امریکہ میں نسلی امتیاز: ’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں اپنے ہی سفید فام بیٹا اغوا کر رہا ہوں‘


کئی سفید فام خاندان کسی سیاہ فام یا ایشیائی بچے کو گود لے لیتے ہیں۔ لیکن جب اس سے الٹ ہوتا ہے، یعنی سیاہ فام اور ایشیائی والدین کسی سفید فام بچے کو گود لیتے ہیں، تو حکام اور چند عام لوگ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سات سالہ جونی کو بھی اسی بات پر غصہ تھا۔ وہ نیند سے بیداری کے بعد سے چڑچڑے موڈ میں تھے اور دن کے ساتھ یہ رویہ شدت اختیار کر رہا تھا۔

شمالی کیرولائن کے علاقے شارلیٹ میں رات کے کھانے کے وقت پیٹر دیکھ سکتے تھے کہ جونی پلے ایریا میں ایک بچے کے ساتھ جھگڑ رہے ہیں۔ انھیں اپنے لے پالک بچے کو ریستوران سے جلد از جلد باہر لے جانا تھا، اس سے پہلے کہ بدمزگی پیدا ہو۔ اسے اٹھا کر پیٹر نے جلدی سے پیسے ادا کیے۔

وہ جب جونی کو گاڑی تک لے جا رہے تھے تو یہ بچہ اب بھی غصے میں تھا۔

ایک خاتون نے ان کا پیچھا کیا اور پوچھا: ’اس لڑکے کی ماں کدھر ہے؟‘

’میں اس کا والد ہوں۔‘ پیٹر نے جواب میں کہا۔

اس خاتون نے ایک قدم پیچھے رکھا اور پیٹر کی گاڑی کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے گاڑی کی نمبر پلیٹ کی جانب دیکھا اور اپنا فون نکالا۔

’ہیلو، پولیس سے بات ہو سکتی ہے پلیز۔‘ انھوں نے آرام سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا۔ ’ادھر ایک سیاہ فام شخص ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سفید فام بچے کو اغوا کر رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

روتھ گنزبرگ: ’آج ہم نے حقوقِ نسواں کا ستون کھو دیا‘

انسان کی بندروں کے ساتھ نمائش پر 114 سال بعد چڑیا گھر کی معافی

وہ چینی لفظ جو امریکی پروفیسر کے خلاف نسل پرستی کی تحقیقات کا سبب بن گیا

جونی پریشان ہو گئے اور پیٹر کی طرف دیکھا۔ پیٹر نے اپنے لے پالک بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔ انھوں نے بچے سے کہا: ’یہ سب ٹھیک ہے۔‘

لونلی پلینٹ نامی سیاحتی ویب سائٹ پر کبالے گاؤں کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’یہ ایسی جگہ ہے جدھر سے لوگ جلد از جلد گزرنا پسند کرتے ہیں۔‘ یوگنڈا میں روانڈا اور ڈی آر کانگو کی سرحدوں کے قریب یہ گاؤں معروف نیشنل پارکس کے راستے میں آتا ہے۔

پیٹر کے لیے یہ آبائی گاؤں آج بھی کئی دردناک یادیں رکھتا ہے۔ وہ غربت سے متاثرہ خاندان میں پلے بڑھے۔ ان کے بچپن میں خاندان کے آٹھ افراد دو کمروں کی جھونپڑی میں سخت زمین پر سوتے تھے۔

’پُرامید رہنے کے لیے کچھ خاص نہیں تھا۔ کھانے میں اگر کچھ ہوتا تھا تو وہ آلو یا سوپ تھا۔ اگر قسمت اچھی ہوتی تو پھیلیاں کھانے کو ملتیں۔‘

تشدد اور شراب نوشی پیٹر کی روزمرہ زندگی کی حقیقت تھیں۔ اس سے دور رہنے کے لیے وہ اپنی کسی خالہ کے گھر رہنے چلے جاتے تھے جو کچھ ہی فاصلے پر رہتی تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ: ’ایک طرف ہمارا بڑا خاندان تھا۔ اور میں نے سیکھا کہ بچے کی پرورش میں پورا گاؤں کردار ادا کرتا ہے۔۔۔ لیکن یہ ہنگامہ خیز تھا۔‘

