ایک گمنام سپاہی کی یاد میں


کیمپ کے اندر عسکری نظم و ضبط اور حفظ مراتب کا پورا خیال رکھا جاتا۔ جوان اپنے قیدی افسروں کے ساتھ پورے احترام سے پیش آتے اور ان کے کسی بھی حکم کی بجا آوری کے لئے ہر دم تیار رہتے۔ افسر بھی گاہے بگاہے اپنے جوانوں کی خیریت مخصوص فوجی انداز میں پوچھتے رہتے۔

دو سال کے بعد فروری 1974 میں پاک بھارت معاہدے کے نتیجے میں کیمپ 93 سے قیدیوں کا پہلا دستہ واہگہ بارڈر کے لئے روانہ ہوا تو کیپٹن سلطان اکبر خان او ر کیپٹن آفتاب بٹ ایک ساتھ اس گروپ میں شامل تھے۔ پیچھے رہ جانے والے ساتھیوں سے گلے ملے تو مشرقی پاکستان میں بچھڑ جانے والے ساتھی ایک دم یاد آنے لگے۔ اٹاری ریلوے سٹیشن پر اترے تو دلوں کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔ پاک سرزمین پر تین سال کے بعد قدم رکھا تو دل فرط جذبات سے پھٹنے کو آرہے تھے۔

کورکمانڈر لاہور کے ساتھ ایک ہجوم استقبال کے لئے موجود تھا۔ اپنے جسم و جاں پر سختیاں جھیلنے والوں میں کئی ایسے بھی تھے جو طاقتور خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ خود سلطان اکبر خان کے سسر جنرل غلام عمر (محمد زبیر اور اسد عمر کے والد) اس وقت کی طاقتور مقتدرہ کے رکن اور جنرل یحیٰی خان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ اکثر طاقتور اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اپنے فوجی دامادوں کو سول سروس میں لے آتے ہیں۔ سلطان اکبر اپنے سسر سے سول سروس دلوانے کا مطالبہ نہ بھی کرتے، کم ازکم شورش شدہ مشرقی پاکستان میں اپنی پوسٹنگ تو رکوا ہی سکتے تھے۔ نوجوان افسر نے مگر میدان جنگ میں اترنے والے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے رہ جانا قبول نہ کیا۔ استقبالی ہجوم میں کیپٹن آفتاب بٹ نے اپنے بھائی کیپٹن سعید بٹ کو بمشکل ڈھونڈا۔ بھائی نے گلے لگایا تو تین سال سے سینے میں دبے آنسو بالآخر آنکھوں سے بے اختیار بہہ نکلے۔

بعد کے سالوں میں میجر سلطان اکبر خان نے کچھ رسائل میں مضامین لکھے۔ وفات سے قبل ایک کتاب کا مسودہ بھی تیار تھا مگر کوئی چھاپنے والا نہ مل سکا۔ کیمپ نمبر 93 کا قیدی ایک گم نام سپاہی ایک دن خاموشی کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ گیا۔

کرنل آفتاب بٹ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں پوتے پوتیوں کے بیچ آسودہ حال زندگی بسر کرتے ہیں۔ سر کے بال سلامت، مونچھیں پہلے سے زیادہ گھنی اور ہر دو برف کی طرح سفید ہیں۔ عمر رسیدہ ہیں مگر آواز میں عہد رفتہ کے فوجی افسروں کا سا وقار، اختصار اور عزم پایا جاتا ہے۔ اے ایس سی والوں کی ایک محفل میں کسی نے میجر سلطان اکبر خان کا نام لیا جو مجھ سمیت اکثر حاضرین محفل کے لئے نامانوس تھا۔ کرنل آفتاب بٹ نے اس گمنام سپاہی کی یاد کو تازہ کرنے کا حکم نامہ بھیجا۔

میں نے کچھ سوالات بھیجے، تو واپسی میں ایک پرانے ساتھی کی یادوں سے بھری ستاروں کی سی جھلمل کرتی اشتیاق، محبت اور اداسی سے بھری ایک انگریزی تحریر مجھے موصول ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ از کا رفتہ سپاہی نے رات گئے کہیں تنہائی میں بیٹھ کر جب پرانی یادوں کے چراغ روشن کیے ہوں گے تو اپنی مخصوص مسکراہٹ لئے کیپٹن سلطان اکبر خاں، گھر سے ہزاروں میل دور اپنی جانیں نچھاور کرنے والے ان گنت گم نام رفیقوں کا ہجوم اور کیمپ نمبر 93 کے پرانے ساتھی یکا یک کہیں سے نمودار ہو کر پیرانہ سال سپاہی کی طرف بڑھتے چلے آتے ہوں گے۔

دسمبر 1971 کے سانحے کے تیس سال بعد جب میں نے کوہاٹ میں ثلاثین بٹالین کی کمان سنبھالی تو یونٹ مغربی سرحد پر تاریکی کی قوتوں کے خلاف وزیرستان کی سنگلاخ وادیوں میں اترنے کو پر تول رہی تھی۔ فروری 2004 میں سروکئی کے مقام پر گھات لگائے دہشت گرد فوجی کانوائے پر حملہ آور ہوئے تو جنگ کا نقارہ بج گیا۔ پاک فوج پر دشمن کے اس پہلے بڑے حملے میں ثلاثین بٹالین کے لیفٹیننٹ طیب نے آخری دم تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ سی ایم ایچ کوہاٹ میں رکھے طیب کے جسد خاکی سے میں نے سفید چادر ہٹائی تو اس کی گردن پر گولی کا نشان اور چہرے پر گہرا اطمینان تھا۔ دہشت گرد چند جوانوں کو یرغمال بنا کر ساتھ لے گئے تھے۔ ان سب کے جسد خاکی اگلے روز قریبی کھائی سے اس حالت میں ملے کہ کان، ناک اور جسم کے نازک حصے کٹے ہوئے تھے۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ کیپٹن سلطان اکبر خان اور لیفٹیننٹ طیب جیسے غازیوں اور شہیدوں کو زندہ کر کے جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو کٹے پھٹے اعضا کچھ اس طرح سی دیے گئے ہوں گے کہ خوبرو جسموں پر زخم کا کوئی نشان باقی نہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2