فرضی جنتیں نہ تراشیں : ریپ امریکہ میں بھی ہوتا ہے اور سوویت یونین میں بھی ہوتا تھا


موٹر وے پر ہماری قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ سانحہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا دکھ کم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھ رہا ہے۔ کبھی یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ ان خاتون نے شوہر کے مجبور کرنے پر رات کے اس وقت سفر کیا۔ کبھی یہ سنتے ہیں کہ بلانے کے باوجود پولیس نے ایک مجبور عورت کی مدد نہیں کی۔ کبھی واقعہ کے فوری بعد پولیس افسر کے اس بیان پر بحث ہوتی ہے کہ غلطی ان خاتون کی ہی تھی کہ انہوں نے اتنی رات گئے سفر کیوں کیا؟

یہ زخم تازہ تھا کہ یہ ہوشربا خبریں ملیں کہ نارووال میں تیرہ سالہ بچے سے زیادتی کی گئی اور اس زیادتی کے الزام پر تحریک لبیک جلالی گروپ کے صدر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مانسہرہ میں ایک قاری پر الزام ہے کہ اس نے چار سالہ بچی کا ریپ کیا ہے۔ شاید یہ سب کچھ پہلے بھی ہو رہا تھا لیکن اب یہ خبریں سامنے آنے لگی ہیں۔ ان پر بحث ہو رہی ہے۔ اور ایسے سانحوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ صرف مجرموں کو کڑی سزا دینا ہی کافی نہیں۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی کہ آئندہ سے ایسے واقعات نہ ہوں۔

ایسے واقعات کینسر کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک جگہ سے شروع ہوئے اور پورے جسم میں پھیل گئے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ بیماری کینسر سے زیادہ مہلک ہے۔ جب کسی کینسر کا علاج کرنا ہو تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ کینسر کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کون سے عوامل اس کے امکان میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ کتنی تیزی پھیلتا ہے۔ جسم کے کن حصوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ کون سی ادویات اس پر اثر کر سکتی ہیں۔ اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟

اگر کوئی ڈاکٹر مریض کا علاج کرنے کی بجائے صرف مریض کے سرہانے کھڑے ہو کر کینسر کے خلاف تقریر کرنا شروع کر دے۔ یا فقط اس کی مذمت میں ایک دو مضمون تحریر کر دے تو اس کی یہ کاوش نہ اس مریض کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں دوسرے انسانوں کو اس کا شکار بننے سے بچا سکتی ہے۔

اسی طرح ہم محض مذمتی بیانات سے ان واقعات کی وبا کو نہیں روک سکتے۔ سب سے پہلے ہمیں حقائق کا تجزیہ کرنا ہو گا کہ اس بیماری کی نوعیت کیا ہے۔ ”ہم سب“ پر اس موضوع پر کئی کالم شائع ہو رہے ہیں۔ سب کالم نویسوں نے کوشش کی کہ اس برائی کے خلاف جد و جہد میں حصہ لیں۔ لیکن خاکسار کی رائے میں بعض تحریریں حقائق کا تجزیہ کرنے کی بجائے ہمیں حقائق کی دنیا سے دور لے جا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر 19 ستمبر کو محترمہ عشرت آفریں صاحبہ کا کالم شائع ہوا۔ اس میں لکھا تھا

” میں پچھلی تین دہائیوں سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ اس غیر اسلامی ریاست میں تیس برس سے میں گاڑی دوڑاتی، دندناتی پھر رہی ہوں یہاں کبھی کسی نے مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ اے عورت تو آدھی رات کو تنہا کیوں نکل پڑی۔ مجھے کبھی کسی نے یہاں گھور کر نہیں دیکھا۔“

پھر اس سے تین روز قبل ہمارے محترم ایاز امیر صاحب کا کالم شائع ہوا کہ جنسی جرائم امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں تو ہوتے تھے لیکن کمیونسٹ سوویت یونین ان سے پاک تھا۔ میری رائے میں یہ دونوں دعوے اتنے ہی غلط ہیں جتنا یہ دعویٰ کہ پاکستان میں اس برائی کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔

پہلے امریکہ کی مثال لیتے ہیں۔ ہماری بہن نے کی تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ میں تو کوئی عورت کو گھور کر بھی نہیں دیکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں جنسی تشدد کے قومی مرکز کے مطابق امریکہ میں کم و بیش پانچ میں سے ایک عورت یا تو کبھی نہ کبھی ریپ ہوئی ہے یا اسے ریپ کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر امریکہ ایسی پاک زمین ہے جہاں کوئی حیا کے مارے کسی غیر عورت کو گھور بھی نہیں سکتا تو وہاں کی اٹھارہ فیصد عورتیں زنا بالجبر کا نشانہ کیسے بن گئیں؟ ان میں سے اکثر عورتوں کو اس وقت ریپ کا نشانہ بنایا گیا جب ان کی عمر 25 برس سے کم تھی۔ اور اسی امریکہ میں تقریباً پانچ فیصد مردوں کو کبھی نہ کبھی کسی عورت نے ریپ کیا ہے۔ ان میں سے ایک چوتھائی سے زائد مردوں کو اس وقت ریپ کیا گیا جب ان کی عمر گیارہ سال سے کم تھی۔

مکرمہ عشرت آفریں صاحبہ کے کالم پر مجھے اس لئے زیادہ حیرت ہوئی کیونکہ انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن میں لیکچرار رہی ہیں۔ اور امریکہ میں ہونے والی ریسرچ کے مطابق امریکہ میں ریپ کے سب سے زیادہ واقعات ٹیکساس کی میریون کاؤنٹی میں ہوئے ہیں۔ اور خود جس یونیورسٹی میں محترمہ عشرت آفرین صاحبہ پڑھاتی رہی ہیں، اس کی انتظامیہ کے مطابق اس یونیورسٹی کی پندرہ فیصد انڈر گریجویٹ طالبات کا کہنا تھا کہ ان کو ریپ کیا گیا ہے۔ اور 28 فیصد طالبات کا کہنا تھا کہ ان کو جنسی لمس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور خود اس یونیورسٹی کے اساتذہ بھی طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے تھے۔

Raid Amin, Nicole S. Nabors, Arlene M. Nelson, Murshid Saqlain & Martin Kulldorff (2015) : Geographical Clusters of Rape in the United States: 2000-2012, Statistics and Public Policy

اب سوویت یونین کی بیتی بہاروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے قابل احترام ایاز امیر صاحب ماسکو میں پاکستانی سفارت خانے میں کچھ سال کام کرتے رہے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے وہاں رات کے وقت عورتوں کو آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھا تھا لیکن انہیں اس کے با وجود وہاں پر ریپ کا کوئی واقعہ نظر نہیں آیا۔ اسی طرح میں بھی گزشتہ اٹھاون سال سے پاکستان میں زندگی کے دن گزار رہا ہوں۔ میں نے بھی عورتوں کو شہروں میں ہر وقت آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھا ہے بلکہ میں نے خواتین سمیت کئی ویران اور دور افتادہ مقامات پر کیمپنگ بھی کی ہے۔ میرے سامنے بھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان میں یہ برائی موجود ہے اور ہمارے اندازوں سے بہت زیادہ موجود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین میں ایسے اعداد و شمار دبا دیے جاتے تھے۔

ورنہ الیگزینڈر سولزینیٹسن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب گولاگ آرکیپلاگو میں انکشاف کیا تھا کہ سوویت یونین میں سرکاری تحویل میں بھی باقاعدہ خواتین کو ریپ کیا جاتا تھا۔ اور جب دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کے ہونہار فوجی جرمنی کو آزادی دلانے کے لئے وہاں پہنچے تو انہوں نے آٹھ سال کی لڑکیوں سے لے کر اسی سال کی عورتوں تک ہر ایک کو زنا بالجبر کا نشانہ بنا نے کی کوشش کی۔ بعض اندازوں کے مطابق ریپ ہونے والی خواتین کی تعداد چند لاکھ سے بیس لاکھ تک تھی۔ اور بہت سی عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے صرف ایک شہر میں ایک لاکھ عورتوں کو سوویت فوجیوں نے ریپ کیا اور ان میں سے دس ہزار کی موت ہو گئی۔ بعض چھوٹے بچے اپنی ماؤں کو بچاتے ہوئے مر گئے۔

جیسا کہ میں نے عرض کی تھی کہ ہم نے اگر پاکستان میں اس برائی کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں حقائق کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک کو اس اعتبار جنت قرار دیتے رہے تو ہم آنکھیں بند کر کے ان کی مثالوں کی پیروی کریں گے اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ یہ ممالک خود تو اس مسئلہ پر قابو نہیں پا سکے، ہمیں ان کی پیروی کر کے کیا حاصل ہوگا؟

جب شام کو ویرانے میں امریکی شاہراہ پر میری گاڑی خراب ہوئی – عشرت آفرین

کمیونسٹ ماسکو میں ریپ ناممکن تھا – ایاز امیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).