10 برس کی عمر میں پیٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ بے گھر رہنا پسند کریں گے۔ تو انھوں نے جس حد تک ممکن ہو سکا پیسے جمع کیے اور بس سٹاپ کی طرف چل نکلے۔ وہاں انتظار کرتی ایک خاتون سے انھوں نے پوچھا: ’سب سے دور کون سی بس جائے گی؟‘

اس خاتون نے ایک بس کی طرف اشارہ کیا۔ پیٹر کچھ پڑھ نہ سکے اور اس میں سوار ہو گئے۔ یہ 400 کلو میٹر دور یوگنڈا کے دارالحکومت جا رہی تھی۔

جب پورے دن سفر کے بعد پیٹر کمپالا میں اترے تو وہ ایک بازار میں داخل ہوئے جس کی گلیوں میں تاجر تھے۔ انھوں نے وہاں کام اور کھانے کے بارے میں پوچھا۔

اگلے چند برسوں کے دوران پیٹر انہی گلیوں میں رہے۔ وہ بے گھر لڑکوں کے دوست بن گئے اور آپس میں آمدن اور کھانا بانٹنے لگے۔ پیٹر کہتے ہیں کہ اس موقع پر انھوں نے زندگی میں ایک بیش قیمتی ہنر سیکھا: ایک نظر میں دوسروں میں مروت تلاش کر لینا۔

ایک بھلے آدمی کا نام جاک مسیکو تھا۔ وہ ہفتے میں ایک بار بازار آتا تھا اور پیٹر کو جانے سے پہلے کھانا لے کر دیتا تھا۔ ایک سال بعد مسیکو نے پیٹر سے پوچھا کہ کیا وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پیٹر نے ہاں میں جواب دیا۔ مسیکو نے ایک مقامی سکول میں پیٹر کے داخلے کے انتظامات کیے۔

چھ ماہ بعد، پیٹر کو تعلیم میں آگے بڑھتا دیکھ مسکیو اور ان کے خاندان نے پیٹر سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیں۔

پیٹر نے جاک مسیکو میں ایک ایسا شخص دیکھا جو ان سے خاندان کے کسی فرد جیسا برتاؤ کرتے تھے۔ پیٹر نے جواب میں سکول میں بہترین کارکردگی دکھائی اور ایک امریکی یونیورسٹی کے لیے سکالرشپ حاصل کرلی۔

کچھ دہائیوں بعد، پیٹر 40 سے زیادہ عمر کے تھے اور امریکہ میں خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ وہ ایک این جی او کے لیے کام کر رہے تھے جو یوگنڈا میں بے بس لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ ایک دورے پر پیٹر نے ایک سفید فام خاندان کے ساتھ ایک لے پالک بچی کو سفر کرتے دیکھا۔

پیٹر کو احساس ہوا کہ امریکہ میں بھی کچھ بچوں کو ایک گھر کی اتنی ہی بری طرح ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ یوگنڈا میں۔

شمالی کیرولائن واپس آنے پر پیٹر ایک مقامی یتیم خانے گئے اور کہا کہ وہ رضا کار بننا چاہیں گے۔ وہاں حکام میں ایک خاتون نے ان سے پوچھا کہ ’کیا اپ نے سوتیلا باپ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے؟‘

’میں اکیلا رہتا ہوں‘ پیٹر نے جواب میں کہا۔

اس خاتون نے پوچھا: ’تو؟ یتیم خانے میں بہت سے بچے مثالی مرد کردار ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایسے لوگ جو زندگی میں باپ کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہوں۔‘

اس وقت پوری ریاست میں ان کے علاوہ صرف ایک اور مرد نے تنہا سوتیلا باپ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب انھوں نے فارم بھرا تو انھیں لگا کہ انھیں خود بخود کسی افریقی امریکی بچے سے جوڑ دیا جائے گا۔ لیکن وہ حیران رہ گئے جب انھیں ایک پانچ سالہ سفید فام بچے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

