نواز شریف کی تقریر اور مریم نواز کی دلیری


کوئی شک نہیں کہ اے پی سی کا لب لباب یا حاصل صرف اور صرف نواز شریف کی تقریر نکلی جس کے بعد مریم نواز کی تقریر اور ٹوئٹر بیان کی دھوم ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو میزبان تو ٹھہرے لیکن میلہ نواز شریف اور مریم نواز نے لوٹ لیا۔

اس تقریر میں قابل غور ترین بات وہی تھی جس چرچا ہو رہا ہے کہ ” ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ اس کو لانے والوں سے ہے” اس فقرے اور تقریر کی ساخت نے عمران خان کی حکومت کو نہ صرف بونا بنا دیا بلکہ دو نمبر آمریت کے چہرے سے پہلے ہی تار تار ہوئی چادر کو کھینچ کر اتار پھینکا۔

یہاں تک بات ٹھیک ہے اور قابل تعریف بھی۔ گھٹن اور جبر کے ماحول میں پی ٹی ایم اور مولانا فضل الرحمان کے علاوہ کوئی تو بولا، مریم نواز کا ٹویٹ کہ “یہ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے جیل ڈال دیں گے تو ڈال دیں میں پہلے بھی دو بار ہو آئی ہوں” ایک بہادر اور نڈر خاتون کا بیان تھا۔ یہ وہ طرز سیاست ہے جس میں طاقتور جابر کی طاقت ہی چھین لی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ طاقتور کی طاقت خود کے زور بازو پر کم اور کمزور کے خوف میں زیادہ ہوتی ہے، جب کمزور ہی اپنے خوف کو اٹھا کر دور پھینک دے تو طاقتور کو نہتا کر دیتا ہے۔

یہاں تک بات تو ٹھیک ہے، واہ واہ بھی ہو گئی اور اپوزیشن میں جان بھی پڑ گئی مگر ذرا ٹھہر جائیں اور کچھ ماضی یاد کر لیں۔

خلائی مخلوق کا نعرہ ابھی حال ہی کی بات ہے جس کے خلاف تقریریں سب کو یاد ہیں۔ بہادری کا مظاہرہ نواز شریف نے تب بھی کیا تھا جب وہ بیٹی کا ہاتھ پکڑ کے لاہور واپس چلے آئے تھے اور گرفتاری دے دی تھی۔ پارلیمنٹ میں موجود نواز شریف کی نشستیں اسی قدم کا نتیجہ ہیں ورنہ شاید اس سے آدھی تعداد بھی موجود نہ ہوتی۔ لیکن یاد رہنا چاہئے کہ اقتدار کا حصول صرف بہادری کا لازمی نتیجہ نہیں ہوتا۔ دلیری، اقتدار تک پہنچنے کی مرکزی خوبیوں میں ایک ہے، واحد نہیں۔ اس کے لئے دلیری کے ساتھ تدبیر، حکمت عملی اور لائحہ عمل بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

سوال تو اب بھی وہیں کھڑے ہیں جو تقریر سے قبل تھے۔ ان کا جواب تدبر مانگتا ہے۔ اے پی سی کا جو اعلامیہ سامنے آیا ہے اس پر عمل کرنے کی مشترکہ کاوش کیسے ممکن ہو گی۔ پارٹیوں کے رہنماؤں کا اجلاس تو ہو گیا اب ان کے کارکن، عملی میدان میں اکٹھے کس طرح کام کریں گے؟ جہاں ابتدا میں ہی ٹیم ورک کا حال یہ ہو کہ مولانا فضل الرحمان اپنی بات کے شروع ہی میں شکوہ کریں کہ ان کی تقریر سوشل میڈیا پر دکھانے کا انتظام نہ کرکے زیادتی کی گئی ہے وہاں صاف ظاہر ہے کہ پارٹیوں میں کوارڈینیشن کی بہت کمی ہے۔

پھر سے عرض ہے کہ جن حلقوں کی جانب اشارہ کیا گیا، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، آصف زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر بھی سب کو یاد ہے۔ مشرف کے دور میں نواز شریف کی وہ تقریر جو سعودیہ سے لندن پہنچنے پر انہوں نے کی تھی وہ بھی اے پی سی کی تقریر سے کافی ملتی جلتی تھی بلکہ زیادہ آتش لئے تھی مگر پھر کیا ہوا؟

عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ ظاہر ہے پورا نہیں ہو گا۔

 پارلیمنٹ سے اپوزیشن کے اجتماعی استعفوں کی مثال، بے نظیر بھٹو نے قائم ضرور کی تھی مگر وہ کسی عوامی دباؤ کا نہیں بلکہ طاقت کے روایتی کھیل کی چال تھی لہذا کامیاب ہو گئی۔ اس وقت ایسی کوئی صورت حال نہیں۔ عوامی دباؤ یا تحریک سے ملک کو جام کرنا، اور طاقت کے مراکز کو مجبور کر کے جھکا دینا، ظاہر ہے ممکن تو ہوتا ہے مگر اسے ممکن بنانے کی طاقت کیا نواز شریف کے پاس موجود ہے ؟ میرا جواب نہیں میں ہے۔

کیا لوگ خود سے تنگ آ کر باہر نکلیں گے ؟ یہ محض ایک امید ہے اور امید یا خیال کی بنیاد پر کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی جا سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس غیر معمولی صورت میں تحریک کے لیڈر اس کے اندر سے ابھرا کرتے ہیں، ایسا ہونا کہ عوام خود باہر نکل آئے اور توڑ پھوڑ کے بعد کسی کو گھر سے بلا کر قیادت سونپ دے، اس کی امید بھی بچپنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہم جذباتی قوم ہیں تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی بہادری ہمیں اچھی لگا کرتی ہے اور روایتی ووٹر بھی پسند کرتا ہے کہ وہ کچھ نہ کرے البتہ لیڈر جان داؤ پر لگا دے اگر بچ گیا تو خوب اور جیل گیا تو بھی خوب۔

اس تقریر کے بعد اب نواز شریف اور مریم نواز کو یہ یاد رکھنا ہے کہ جن کو للکارا گیا ہے وہ جواب میں تقریر نہیں کرتے، عمل کے میدان میں جواب دیتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز، کسی انقلابی جماعت کی قیادت نہیں کرتے لہذا انہیں مستقبل کی منصوبہ بندی بہت دیکھ بھال اور احتیاط سے کرنا ہو گی۔

میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ معافی مانگیں یا کسی ادارے کی باہمی دھڑے بندیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، عرض اتنی ہے کہ جیل جانا ہو تو ڈٹ کر جائیں مگر اپنے ووٹر سے یہ توقع کر کے نہ جائیں کہ وہ نظام الٹ دیں گے اور نہ اب جیل جانے کے بعد کوئی رعایت مانگیں۔

نواز شریف کی اے پی سی کی تقریر اور مریم نواز کے بیان خود ان کے اپنے لئے بھی ایک زنجیر بن چکے ہیں، اب یہ ان کے اوپر ہے کہ وہ اس زنجیر کو زیور بنا کر اپنا اور ملک و قوم کا مستقبل بناتے ہیں یا ماضی کی طرح پھر سے نئے سمجھوتے کر کے بازی کو اسی مقام پر واپس لاتے ہیں جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی۔

آخری بات یہ ہے کہ نواز شریف لندن بیٹھے ہیں۔ فاٹف کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے جس سے متعلق قوانین کو پچھلے ہفتے ہی پاس کروانے میں ان کا کردار مرکزی رہا۔ مغربی اداروں کے سامنے وہ یہ کریڈٹ کیوں نہیں لیں گے کہ ان کی حکومت تو پانچ سال قبل ہی ان قوانین کو لانا چاہتی تھی؟ بلکہ یہ بھی کہ انہیں کیوں روکا گیا تھا اور کس نے روکا تھا؟

دوسری جانب چین ہے، وہاں انہیں یہ کہنے سے کون روکے گا کہ عاصم باجوہ اور ان کے خاندان کا، کاروبار اسی امریکہ میں ہے جو سر عام سی پیک کی مخالفت کرتا ہے جس کا نام انہوں نے سب کے سامنے لیا۔ انہوں نے دھرنے کے دوران چینی صدر کے دورے کی منسوخی کا ذکر اتفاق سے نہیں کیا بلکہ یاد دلایا کہ دھرنے کی مدد کہاں سے ہو رہی تھی۔

کیا پاکستان کی حقیقی سیاست واقعی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ؟ کیا حکمران طبقات کو پرامن طریقے سے طاقت کی آئینی تقسیم پر راضی ہونا پڑے گا یا وہی پرانی کہانی پھر سے دہرائی جائے گی اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا اس لئے ممکن نہیں کہ یہاں سب کچھ کسی اصول پر نہیں، موجودہ وقت کے جبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).