مریم نواز – مزاحمت کی علامت لیکن۔ ۔ ۔


یہ بات ہر عام و خاص پر روز روشن کی واضح ہے کہ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست میں مداخلت بارے اپنے والد نواز شریف سے بھی زیادہ سخت موقف رکھتی ہیں اور اس موقف کی وہ بھاری قیمت ادا کر چکی ہیں اور مزید بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ قائد (ن) لیگ نواز شریف جو برادر خورد کی طرف سے کچھ یقین دہانیوں پر خاموش تھے بالآخر پھٹ پڑے ہیں، انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں جو لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا ہے اس کے بعد ڈیل، ڈھیل اور مفاہمت کے تمام تر اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔

نواز شریف نے مستقبل میں بھی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کی گنجائش نہیں چھوڑی مزید برآں یہ کہ انہوں نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے مریم نواز کو پیپلز پارٹی کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں بیٹھنے کی ہدایت کی جو نون لیگ کے اندر بعض رہنماؤں کو پسند نہیں آیا بہرحال مجبوری یہ تھی کہ نواز شریف کا حکم تھا، نواز شریف کے خطاب اور مریم نواز کی اے پی سی میں شرکت سے پارٹی کے اندر مفاہمتی گروپ کو شدید زک پہنچی ہے جس کا اظہار آف دی ریکارڈ کیا جار ہا ہے تاہم کچھ دنوں تک آن دی ریکارڈ بھی سامنے آ جائے گا۔

مفاہمتی گروپ نواز شریف کے خطاب اور مریم کی شرکت کو یوں دیکھ رہا ہے کہ جیسے انہوں نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا ہو، حقیقت مختلف ہے۔ تقریباً ایک سال کی خاموشی اور مفاہمت سے نون لیگ کو طعنہ زنی کے سوا کچھ نہیں ملا، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اتنی گنجائش بھی نہیں دی گئی کہ مریم نواز لندن جا کر بیمار والد کی عیادت کر سکیں۔

دریں اثنا نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا، شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی، داماد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے، حمزہ شہباز جیل جبکہ سلیمان شہباز بیرون ملک بھاگے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بالخصوص شریف خاندان کو بالکل دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا، تنگ آمد بجنگ آمد، نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو واضح الفاظ میں للکارا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اب نواز شریف اور مریم خاموش نہیں بیٹھیں گے، اپنا جارحانہ طرزعمل جاری رکھتے ہوئے ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔

اس صورت حال پر پارٹی واضح طور پر منقسم نظر آتی ہے مفاہمتی گروپ کا شکوہ ہے کہ نواز شریف خود تو لندن میں بیٹھے ہیں پاکستان میں موجود قیادت کو مشکل میں ڈال دیا ہے اس کے بعد دیگر رہنماؤں کو نیب کی طرف سے نوٹس سمیت کئی قسم کا دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی شکوہ بلاول بھٹو کو ہے کہ نواز شریف ہمارے اوپر استعفوں کے لئے دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں خود پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ بلاول نے نواز شریف سے کہا ہے کہ ہم اسمبلیوں سے استعفے دیتے ہیں بشرط کہ نواز شریف استعفیٰ خود سپیکر قومی اسمبلی کو جاکر پیش کریں۔

اسمبلیوں کی رکنیت سے مستعفی نہ ہونے کی تجویز پر شہباز شریف اور بلاول بھٹو ایک صفحہ پر ہیں جبکہ استعفوں سمیت بڑی احتجاجی تحریک اور بالآخر ڈی چوک میں دھرنا دینے کے لئے ہمارے مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف ایک صفحہ پر ہیں۔ اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد سے قبل متحدہ اپوزیشن کو بہت سے اہم فیصلے کرنا ہیں۔ اس مقصد کے لئے شہباز شریف کی لندن یاترا متوقع ہے، بشرط کہ وہ گرفتار نہ ہو جائیں اگرچہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ اندر جائیں یا باہر رہیں اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد ہو گا لیکن صورتحال مختلف ہے۔

شہباز شریف ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ وہ نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر سمجھانے کے لئے اکتوبر میں لندن جائیں گے۔ شہباز شریف بڑے بھائی اور قائد کے سامنے یہ موقف رکھیں گے کہ جارحانہ طرز سیاست سے پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ بلدیاتی الیکشن جو کہ دسمبر میں متوقع ہیں نون لیگ کے امیدواروں پر بہت دباؤ آئے گا پاور پالیٹکس کی حقیقت کے سامنے کئی بڑے دھڑے اور گروپ پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے جو کہ انتخابی سیاست کی بنیاد ہوتے ہیں نون لیگ کو ان سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر اگلا الیکشن مشکل ہو جائے گا۔

برادر خورد، برادر بزرگ کو کتنا سمجھا پاتے ہیں یہ اکتوبر کے وسط تک واضح ہو جائے گا۔ بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں کیونکہ نواز شریف جس حد تک جا چکے ہیں واپسی مشکل ہو گی۔ شہباز شریف حجت تمام کرنے کے لئے جائیں گے۔ کل کلاں پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ سرخرو ہوں کہ انہوں نے قبل از وقت آگاہ کر دیا تھا۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ دال نہ گلنے کی صورت میں شہباز شریف ووٹ کو عزت دینے کے بیانیہ کو لے کر چلنے کی بجائے خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔

یہ صورتحال بھی نون لیگ کے لئے خوش کن نہیں ہوگی البتہ یہ بات طے ہے کہ شہباز شریف بڑے بھائی کو ڈچ کرتے ہوئے ”شین“ کے چکر میں نہیں پڑیں گے جس کا وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بار بار ذکر کر رہے ہیں کہ (ن) سے شین نکلے گی۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے خطاب اور مریم کے متحرک ہونے سے پارٹی میں جان پڑ گئی ہے۔ جارحانہ سیاست کے حامیوں کا نیا جذبہ پیدا ہو گیا ہے اور وہ نواز شریف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مریم نواز کی قیادت میں ہر قسم کی قربانی دینے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

مریم نواز جلسے جلسوں اور ریلیوں کے انعقاد کی طرف چل پڑتی ہیں تو لاکھوں کا اجتماع ان کا منتظر ہو گا۔ مریم نواز اپنی مقبولیت ایک سال قبل عوامی اجتماعات کی شکل میں ثابت کر چکی ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لے کر ایک مرتبہ پھر میدان میں آ گئیں تو مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گا کمی نہیں۔ اسی بات کا امکان زیادہ ہے کہ اب وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ عالیت پسندی کا تقاضا ہے کہ یہ دیکھنا ہو گا اس طرح نون لیگ کی مشکلات کم ہوں گی یا زیادہ، مریم نواز کی مقبولیت میں کوئی شک نہیں کارکن انہیں دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں اور اپنے درمیان پاکر حوصلہ پاتے ہیں لیکن پارٹی جس مشکل میں ہے اس سے نکل پائے گی یا نہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے وہ آئندہ کے لئے اقتدار حاصل کر پائیں گے؟ المیہ یہ ہے کہ نواز شریف ہوں یا زرداری یا پھر عمران خان جس کو بھی اقتدار ملا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی صورت میں ملا۔ بے نظیر بھٹو باپ کی لاش کندھوں پر اٹھا کر سڑکوں پر 9 سال تک رہیں، لاٹھی چارج کا سامنا کیا بھائی جلاوطنی میں مارا گیا، ماں نصرت بھٹو کے ساتھ کئی مرتبہ جیل گئیں لاٹھیاں کھائیں، سڑکوں پر خون بہا، لیکن 88 میں جب اقتدار میں آئیں تو فوج کے ساتھ باقاعدہ ایک سمجھوتہ کر کے آئیں۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو پر آدھی کابینہ مسلط کی گئی۔ تمام تر مفاہمت کے باوجود انہیں 18 ماہ بعد اقتدار سے باہر نکال دیا گیا۔

کیا مریم نواز، بے نظیر بھٹو سے مختلف راستہ اختیار کر کے وزیراعظم ہاؤس پہنچ پائیں گی؟ یہ وہ معمہ ہے جس کا حل تلاش کرنے کے لیے شہباز شریف مقتدر حلقوں سے ملاقات کرتے ہیں اور اپنوں پرایوں کی تنقید کا ہمیشہ نشانہ بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).