ایک گمنام سپاہی کی یاد میں


سال 2001 کے وسط میں ’ثلاثین بٹالین‘ کی کمان سنبھالنے کے بعد ’پکٹ ڈویژن‘ کی نسبت سے میں نے یونٹ کو ’پکٹ ویلز‘ (Picquit Wheels) کا نام دینے کی کوشش کی۔ کچھ نام، کچھ چہرے اور چند قصے مگر انسانوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑتے رہتے ہیں۔ نہ تو بدلے جا سکتے ہیں، نہ بھلائے جا سکتے ہیں۔

ثلاثین بٹالین کھاریاں چھاؤنی میں تعینات تھی۔ کیپٹن سلطان اکبر خان سال 1969 میں یونٹ کا حصہ بنے۔ چھ فٹ قد، چوڑے شانے، کھلتا گورا رنگ۔ خوش مزاج کشمیری النسل نوجوان افسر جلد ہی یونٹ کے افسروں اور جوانوں میں گھل مل گیا۔ کیپٹن آفتاب بٹ اور سلطان اکبر خان کی دوستی کا آغاز بھی یہیں سے ہوا تھا۔ دونوں نے انفنٹری سکول کوئٹہ میں پہلا کورس بھی اکٹھے کیا۔ آفتاب بٹ نے 235 نوجوان افسروں کے کورس میں شوٹنگ ٹرافی جیتی، تو قوی الجثہ سلطان اکبر نے اسالٹ کورس کی سات فٹ اونچی دیوار پھلانگتے ہوئے گرا دی۔

جون 1970 میں ثلاثین بٹالین کی ایک کمپنی کے لئے مشرقی پاکستان تعیناتی کا حکم جاری ہوا تو مشرقی پاکستان کی فضا بے اطمینانی، شکوک و شبہات اور بے یقینی سے لبریز تھی۔ ملک میں عام انتخابات کے بعد حالات مزید بگڑے تو سال 1971 کے اوائل میں پورے ڈویژن کو مشرقی پاکستان منتقلی کا حکم مل گیا۔ دونوں نوجوان افسر تیزی سے بدلتے حالات اور ان کے پس پردہ سیاسی حرکیات سے لاتعلق تھے۔ دونوں افسران نے اپنے پیاروں سے عجلت میں رخصت لی، سامان باندھا اور یونٹ کے ہمراہ بذریعہ ٹرین کراچی پہنچے۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر ملک کے مشرقی بازو کا صدر مقام ثلاثین بٹالین کی اگلی منزل تھی۔

مشرقی پاکستان میں وفاق کی عملداری معطل تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو ملک میں امن و امان بحال کر کے امور مملکت سیاستدانوں کو لوٹانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اب نہ جانے ماندن نہ پائے رفتن کی سی کیفیت سے دو چار تھے۔ بھارتی منصوبہ سازی عروج پر تھی۔ بھارتی فضائی حدود حیلوں بہانوں سے پاکستانی طیاروں کے لئے بند کی جا چکی تھی۔ اب تو اس حقیقت کا اعتراف خود فیلڈ مارشل مانک شا اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں کہ بھارت مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان پر حملے کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا۔ فیلڈ مارشل اگلے وقتوں کے وضعدار جرنیل اور موجودہ بھارتی جرنیلوں کے برعکس خالص پیشہ ور سپاہی تھے۔ مشرقی پاکستان میں جنگ ہارنے والی پاکستانی سپاہ کا ذکر آخری دن تک احترام سے کرتے رہے۔

ڈھاکہ میں چند روز گزارنے کے بعد دونوں نوجوان افسر اگلی چھاؤنیوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیپٹن آفتاب بٹ کومیلا چھاؤنی میں دو مہینے رکنے کے بعد جیشور چھاؤنی میں موجود ثلاثین بٹالین کو واپس جا ملے۔ سلطان اکبر وہاں پہلے سے موجود تھے۔ چند دن یونٹ میں گزرنے کے بعد دونوں کو الگ الگ سرحدی کیمپس پر ذمہ داریاں تفویض کر دی گئیں۔ یہ وہ دن تھے جب ایسٹ پاکستان رائفلز کی یونٹیں بغاوت کر کے ہندوستان کی پشت پناہی کے ساتھ ’مکتی باہنی‘ کی صورت بھارتی سرحد سے متصل علاقوں میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔

مشرقی پاکستان میں مکمل انتخابی کامیابی اور بھٹو صاحب کے نو منتخب اسمبلی کے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد شیخ مجیب اب کھل کر سامنے آچکے تھے۔ ڈھاکہ میں مجیب کے حامیوں کی عملداری قائم تھی۔ غیر بنگالی سرکاری ملازمین اور شہری چھاؤنیوں میں محصور ہو چکے تھے۔ نواحی اور دیہی علاقے مکتی باہنی کے مکمل کنٹرول میں تھے۔ ہر راستے پر انہی کے ناکے تھے۔ فوج کی خوراک، پیٹرول اور اسلحہ ذخیرہ کرنے والی چھوٹی بڑی تنصیبات سے نقل و حمل مشکل تر ہو چکی تھی۔ فوجی کانوائے مسلح جتھوں کے مسلسل حملوں کی زد میں تھے۔ یہ درست ہے کہ فوجی آپریشن میں گیہوں کے ساتھ بہت سارا گھن بھی پس گیا، مگر اس دوران مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے اس کا اعتراف اب خود بنگالی دانشور بھی کر رہے ہیں۔ تاریخ کا مگر المیہ ہے کہ تاریخ جنگ جیتنے والے لکھتے ہیں۔

اس امر کا اقرار اب بھارتی مورخ بھی کرتے ہیں کہ پاک فوج کے افسر اور جوان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں آ جانے کے باوجود بلند حوصلہ اور آخری گولی آخری سپاہی کے جذبے سے لڑنے پر آمادہ تھے۔ بھارتی بریگیڈئیر ہردیو سنگھ کلر کی طرف سے جمال پور گیریژن کے کمانڈر کرنل سلطان احمد کو لکھا گیا خط اور اس کا جواب آج بھی آرمی میوزیم راولپنڈی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سرنڈر سے محض چار روز قبل 18 پنجاب رجمنٹ نے ٹینکوں کے محض ایک سکواڈرن کے ساتھ کوشتیا کے علاقے میں بڑھتے ہوئے بھارتی ٹینکوں کی فارمیشن اور پیدل دستوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ نوجوان سلطان اکبر اور آفتاب بٹ اسی بریگیڈ کا حصہ تھے۔ سلطان اکبر نے اس دوران پاکستان سے وفادار بنگالیوں کے ساتھ بھارتی دستوں پر پہلوؤں سے حملے جاری رکھے۔ بھارتی طیاروں کی آمد تک بھارتی ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔

بھارتی طیاروں کی اندھا دھند بمباری کے بعد دونوں افسر بچی کھچی گاڑیوں کو لے کر علی الصبح مشہور ہارڈنگ پل پار کر رہے تھے کہ بھارتی طیارے ایک بار پھر آن حملہ آور ہوئے۔ بمباری کے نتیجے میں آدھا پل دریا میں گر گیا۔ دریا برد ہونے والوں میں ثلاثین بٹالین کا گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا لانس نائیک خوشی محمد بھی شامل تھا جو اوروں کی طرح ہزاروں میل دور سے مٹی کا قرض اتارنے آیا تھا۔

ایشوردی کے مقام پر پہنچ کر کیپٹن آفتاب بٹ نے اپنا کیمپ قائم کیا تو سیز فائر کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس امر کے باوجود کہ پاک فوج کے افسر و جوان ہر محاذ پر جنگ جاری رکھنے کو بضد تھے، اعلٰی قیادت کے سامنے غیر بنگالی سویلینز اور دور دراز علاقوں میں گھرے ہوئے پاکستانی دستوں کو مکتی باہنی کے انسانیت سوز مظالم سے بچانا پہلی ترجیح تھی۔ کیپٹن آفتاب بٹ اور ان کے جوانوں کو ایک سکول میں قائم جنگی قیدیوں کے کیمپ منتقل کیا گیا۔

آفتاب بٹ، سلطان اکبر خان اور آرٹلری کے کیپٹن نسیم کو ایک ہی کمرے میں رکھا گیا۔ کیمپ سے باہر مکتی باہنی والوں کا راج اور ہر راستے پر ان کا ناکہ تھا۔ کیپٹن سلطان اکبر اور کیپٹن نسیم نے جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں کو حاصل عالمی حق کو استعمال کرتے ہوئے مگر پہلی ہی رات بھارتی قید سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ دونوں افسر جانتے تھے کہ میلوں پیدل چلنے کے بعد وہ بالآخر کسی نا کسی پبلک سواری کو استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔

دونوں افسروں کو یہ بھی معلوم تھا کہ مکتی باہنی والے ہر بس، ویگن اور کار کو روک کر مسافروں سے بنگالی میں کچھ سوال کرتے۔ جو جواب دینے سے قاصر ہوں، ان کو اتار کر سواری کو جانے کی اجازت دے دی جاتی جبکہ اتارے جانے والوں کے لئے اذیت سے بھری درد ناک موت منتظر ہوتی۔ سلطان اکبر کا مگر خیال تھا کہ وہ خود کو کشمیری تاجر ظاہر کر کے مکتی باہنی والوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ منصوبے کے تحت کیپٹن آفتاب بٹ کو پیچھے چھوڑا گیا کہ وہ ان دونوں کے بھارتی نرغے سے دور نکل جانے تک صورت حال کو سنبھالیں گے۔

اگلی صبح جب تمام افسروں اور جوانوں کی گنتی کے دوران دو نوجوان افسروں کو غیر حاضر پایا گیا تو کیپٹن آفتاب بٹ کو پوچھ گچھ کے لئے پکڑ لیا گیا۔ تمام تر دھمکیوں کے باوجود نوجوان افسر نے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا تو انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران کیمپ سے نکلنے والے تمام راستوں پر قائم مکتی باہنی کی چیک پوسٹوں کو اطلاع دے دی گئی تھی۔

ایک روز کے بعد دونوں افسران شدید زخمی حالت میں کیمپ واپس لائے گئے۔ دونوں کے جسم زخموں سے چور اور چہرے اور دیگر اعضا ظالمانہ تشدد کی بنا پر سوجے ہوئے تھے۔ مکتی باہنی والوں نے بھارتی احکامات کے مطابق دونوں افسروں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں زندہ تو لوٹا دیا مگر اس سے قبل بھارتیوں کی ہدایت پر ہی دونوں کو جی بھر کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بھارتیوں کے حوالے کرنے سے پہلے مکتی باہنی والوں نے دونوں نوجوان افسروں کے کان قلم کر دیے تھے۔

کیمپ کے اندر کیپٹن آفتاب بٹ نے دونوں ساتھیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ زخموں کو باقاعدگی سے دھوتے اور مرہم پٹی کرتے۔ کچھ روز بعد کیمپ کے تمام اسیروں کو بھارتی ریاست بہار میں قائم کردہ ’گیا کیمپ‘ منتقل کر دیا گیا۔ انڈیا منتقل کیے گئے 93000 قیدیوں میں سے لگ بھگ 60000 قیدیوں کا تعلق مسلح افواج سے تھا۔

کیمپ 93 کے اندر اسیروں کی زندگی یکسانیت، بے یقینی اور فطری طور پر اداس کر دینے والی تھی۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے والے ساتھیوں کی یاد ستاتی تو مل کر ایک دوسرے کا غم بانٹ لیتے۔ کبھی کبھار تنہائی میں سلطان اکبر خان بھی اپنے دوست آفتاب بٹ سے اپنے گھر والوں کا ذکر تو کرتے مگر ان کی آنکھ کسی نے نم نہ دیکھی۔ سلطان اکبر خان اب کافی حد تک صحت یاب ہو چکے تھے۔ سلطان اکبر نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ قید کے دوران زیادہ وقت کتابیں پڑھنے اور اپنے دوست آفتاب بٹ کی انگریزی تحریر درست کرنے میں صرف کرتے۔

سال 1973 میں 14 اگست آیا تو کیمپ 93 کے قیدیوں نے صحن میں کھڑے درخت سے سبز پتے توڑے۔ بستر کی سفید چادر کو تہہ کیا اور اس کے اوپری پرت کو سر سبز تازہ پتوں سے گہرا سبز رنگ دے دیا۔ سبز ہلالی پرچم اسی درخت کی ایک ٹہنی پر ٹانگا گیا تو قیدیوں نے خالص فوجی انداز میں سلامی پیش کی۔ لمبے چوڑے سلطان اکبر نے اپنی چارپائی درخت کے پاس گھسیٹ کر پرچم کی حفاظت اپنے سر لئے رکھی۔ کیمپ نمبر 93 میں سبز ہلالی پرچم سارا دن لہراتا رہا اور کسی بھارتی کو جرآت نہ ہوئی کہ اس کے قریب بھی پھٹک سکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2