کیا ہماری عزت، جان و مال اس ملک میں محفوظ بھی ہیں؟


جب ظلم انتہا کو چھوتا ہے تو اللہ کی طرف سے قہر آتا ہے خدا کا خوف نا جانے کیوں ان کے دلوں میں نہیں رہا کسی کی بے بسی اور مجبوری کا فائدہ اٹھانا ہمارے معاشرے میں عام ہو گیا ہے مگر بات اس حد تک پہنچے گی کہ ایک ماں اپنی اولاد کے سامنے اس طرح سے زیادتی کا شکار ہوگی یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ حیوانیت اس طرح سے سڑکوں پر کھلے عام نظر آئے گی میں تو یہ واقعہ لکھتے ہوئے بھی کانپ رہا ہوں کہ کیسے بیان کروں ان حیوانوں نے جو ایک ماں کے ساتھ کیا۔

ہمارا ملک اسلام کے نام پر اور اسلامی روایات کے نام پر بنا تھا مگر اس ملک میں اس طرح کے درندے اور حیوان پھر رہے ہیں اور ایسی حیوانیت پھیلا رہے ہیں جسے دیکھ کر دل خون کے آنسوں روتا ہے۔ انسانیت بھی شرما جاتی ہے جب ایسے گھناؤنے واقعات ہوتے ہیں۔

اس واقعے کا علم تو آپ سب کو ہوگا مگر پھر بھی مختصراً بیان کرتا چلوں کہ 2 دن پہلے یہ واقعہ گوجر پورہ میں پیش آیا۔ ایک خاتون اپنے 2 بچوں کے ساتھ لاہور سے گوجرانوالہ جا رہیں تھیں گاڑی میں پیٹرول نا ہونے کی وجہ سے گاڑی گوجر پورہ میں رک گئی جو کہ موٹر وے تھا۔ تو خاتون نے اپنے رشتے داروں سے رابطہ کیا اور جگہ بتائی کہ اس جگہ پر گاڑی رک گئی ہے اب کیوں کے گوجرانوالہ سے گوجر پورہ تک پہنچنے میں بھی وقت لگتا تو خاتون کے رشتے داروں نے کہا کہ موٹر وے پولیس سے مدد طلب کرلو جب تک وہ پہنچیں تو خاتون نے موٹر وے پولیس سے رابطہ کیا تو جواب موصول ہوا کہ یہ علاقہ ہماری حد میں نہیں آتا اس لئے ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔

تو خاتون نے دوبارہ رشتے داروں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے آنے کا انتظار کرے۔ رات کے تین بجے تھے ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ بند گاڑی میں اپنے رشتہ دار کا انتظار کر رہی تھی تو اتنے میں کچھ درندہ صفت لوگوں کے ہتھے چڑھ گئیں جبکہ گاڑی لاک تھی تو انہوں نے شیشہ توڑ کر خاتون سے لوٹ مار کی اور اجتماعی زیادتی بھی۔

نا جانے کتنے ایسے واقعات ہوتے ہوں گے، نا جانے کتنی معصوم بیٹیاں ان حیوانوں کی حیوانیت کا شکار ہوں گی۔ جب حکومتی ادارے ہی کہہ دیں کہ ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے تو ہم کہاں جائیں۔ ؟ پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہماری عزت، جان و مال اس ملک میں محفوظ بھی ہیں؟

یہاں اس واقعے پر جناب سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا یہ کہنا تھا کہ خاتون کو کیا ضرورت تھی کہ وہ موٹروے سے گئی وہ جی ٹی روڈ سے جاتی پیٹرول بھروا کے جاتی اور اس معاشرے میں کوئی مہذب گھر سے رات کو خاتون اکیلی نہیں جاتیں وغیرہ جیسے جملے کہے ہیں۔ اب جناب کو اللہ نا کرے کہ کسی ایمرجنسی کا سامنا ہو مگر یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمرجنسی میں وقت اور رستہ نہیں سوجھتا ایسی باتیں کر کے یہ اپنی نا اہلی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں بلکہ یہاں تو عام آدمی کہ ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ خاتون کی مدد مانگنے کے فوراً بعد یہ واردات ہوئی کہیں کوئی کڑی ملی تو نہیں ہوئی آپ خود سوچیں کہ موٹر وے جو کہ محفوظ سمجھا جاتا ہے سفر کے لیے وہاں پر اگر کوئی گاڑی تھوڑی دیر رکتی ہے تو پولیس آجاتی ہے پوچھنے کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ مگر اس معاملے میں پولیس تو ظاہر ہی نہیں ہوئی۔

ہم کبھی بھارت کی بات کیا کرتے تھے کہ وہاں ریپ کے واقعات بہت ہوتے ہیں مگر آج اگر تھوڑی نظر یہاں دیکھیں تو آج کل یہ واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم بھی قریب ہی ہو جائیں گے۔ یہ واقعات تب تک کم نہیں ہوں گے جب تک ان درندہ صفت ان حیوانوں کے دل میں کوئی بڑی سزا کا خوف نہیں ڈالا جاتا اور جب زیادتی کے ملزمان کی سزا کی بات آتی ہے تو بولتے ہیں کہ پھانسی کی سزا بہت ہے ان کو یہ سزا نہیں دینی چاہیے یہ ہمارے ہی حکمران ہیں جو یہ سب کہتے ہیں۔

شاید یہ ان بچوں کے خوف سے واقف نہیں شاید یہ اس خاتون یا اس جیسی ہزاروں لڑکیاں معصوم بچیاں جو اس درندگی کا نشانہ بن جاتی ہیں ان جیسے احساسات جذبات سے واقف نہیں میرا تو خیال یہ ہی ہے کہ ان حیوانوں کے لیے پھانسی کی سزا بھی کم ہے۔ ہمارے کچھ حکمران ان ریپسٹ کی پھانسی کی سزا کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کا امیج یونائیٹڈ نیشنز میں اچھا ظاہر مگر ہمارے معاشرے میں اور ان کے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے ہماری روایات اخلاقیات ان سے بہت مختلف ہیں بالآخر میں ان سے ہی التجا کروں گا جو چاہیں تو ان واقعات میں بہت کمی آ سکتی ہے مگر ہماری حکومت اور ان کے موجودہ حکمران ان کی کارکردگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کچھ کرنا ہی نہیں۔ خدارا ان وارداتوں میں جو بھی ملوث ہے ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ کسی کی ماں بہن بیٹی عزت بچ سکے برا وقت سب پر آ سکتا ہے برے وقت سے بچنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں تو سب کے لئے بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).