ ملک میں دردناک واقعات روز کا معمول ہیں۔ یہ واقعات تو اس ملک میں نہیں رکنے والے، جن لوگوں کے ذمے یہ کام ہیں۔ وہ بھنگ کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ گھوٹ کے پی بھی گئے ہیں۔ آپ کو کچھ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں بس دیکھ لیں کہ آپ کے ارد گرد آپ کے بچے، بچیاں، ماں، دادی، جانور محفوظ ہیں کہ نہیں۔ ہمارے ملک میں یہ تاثر ہے کہ واقعات کے ذمہ داروں کو سزا مت دو۔ بس یہ دیکھو کہ یہ واقعہ دبانا کیسے ہے، مٹی کیسے ڈالنی ہے۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو وکٹم پر ملبہ ڈال دو اور پھر سب اچھا ہے۔ شبھ منگل۔

آپ موٹر وے پے پیش آنے والا واقعہ ہی دیکھ لیں۔ جس میں ایک عورت رات کے ساڑھے بارہ بجے بچوں کو لے کر نکل رہی ہے۔ ویسے آپ دیکھیں کہ اس میں قصور دراصل اس عورت کا ہے کہ وہ اس اسلامی معاشرے میں جہاں راہ چلتے لوگ ایمان تازہ کرواتے پھرتے ہیں۔ وہاں وہ بغیر محرم کے کیوں گئیں۔ اب آپ یہ سوال کریں گے کہ اس کے ساتھ محرم ہوتا۔ اور ڈاکو پانچ چھے ہوتے تو وہ کیا کرتا۔ یا اب مجھے اب یہ تاویل نا دیجیے گا کہ ملتان میں چار بندوں نے خاوند کو باندھ کے اس کے سامنے اس کی بیوی کا گینگ ریپ نہیں کیا۔ محرم ساتھ تھا۔ چھوڑیں سر یہ کوئی کرنے والی بات ہے ایسا ہوتا یا ویسے ہوتا۔ یہ بتائیں خاتون اکیلے نکلی ہی کیوں۔

بقول سی سی پی او کے وہ فرانس کی شہری تھیں انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ پاکستان ہیں اور نکل پڑیں۔ آپ کچھ نا کریں۔ اگر انسان جیسی کوئی ایک کیفیت میں بھی ہیں تو یہ بس یہ سوچ کر دیکھیں۔

آپ اپنی ماں کے ساتھ ہیں۔ آپ کی گاڑی رکتی ہے۔ دو ڈاکو آ کے آپ کی کار کا شیشہ توڑتے ہیں۔ آپ کو اور آپ کی ماں کو گاڑی سے نکالتے ہیں۔ آپ بچپنے کی حالت میں خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں سوچ رہے ہیں کہ یہ آپ سے آپ کا موبائل اور پاکٹ منی چھین لیں گے۔ یا آپ کو گولی مار دیں گے۔ آپ اپنی ماں کی طرف بڑھتے ہیں اس سے لپٹتے ہیں کہ ڈر اور خوف سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ مگر آپ کی ماں کو آپ کے سامنے ہی برہنہ کیا جا چکا ہے۔ آپ کے سامنے آپ کی ماں ریپ ہو رہی ہے۔ زندگی بھر آپ اس مردہ جسم اور ماؤف ذہن کے ساتھ کیسے جئیں گے۔ اگر آپ کو اس میں کراہت محسوس ہو، غلاظت لگے۔ تو بس سوچیے گا کہ یہ آپ کی نہیں میری ماں ہے۔ لکھنے والے کی ماں کے ساتھ ریپ ہو رہا ہے۔
مگر ایک آخری بات کیا اس واقعے کے بعد بھی آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).