’اس موقع پر مجھے احساس ہوا کہ تمام بچوں کو گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کسی کا رنگ میرے لیے معنی نہیں رکھنا چاہیے۔‘

’میرے پاس دو کمروں کا گھر تھا۔ میں کسی کو بھی رہائش دے سکتا ہوں جس کو ضرورت ہو، مسیکو کی طرح جنھوں نے مجھے موقع دیا تھا۔ میں ایسا دوسرے بچوں کے لیے بھی کرنا چاہتا تھا۔‘

تین سال کے عرصے میں پیٹر کے پاس نو بچے رہے۔ وہ خاندانوں کے واپس جانے سے قبل پیٹر کے گھر متبادل کے طور پر رہتے تھے۔ ان میں سیاہ فام، ہسپانوی اور سفید فام بچے شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ: ’میں ایک چیز کے لیے تیار نہیں تھا کہ جب بچے آپ کو چھوڑ کر واپس چلے جائیں تو یہ کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ایسا نہیں جس کے لیے آپ تیار ہو سکتے ہیں۔‘

پیٹر بچوں کو گود لینے سے قبل طویل عرصے تک ایسا نہیں کرتے تھے تاکہ وہ جذباتی طور پر اگلے بچے کے لیے تیار ہوں۔

جب جمعے کی شب یتیم خانے سے فون آیا کہ 11 سالہ انتھونی کو ہنگامی بنیادوں پر رہنے کے لیے جگہ درکار ہے تو پیٹر نے انکار کر دیا۔

‘پچھلے بچے کے واپس گئے صرف تین روز ہوئے تھے تو میں نے اس بار نہ کر دی اور کہا ’مجھے کم از کم دو ماہ درکار ہیں۔‘ لیکن پھر انھوں نے بتایا کہ یہ غیر معمولی کیس ہے اور کافی دردناک ہے۔ اور وہ صرف ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران اس کے لیے ایک گھر چاہتے ہیں جب تک کوئی دوسرا حل نہ نکل آئے۔‘

ہچکچاہٹ کے ساتھ پیٹر مان گئے اور صبح تین بجے لمبے قد، جسمانی طور پر تندرست اور گھنگھرالے بالوں والے انتھونی کو ان کے گھر چھوڑ دیا گیا۔ اگلی صبح پیٹر اور انتھونی نے ناشتہ کیا۔

’تم مجھے پیٹر بلا سکتے ہو۔‘ اس نے لڑکے کو بتایا۔

انتھونی نے جواب دیا: ’کیا میں آپ کو ڈیڈ کہہ سکتا ہوں؟‘

پیٹر حیران رہ گئے۔ دونوں میں آپس میں بہت کم بات ہوئی تھی۔ وہ انتھونی کے ماضی سے واقف نہیں تھے۔ لیکن وہ پیٹر سے روابط قائم کر چکے تھے۔ دونوں نے یہ دن کھانا بنانے اور باتیں کرنے میں گزارا۔ وہ مال گئے جہاں پیٹر نے اس کے لیے کچھ کپڑے خریدے۔ انھوں نے ایک دوسرے سے سطحی سوال پوچھے جیسے پسندیدہ کھانا کیا ہے اور کون سی فلمیں دیکھنا پسند ہے۔

’ہم دونوں دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک ساتھ کیسے رہ سکیں گے۔‘

پیر کو جب کیئر ورکر آئے تو پیٹر کو انتھونی کے بارے میں پتا چلا۔ وہ دو سال کی عمر سے یتیم خانے میں رہ رہے تھے۔ اور انھیں چار سال کی عمر میں ایک خاندان نے گود لیا تھا۔ لیکن اب سات برس بعد انتھونی کے والدین نے انھیں ایک ہسپتال کے باہر تنہا چھوڑ دیا تھا۔

ایک مرتبہ ان والدین کو ڈھونڈ لیا گیا تھا لیکن انھوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ مزید اس بچے کا خیال نہیں رکھ سکتے۔

پیٹر کے مطابق ’وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے۔۔۔ انھوں نے کبھی الوداع نہ کہا، نہ کوئی وجہ دی اور کبھی لوٹ کر واپس نہ آئے۔ اس نے مجھے شدید غم میں مبتلا کر دیا۔ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‘

’انتھونی کی زندگی مجھے اپنے بچپن میں لے گئی۔ یہ بچہ میری طرح تھا جب میں 10 سال کی عمر میں کمپالا کی گلیوں میں پھرتا تھا اور جانے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے سماجی کارکن سے کہا کہ مجھے صرف کچھ دستاویزات کی ضرورت ہے تاکہ یہ سکول جاسکے اوریہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

پیٹر کے مطابق انتھونی نے بہت پہلے ہی سب جان لیا تھا۔ ’یاد ہے اس نے مجھے فوراً ڈیڈ کہا تھا۔ اس بچے کو پتا تھا کہ میں اس کا والد بنوں گا۔‘

اسی ہفتے انتھونی کے لے پالک والدین نے اس کی دیکھ بھال کے حقوق پیٹر کے نام کر دیے۔ پیٹر کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں فوراً جان گئے تھے کہ ہم ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ رہنے والے ہیں۔‘

ایک سال میں پیٹر نے باقاعدہ انتھونی کو گود لے لیا۔ دونوں ساتھ زندگی گزارنے لگے تو انتھونی یوگنڈا میں اپنے والد کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ پیٹر کے مطابق وہ یہ اس لیے جاننا چاہتے تھے کہ اب یہ ان کا ورثہ بھی ہے۔ انتھونی یوگنڈا کے کھانے بنانے میں پیٹر کی مدد کرتے تھے۔ سکول میں انتھونی اپنے دوستوں سے پیٹر کا تعارف کرانے لگے۔

وہ اعلان کرتے تھے ’یہ میرے ڈیڈ ہیں۔‘ اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ کبھی کبھار ان کے ساتھی یہ سن کر پریشان ہو جاتے تھے۔ لیکن ان کی زندگی میں کافی مشکلات آئیں۔ ایک مرتبہ چھٹیوں پر ایئرپورٹ کے عملے نے انتھونی کو روک کر پوچھا کہ ان کے والدین کہاں ہیں۔

انتھونی نے پیٹر کی طرف اشارہ کیا جس کے بعد عملہ فوراً پیٹر کے دستاویزات دیکھنے لگا۔ انتھونی اس چھپے ہوئے نسلی امتیار سے بہت مایوس ہوتے تھے لیکن پیٹر انھیں تسلی دیتے رہتے۔

پیٹر 13 سالہ انتھونی کو سمجھاتے کہ ’میں آپ کا والد ہوں اور مجھے آپ سے محبت ہے۔ لیکن میرے جیسے دکھنے والے لوگوں کو ہمیشہ اچھا برتاؤ نہیں ملتا۔‘

’مجھ سے ایسا برتاؤ کرنے والوں کے جواب میں آپ کا کام غصہ کرنا نہیں۔ آپ کا کام یہ ہے کہ مجھ جیسے دکھنے والوں سے عزت سے پیش آئیں۔‘

رواں سال بہار کے موسم میں یتیم خانے نے پیٹر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آیا وہ سات سالہ جونی (فرضی نام) کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔ ان کا خاندان کورونا کی عالمی وبا کے دوران مالی اعتبار سے مشکلات سے دوچار ہے۔ جونی بھی انتھونی کی طرح پیٹر کے ساتھ رہنے لگے اور اپنے سوتیلے بھائی کی طرح انھیں ’ڈیڈ‘ کہنے لگے۔

جب جونی پیٹر کے ساتھ کہیں باہر جاتے تو ان کی سفید رنگت اور سنہرے بالوں کی وجہ سے لوگ مشکوک نظروں سے دونوں کو دیکھتے۔

اس لیے پیٹر کو حیرت نہیں ہوئی جب اس خاتون نے ریستوران کے باہر پولیس کو فون کر دیا۔ جونی کی سرپرستی ثابت کرنے میں کچھ منٹ لگے لیکن اس دوران یہ ننھا لڑکا گھبرا چکا تھا۔

پیٹر نے انھیں سمجھایا کہ آئندہ بھی ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ وہ سیاہ فام ہیں اور جونی سفید فام۔

یہ ایسی بات تھی جس کے بارے میں پیٹر اور انتھونی بات کر چکے تھے۔

مئی میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد انھوں نے بلیک لائیوز میٹر کے موضوع پر طویل اور جذباتی گفتگو کی تھی۔ پیٹر نے جونی سے پوچھا کہ وہ اپنا فون تیار رکھیں جب بھی انھیں پولیس روکے۔

پیٹر کہتے ہیں کہ ’سیاہ فام ہونے کی حیثیت سے میرے پاس 10 سیکنڈز ہوتے ہیں کہ میں پولیس کو سمجھا سکوں، اس سے پہلے کہ بات خراب ہو۔‘

’میں ہمیشہ انتھونی سے کہتا ہوں کہ اگر پولیس مجھے روکے تو اپنا فون نکال کر فوراً ریکارڈنگ کر لیا کرو کیونکہ تم میرے واحد گواہ ہو۔ میرے پاس زندگی بچانے کے لیے صرف 10 سیکنڈ ہوتے ہیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم امریکہ میں ہیں اور میں اس سے الگ دکھتا ہوں۔ مجھے امتیازی سلوک کا سامنا رہے گا۔ یہ ایسا تناؤ یا شک نہیں ہے جس کا سامنا سفید فام والدین کو ہوتا ہے جب وہ سیاہ فام بچے کو گود لیتے ہیں۔‘

انسٹی ٹیوٹ فار فیملی سٹڈیز کے نیکولس زل کے مطابق یہ زیادہ ممکن ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام خاندان کے مقابلے سفید فام خاندان اپنی نسل سے باہر کسی کو گود لیں گے۔

ان کے مطابق 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک فیصد سیاہ فام خاندانوں نے کسی سفید بچے کو گود لیا جبکہ انھوں نے 92 فیصد افریقی امریکی بچے کو گود لیا۔ اس کے مقابلے 11 فیصد سفید فام خاندانوں نے اپنی نسل سے باہر بچے گود لیے اور ان میں پانچ فیصد بچے سیاہ فام تھے۔

گذشتہ برس سندیپ اور رینا نامی برطانوے جوڑے نے ایک کیس میں ایک لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ جیتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انھیں غیر ایشیائی بچے گود لینے سے روکا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں کہا جاتا تھا کہ وہ انڈیا یا پاکستان سے آئے کسی بچے کو گود لیں۔

پیٹر کا کہنا ہے کہ شمالی کیرولائن کے نظام میں انھیں سیاہ فام ہوتے ہوئے یتیم خانوں سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انتھونی کو گود لینا ان کی عمر کی وجہ سے شاید آسان ہو گیا تھا۔

وہ ایسے والدین کو جانتے ہیں جنھیں کوئی بچہ گود لینے میں وقت لگا کیونکہ ان کی نسل کا بچہ اس وقت موجود نہیں تھا۔ وہ ان بچوں کے ساتھ سفری پابندیاں ختم ہونے پر چھٹیوں پر جانا چاہتے ہیں۔ وہ ان بچوں کو یوگنڈا کی سیر کروانا چاہتے ہیں اور وہ جونی کے والدین سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس بچے کے لیے اپنے گھر واپس جانا مشکل نہ ہو۔

انھیں انسٹاگرام پر کئی لوگوں کی طرف سے پیشکش بھی ہوئی ہے لیکن وہ فی الحال کوئی رومانوی تعلق قائم کرنا نہیں چاہتے۔

’میرے لڑکوں کو زندگی میں مستحکم اور مثالی مرد نہیں ملے۔ وہ میرے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں اور میں انھیں اپنا مکمل وقت دینا چاہتا ہوں۔‘

اس مضمون کے لیے تمام تصاویر کے جملہ حقوق پیٹر کے ہیں۔جونی کا نام اس کے اصل خاندان کی خواہش پر ظاہر نہیں کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp