چین کے ساتھ 1962 کی لڑائی میں شامل انڈین جنگی قیدیوں کی داستانیں


انڈیا چین

Getty Images
</figure>پہاڑی راستوں پر دو دنوں تک لگا تار چلنے کے بعد بریگیڈیئر پرشورام جان دالوی کو ایک کھلی جگہ نظر آئی۔ وہ سب سے آگے تھے۔ ان کے پیچھے ان کے سات ساتھی تھے۔

وہ جوں ہی تنگ راستے پر آگے بڑھے انھوں نے خود کو ایک چینی انفینٹری کمپنی کے درمیان پایا۔ اسی دوران،انھوں نے دیکھا کہ تقریباً ایک درجن بندوق کی نالیں ان کی طرف تنی ہیں۔

بریگیڈیئر دالوی نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ اس وقت 22 اکتوبر 1962 کی صبح ٹھیک 9:22 بج رہے تھے۔ وہ اور ان کے سات ساتھی چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے اسیر ہوچکے تھے۔ اب وہ ایک چیچک زدہ چہرے والے چینی کپتان کے رحم و کرم پر تھے۔

بریگیڈیئر دالوی اپنی کتاب ‘ہمالین بلنڈر’ میں لکھتے ہیں: ‘میں نے پچھلے 66 گھنٹوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں 10500 فٹ کی بلندی سے مزید اوپر 18500 فٹ تک چڑھا اور پھر 10500 فٹ نیچے ندی کی طرح نیچے اترا۔ میں تھک کر چور ہو گیا تھا اور بھوک لگ رہی تھی۔ میری داڑھی بڑھ گئی تھی۔ جھاڑیوں کے بیچ چلنے اور کانٹے دار ڈھلانوں پر پھسلنے کی وجہ سے میرے کپڑے تار تار ہو گئے تھے۔’

بریگیڈیئر دالوی کو تنہائی میں رکھا گیا تھا

بریگیڈیئر دالوی کو چینی فوجیوں نے انڈین فوجیوں سے علیحدہ تبت کے سیتھانگ کیمپ میں تنہائی میں رکھا تھا۔ ہمیشہ محفلوں کی شان سمجھے جانے والے دالوی کچھ ہی دنوں میں افسردگی کا شکار ہوگئے۔

چینی کبھی کبھی ان کے ساتھ ٹیبل ٹینس یا تاش اور شطرنج کھیلتے تھے۔ چینیوں کے پاس انگریزی کی کوئی کتاب نہیں تھی کہ وہ انھیں پڑھ سکیں۔ ہفتوں کے بعد انھیں لکھنے کے لیے ایک قلم اور کچھ کاغذات دیے گئے۔

مزید پڑھیے ’

‘انڈین 1962 کی شکست سے نکل نہیں سکے’

جب چین کے معاملے پر کانگریس کے ارکان اور حزب اختلاف دونوں نے نہرو کو گھیرا

انڈیا سے جنگ جیت کر چین اروناچل پردیش سے پیچھے کیوں ہٹا تھا؟

ان کے بیٹے مائیکل دالوی کہتے ہیں: ‘میرے والد ان کاغذوں پر ان کتابوں کا نام لکھا کرتے تھے جو وہ پڑھ چکے تھے۔ ان فلموں کے نام بھی لکھتے تھے جو وہ دیکھ چکے تھے۔ وہ ان تمام اداکاروں اور اداکاراؤں کے نام لکھتے تھے جو انھیں یاد تھے۔ ہر ہفتے چینی کمشنر آکر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے تھے۔

کھانے میں انھیں دونوں وقت آلو دیے جاتے تھے۔ البتہ کرسمس کی رات انھیں کھانے میں چکن دیا گیا تھا۔ انھوں نے یہ چکن چینی فوجیوں کے ساتھ بانٹ کر کھایا تھا۔

مہینے میں ایک بار ان کے بال کاٹے جاتے تھے۔ ان کی حجامت کے لیے ہمیشہ دوسرا حجام آتا تھا۔ چینیوں کو ان پر اتنا اعتماد نہیں تھا کہ وہ انھیں اپنی حجامت خود بنانے دیں۔ اپریل سنہ 1963 میں تمام انڈین جنگی قیدیوں کو بیجنگ منتقل کردیا گیا۔

چینی حکومت کی خواہش تھی کہ وہ انھیں آنے والی لیبر ڈے پریڈ کے موقعے پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں چینی عوام کے سامنے پیش کریں۔ بریگیڈیئر دالوی کی شدید مخالفت کے بعد چینیوں نے اس خیال کو ترک کردیا۔

کرنل کے کے تیواری کی بے عزتی

بریگیڈیئر دلوی کی طرح کرنل کے کے تیواری خوش قسمت نہیں تھے۔

کرنل تیواری بعد میں میجر جنرل بنے۔ اپنی موت سے قبل پانڈی چیری کے اپنے گھر میں لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے مجھ سے کہا: ‘ایک چینی افسر نے میری وردی پر لگے رینک کو دیکھ لیا تھا اور میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا۔ میرے قریب پڑے ہوئے ایک گورکھا زخمی فوجی نے مجھے پہچان کر کہا ‘صاحب پانی’۔ میں کود کر اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا۔

‘اسی وقت چینی فوجی نے مجھے مارا اور اپنی محدود انگریزی میں مجھ پر چیخا، ‘بیٹھ جا، احمق کرنل۔ تم قیدی ہو، جب تک تم سے کہا نہ جائے تم اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتے۔ ورنہ میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں دریائے نمکا چو کے آگے ایک پتلے سے راستے پر مارچ کرایا گیا۔ ہمیں پہلے تین دن کھانے کو کچھ نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد پہلی بار ہمیں ابلے ہوئے نمکین چاول اور خشک تلی ہوئی مولی کا کھانا دیا گیا۔’

خشک پیال کو توشک کی طرح استعمال کیا

میجر جنرل تیواری نے مجھے مزید بتایا: ‘مجھے پہلے دو دنوں تک ایک تاریک اور نم کمرے میں تنہا رکھا گیا۔ اس کے بعد کرنل رکھ کو میرے کمرے میں لایا گیا جو بری طرح سے زخمی تھے۔ ہم نے صبح سات سے ساڑھے سات بجے کے درمیان ناشتہ کیا۔ لنچ کا وقت ساڑھے دس بجے سے گیارہ بجے تک تھا۔ عشائیہ ساڑھے تین بجے کے درمیان پیش کیا جاتا تھا۔

‘جن مکانوں میں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا ان کی کھڑکیاں اور دروازے غائب تھے۔ شاید چینیوں نے انھیں بطور ایندھن استعمال کیا تھا۔ جب ہمیں اندر لایا جارہا تھا تو ہم نے دیکھا کہ وہاں پیال کا ڈھیر تھا۔ ہم نے چینیوں سے پوچھا کہ کیا ہم انھیں استعمال کرسکتے ہیں؟ انھوں نے ہماری درخواست قبول کرلی۔ اس کے بعد ہم نے اس پیال کو توشک اور کمبل کے طور پر بھی استعمال کیا۔

لتا منگیشکر کے گیت اور بہادر شاہ ظفر کی غزلیں

چینی جیلوں میں اپنے ایام کو یاد کرتے ہوئے میجر جنرل تیواری نے کہا: ‘چینی اکثر عوامی خطاب کے نظام پر انڈین موسیقی بجاتے تھے۔ ایک گانا بار بار چلایا جاتا تھا۔ اور وہ گیت تھا لتا منگیشکر کا ‘آجا رے میں تو کب سے کھڑی اس پار۔’

اس گانے کو سن کر ہمیں گھر کی یاد ستانے لگتی۔

ہمیں بہت حیرت ہوئی جب ایک دن ایک چینی خاتون آئی اور ہمیں بہادر شاہ ظفر کی کچھ غزلیں سنائیں۔ شاید یہ اردو بولنے والی عورت لکھنؤ میں کئی سالوں تک مقیم رہی ہوگی۔’

سنہ 1962 کی جنگ میں چین نے 3942 انڈینز کو جنگی قیدی بنا لیا تھا جبکہ ہندوستان کے پاس ایک بھی چینی جنگی قیدی نہیں تھا۔

انڈیا نے 1951 میں جنگی قیدیوں کے متعلق جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تھے جب کہ چین نے اس معاہدے کو جولائی 1952 میں تسلیم کیا تھا۔

کروکشیتر یونیورسٹی کے پروفیسر سریندر چوپڑا نے اکتوبر سنہ 1968 میں ‘انڈین جرنل آف پولیٹیکل سائنس’ کے شمارے میں ‘سائنو – انڈین بارڈر کنفلکٹ اینڈ دی پرزنرز آف وار’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے چین میں رہنے والے ایک انڈین جنگی قیدی کے حوالے سے بتایا تھا کہ ‘جس دن مجھے گرفتار کیا گیا تھا اس دن میرے ساتھ پندرہ سے زیادہ زخمی فوجی تھے۔ انھیں طبی امداد کی اشد ضرورت تھی۔ وہ درد سے چیخ رہے تھے لیکن چینیوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ پہلے 48 گھنٹوں میں کسی بھی زخمی کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا گیا۔ ان کی درد بھری درخواستوں کے باوجود انھیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا گیا۔ یہ جنیوا معاہدے کی دفعہ 12-15 کی سنگین خلاف ورزی تھی۔’

چینیوں نے اضافی معلومات حاصل کیں

انڈیا چین

Getty Images
</figure>اتنا ہی نہیں بلکہ جنیوا معاہدے کی دفعہ 17 کے مطابق اسیر ہونے کے بعد ان سے صرف ان کا نام، آرمی رجمنٹ نمبر، عہدہ اور تاریخ پیدائش پوچھی جاسکتی ہے۔ لیکن چینیوں نے انڈین جنگی قیدیوں سے ایک فارم پُر کرایا جس میں یہ پوچھا:

آپ کے پاس کتنی زمین ہے؟

آپ کے کتنے مکانات ہیں؟

آپ کی سالانہ آمدنی کتنی ہے؟

آپ کے خاندان میں کتنے لوگ ہیں؟

آپ کس سیاسی جماعت کے حامی ہیں؟

آپ نے کتنے ممالک کا دورہ کیا ہے؟

سریندر چوپڑا لکھتے ہیں کہ ‘جب انڈین فوجیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو چینیوں نے کہا کہ ان کی اپنی حکومت نے ان کی شناخت کے لیے یہ معلومات طلب کی ہیں۔ اس کے علاوہ فوجیوں سے فوج میں ان کی تعیناتی، ان کے اسلحہ اور ان کے افسران کے بارے میں بھی پوچھا گیا، جو جنیوا معاہدے کی یکسر خلاف ورزی تھا۔’

جوانوں کو افسروں کی توہین کے لیے اکسایا گیا

انڈیا چین

Getty Images
چین کے مورچے پر انڈین فوجی

جنیوا معاہدے کی دفعہ 11 میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو دی جانے والی خوراک مقدار، معیار اورتنوع قیدی بنانے والے ملک کے فوجیوں کے برابر ہونی چاہیے۔ لیکن چین میں ہندوستانی جنگی قیدیوں کو روزانہ 1400 سے زیادہ کیلوری کا کھانا نہیں مل سکا جبکہ انڈیا میں انھیں روزانہ 2500 کیلوری کی خوراک کا عادی بنایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ہر جگہ سینیئر عہدیداروں کی بے عزتی کی گئی۔ ایک سینیئر عہدیدار نے ایک حلف نامے میں کہا : ‘چینیوں نے ہمیں بار بار بتایا کہ اب ہم افسر نہیں ہیں۔ اس نے ہمارے جوانوں کو بتایا کہ انھیں اپنے افسروں کو سلام پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ انھوں نے جوانوں کو اپنے افسران کی توہین کی ترغیب دی۔ جب بھی ہمارے نوجوانوں نے ہمیں سلام کیا چینی ان پر چیختے اور کہتے کہ ان میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بھی تمہاری طرح جنگی قیدی ہیں۔ اس کا واحد مقصد ہمارے فوجیوں میں ڈسپلین کو ختم کرنا تھا۔ ہمارے فوجیوں کے سامنے راشن، ایندھن اور پانی اٹھوایا جاتا اور ہمیں کیمپ میں جھاڑو دینے کے لیے کہا جاتا۔ کجھ فوجیوں پر چینیوں کی اس مہم کا اثر بھی پڑا۔’

خون آلود پٹیوں کو دھو کر دوبارہ استعمال کرنا

انڈیا چین

Getty Images
</figure>ٹو راجپوت یونٹ کے میجر اومکار ناتھ دوبے کو نامکا چو کی لڑائی میں 16 گولیاں لگیں۔ زخمی ہونے کے بعد انھیں چینیوں نے قید کرلیا۔ ان کے ساتھ 70 فوجی لڑ رہے تھے، جن میں سے صرف تین ہی زندہ بچے تھے۔ میجر دوبے اس وقت وارانسی میں تھے۔ انھیں تبت میں لھاسا کے قریب مارمونگ کیمپ میں جنگی قیدی کے طور پر رکھا گیا تھا۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے میجر اومکار ناتھ دوبے کہتے ہیں: ‘ٹوٹے ہوئے گھروں میں ہی ہسپتال بنایا گیا تھا۔ وہ بس نام کا ہسپتال تھا۔ ایکسرے کی سہولت موجود نہیں تھی۔ وہیں میرے جسم سے 15 گولیاں نکال دی گئیں۔ جب میں جنوری 1963 میں انڈیا واپس آیا تو انڈین فوج کے ڈاکٹروں نے 16 ویں گولی نکالی۔ چین میں ہماری خون میں سنی زخموں کی پٹی کو پانی میں ابالنے اور خشک ہونے کے بعد میرے جسم پر دوبارہ لگا دیا جاتا۔ ان کے پاس تازہ پٹیاں اور روئی بھی نہیں تھی۔’

میجر دوبے مزید کہتے ہیں: ‘ہمیں سونے کے لیے ایک چٹائی دی گئی تھی جس پر بچھانے کے لیے ایک بہت ہی پتلی سی توشک دی گئی تھی۔ ہمارے لحاف بھی بہت گندے تھے اور ایک لحاف سے ہم کئی لوگ کام چلاتے تھے۔ کھانا بہت خراب تھا۔ وہاں گھاس کی سبزی چاول کے ساتھ پیش کی جاتی تھی۔

میجر اومکار دوبے کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے مقابلے میں گورکھا فوجیوں کے ساتھ چینیوں کا سلوک بہتر تھا۔ انھیں ہم سے بہتر کھانا بھی ملتا تھا۔’

چینی ان سے کہتے تھے کہ نیپالی اور چینی بھائی بھائی ہیں۔ انھوں نے ان گورکھا جنگی قیدیوں کو براہ راست نیپال واپس بھیجنے کی پیش کش کی تھی، جسے نیپال نے مسترد کردیا تھا۔

ہندی چینی بھائی بھائی کا گيت

بریگیڈیئر امرجیت بہل سنہ 1962 میں بطور سیکنڈ لیفٹننٹ کام کر رہے تھے۔

بریگیڈیئر بہل نے مجھے بتایا: ‘ہماری ساری گولیاں ختم ہو گئی تھیں۔ لہذا، ہمیں چاہے بغیر بھی جنگی قیدی بننا پڑا۔ چینی فوجیوں نے پستول کا بٹ میرے سر پر مارا اور میری پستول چھین لی۔ پھر مجھے شین ای جنگی قیدی کیمپ لے جایا گیا۔ اس کیمپ میں 500 کے قریب جنگی قیدی تھے۔ انڈین نوجوان ہمارا کھانا بناتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھے صبح کے وقت پھیکی کالی چائے مل جاتی تھی۔ کھانے میں دونوں وقت ہمیں صرف روٹی، چاول اور مولی سبزیاں دی جاتیں۔ یہاں ہر وقت ‘ہندی چنی بھائی بھائی’ کا گیت بجتا رہتا تھا۔ یہ گیت سن کر ہمارے کان پک گئے تھے۔

بریگیڈیئر بہل نے مزید کہا: ‘بطور جنگی قیدی فوجیوں کے ساتھ سختیاں اور مار پیٹ بھی ہوتی ہیں۔ یہ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا لیکن میں اس وقت جوان تھا لہذا میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

‘چینی فوجی افسران مترجم کی مدد سے انڈین جنگی قیدیوں سے بات کرتے تھے اور انھیں راضی کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ انڈیا امریکہ کی کٹھ پتلی ہے لیکن اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔’

INDIA CHINA

BBC
دائیں سے دوسرے نمبر پر امرجیت بہل

پھر وہ دن بھی آیا جب بہل اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا۔

بہل نے یاد کرتے ہوئے کہا: ‘یہ سن کر ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ اگلے بیس دن بیس ماہ کی طرح لگ رہے تھے۔ ہمیں گوملا میں رہا کیا گیا۔ جیسے ہی ہم نے سرحد عبور کی ہم نے ہندوستان کی سرزمین کو بوسہ دیا اور کہا ‘یہ مادر وطن، یہ دیوتا کی طرح کی سرزمین ہمارا وطن بھارت ہے۔’

انڈیا چین

BBC
امرجیت بہل سات ماہ تک قید میں رہنے کے بعد وطن لوٹے تھے

بہل یہ کہتے ہوئے بہت جذباتی ہو گئے اور ان کا گلا رندھ گیا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں قدم رکھنے کے بعد انھیں دنیا کی بہترین چائے ملی۔ اس میں دودھ اور چینی موجود تھی اور وہ چائے ان کے لیے امرت جیسی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp