علی ظفر پر میشا شفیع کے الزامات: کیا ہتکِ عزت کے قانون کا استعمال آواز اٹھانے والوں کو خاموش کروانے کے لیے کیا جا رہا ہے؟


میشا شفیع، علی ظفر

لاہور کی ایک سیشن کورٹ نے گلوکار علی ظفر کی شکایت پر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کے الزام میں سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں مبینہ طور پر ملوث اداکارہ و ماڈل عفت عمر کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے عفت عمر نے تصدیق کی کہ انھوں نے جمعرات کو سیشن کورٹ جا کر اپنی عبوری ضمانت کروائی ہے۔

منگل کو پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سائبر کرائمز لاہور نے گلوکار علی ظفر کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انھیں بدنام کرنے کی کوشش کے الزام میں پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع اور عفت عمر سمیت کل نو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

یاد رہے کہ نومبر 2018 میں علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بہت سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف ’دھمکیاں اور بدنامی پر مبنی مواد‘ پوسٹ کر رہے ہیں۔

انھوں نے اپنے اس دعوے کے ساتھ ثبوت کے طور پر کچھ ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کیں تھیں۔

علی ظفر نے الزام لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں ان کے خلاف میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراس کے الزام سے کئی ہفتے قبل ہی کئی جعلی اکاؤنٹس نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے اپیل مسترد کر دی تھی۔ اس اپیل میں میشا کی جانب سے پنجاب کے محتسب اور گورنر کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔

پہلے گورنر پنجاب نے اپیل کو مسترد کیا اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور قرار دیا کہ فریقین میں مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بات نکل چکی ہے اور یقیناً دور تلک جائے گی۔۔۔

’ٹویٹ حذف کریں، معافی مانگیں ورنہ ہرجانہ دیں‘

’میشا شفیع کا الزام جھوٹا ہے، عدالت لے کر جاؤں گا‘

’ہراسانی کا شکار مرد ہوں یا خواتین، خاموش رہنا حل نہیں’

’دو سال تک تحقیقات کے بعد مقدمہ درج ہوا‘

علی ظفر کی جانب سے مقدمے کی پیروی کرنے والی وکیل عنبرین قریشی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مقدمہ خالصتاً سائبر کرائم کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے نومبر 2018 ایف ائی اے کے سائبر کرائم ونگ کو درخواست دی تھی اور ان کے جمع کرائے گئے ثبوتوں کی جانچ پڑتال کے بعد تفتیش کا آغاز ہوا اور اب دو سال بعد اسی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

علی ظفر کی وکیل کا دعویٰ تھا کہ ’علی ظفر کے خلاف چلائی گئی مہم کا آغاز میشا شفیع کے علی ظفر پر لگائے گئے الزام (19 اپریل 2018) سے کہیں پہلے ہوا۔‘

علی ظفر کی وکیل نے بتایا کہ ’ہماری درخواست صرف نو لوگوں کے خلاف نہیں ہے، اس میں کئی اور نام بھی شامل ہیں۔‘

تاہم انھوں نے کُل تعداد بتانے سے گریز کیا۔

می ٹو مہم

’نوٹسز وقت پر نہیں ملے‘

اس ایف آئی آر میں نامزد ایک ملزم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ برس جولائی 2019 میں انھیں نوٹس ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

نوٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انپوں نے کہا کہ ‘جس تاریخ پر بلایا جاتا، نوٹس ہمیشہ اس کے دو دن بعد ملتے تھے اور نوٹس میں صرف یہ لکھا ہوتا تھا کہ آپ آ کر ہم سے بات کریں کیونکہ آپ ایک تحقیقات کا حصہ ہیں۔ وہ تحقیقات کیا ہیں، ہمارے خلاف شکایت کیا ہے، کس نے درج کروائی ہے اور ہمیں کس لیے بلایا جا رہا ہے وغیرہ، کوئی معلومات نہیں دی جاتی تھیں۔ اگر وقت پر نوٹس ملتے اور ہمیں بتایا جاتا کہ ہمیں کیوں بلایا جا رہا ہے تو ہم ضرور جاتے اور ان کے ساتھ تعاون کرتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس سب کے باوجود جتنے نوٹس ملے، انھوں نے ایک وکیل کی خدمات لے کر سب نوٹسز کے فوری طور پر قانونی جواب دیے۔ انھوں نے قانونی طریقے سے وکیل کے ذریعے اپنے خلاف شکایت کی تفصیل جاننے کی کوشش بھی کی لیکن انھیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

نامزد ملزم نے بتایا کہ علی ظفر کی شکایت پر بھیجے جانے والے نوٹسز ملنے کے بعد پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ‘بولو بھی‘ کی شریک بانی اور ڈائریکٹر فریحہ عزیز یہ نوٹسز اور چند ملزمان کی ٹیسٹیمنیز (گواہیاں) لے کر سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے پاس گئں تھیں۔

‘اس پریزینٹیشن کے دوران فریحہ نے ہماری گواہیوں کے ذریعے کمیٹی کو بتایا کہ ایف آئی اے کس طرح غیر قانونی طریقے اپناتے ہوئے ہمیں ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ہتکِ عزت کے دعوے کو کریمنالائز (مجرمانہ رنگ دینا) کر رہا ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔‘

نامزد ملزم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فریحہ عزیز کے سینٹ کی کمیٹی میں جانے کے بعد نوٹسز کا سلسلہ یک دم رک گیا۔

دوسری جانب ایف آئی اے لے تفتیسی افسر نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ’ایف آئی ار کے اندراج سے پہلے دو سال تک اس معاملے کی تفتیش کی گئی جس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا تفتیسی افسر کے مطابق اس مقدمے میں زیادہ تر دفعات قابل ضمانت ہیں اور میشا شفیع سمیت متعدد ملزمان نے اس مقدمے میں ضمانت بھی کروا لی ہے۔

’آئندہ کسی عورت میں ہراساں کرنے والے کا نام لینے کی ہمت نہیں ہوگی‘

علی ظفر کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ’ملزمان کے جواب تسلی بخش نہیں تھے‘۔ اس بارے میں نامزد ملزم کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر اس چیز کا فیصلہ تحقیقاتی افسر نہیں، بلکہ صرف اور صرف جج کرتا ہے۔

انھوں نے ایف آئی آر میں نامزد باقی ملزمان کے ساتھ رابطے میں ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں بالکل معلوم نہیں کہ باقی لوگ کون ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا علی ظفر کی جانب سے یہ الزام کہ ‘ہم سب ملے ہوئے ہیں اور مل کر ٹرول کرتے ہیں، سراسر غلط ہے۔‘

نامزد ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘ہتکِ عزت کے دعوے کو کریمنالائز (مجرمانہ رنگ دینا) کرنا خطرناک ہے۔ اور یہ خیال بھی بہت خطرناک ہے کہ ریاست پیکا کے سیکشن 20 کا استعمال کرتے ہوئے یہ یقینی بنا سکتی ہے کہ کوئی بھی عورت کبھی بھی اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے خلاف کھڑی نہیں ہوسکتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘براہ کرم لوگوں سے پوچھیں کہ اگر یہ مقدمہ چلتا ہے اور ہمیں مجرم قرار دیا جاتا ہے تو یہ کس طرح خواتین اور می ٹو تحریک کو متاثر کرے گا۔ سب ختم ہو جائے گا۔ کبھی بھی کسی بھی عورت میں خود کو ہراساں کرنے والے کا نام لینے کی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ مردوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ ایسے معاملے کا جواب کریمنل کیس سے دے سکتے ہیں۔‘

https://twitter.com/FariehaAziz/status/1309363988883439616

‘بولو بھی‘ کی شریک بانی اور ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جب یہ نوٹسز کا سلسلہ شروع ہوا تو ستمبر 2019 میں انھوں نے ایف آئی اے کی کارروائی کا سامنا کرنے والوں کی جانب سے کمیٹی کی چیئرمین کو خطوط پیش کیے اور ان کے تجربات کی روشنی میں کمیٹی کو بتایا کہ ایف آئی اے کس طرح غیر قانونی طریقے اپناتے ہوئے ان افراد کو ہراساں کر رہا ہے اور ان افراد کو شکایت کی نقل تک نہیں دی جا رہی۔

اس کے ساتھ فریحہ عزیز نے کمیٹی کے سامنے قانونی ماہرین کی جانب سے ہتک عزت قوانین سے متعلق سفارشات بھی پیش کیں۔

’کوئی معاملہ ہتکِ عزت کا ہے یا نہیں، اس کا تعین عدالت کرتی ہے‘

فریحہ عزیز کے مطابق کمیٹی نے انھیں بتایا تھا کہ وہ اس مسئلے پر ایف آئی اے سے جواب طلب کریں گے۔ فریحہ عزیز کے مطابق انھوں نے کمیٹی کو یاددہانی بھی کروائی کہ پیکا کا غلط استعمال ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن اس حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔

علی ظفر کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی اس کارروائی نے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ جن افراد نے اس (علی ظفر اور میشا شفیع کا مقدمہ) بحث میں حصہ لیا، انھیں اس تمام معاملے میں کریمنلائز (مجرم قرار دینا) کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی نے فریجہ عزیز سے پوچھا کہ چونکہ علی ظفر پر ابھی تک ہراس کرنے کا الزام ثابت نہیں ہو سکا، تو اس کے باوجود سوشل میڈیا یا اپنی ٹویٹس میں انھیں ‘ہراسر‘ کہنے سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟

اس بارے میں فریحہ کہتی ہیں کہ ‘کوئی معاملہ ہتکِ عزت کا ہے یا نہیں، اس کا تعین کورٹ کرتا ہے، ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ ایف آئی اے کا کام صرف اور صرف منصفانہ تفتیش کرنا ہے۔‘

‘اور دوسری چیز یہ کہ ایف آئی آر میں نامزد کچھ افراد نے اگر ‘مبینہ‘ کا لفظ بھی استعمال کیا، اس کے باوجود انھیں نوٹس بھیجے گئے۔ اور کافی سارے لوگوں کو تو صرف اور صرف ان کی رپورٹنگ کی بنیاد پر نوٹس بھیجے گئے۔‘

فریحہ عزیز کا خیال ہے کہ قانونی لحاظ سے ہتکِ عزت کا قانون بہت سے مسائل کی جڑ ہے، اور دنیا بھر میں ’کریمنل ڈیفامیشن‘ سے ہٹا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں اسے فروغ دیا جا رہا ہے۔

حقوق نسواں کے لیے نکالی جانے والی ریلی

وہ کہتی ہیں کہ ‘اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی معاملہ ہتکِ عزت کا ہے تو اس کا ایک سول طریقہ یہ ہے جس میں آپ بتاتے ہیں کہ آپ کو کیا چیز توہین آمیز لگ رہی ہے، آپ جواب طلب کرتے ہیں اور اس کے بعد کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن ایف آئی اے نے ایسے کسی طریقہِ کار پر عمل نہیں کیا۔‘

’نامزد ملزمان کو بتایا نہیں گیا کہ ان کے خلاف وہ شکایت کیا ہے‘

فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کو نوٹس بھیجے گئے لیکن شکایت کی نقل نہیں دی گی، انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ جسے وہ ہتکِ عزت کا دعویٰ کہہ رہے ہیں ان کے خلاف وہ شکایت کیا ہے، اور جب انھوں نے جواب مانگا تو مزید نوٹس بھیج دیے گئے اور پھر ایف آئی آر کاٹ دی گئی اور انھیں ایک کریمنل پراسس میں الجھا دیا گیا تاکہ پہلے وہ ضمانتیں کروائیں پھر ٹرائل اور تحقیقات کا حصہ بنیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاملے کو قانون اور آئین کے تحت چلانا ضروری ہوتا ہے ‘آپ کسی کو یہ بتائے بغیر کہ انھوں نے ایسا کیا کہا ہے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے، ان کے خلاف کارروائی کیسے کر سکتے ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ پیکا کے لحاظ سے سیکشن 20 noncognizable offence ہے، ایف آئی اے نے جو ایف آئی آر کاٹی ہے وہ noncognizable ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بعد تحقیقات کی جاتی ہے اور اگر تحقیقات میں جرم ثابت ہو جائے اور مجسٹریٹ کے سامنے چلان رکھا جائے تو جاکر میجسٹریٹ اسے تسلیم کرتے ہیں۔

فریحہ عزیز کہتی ہیں ‘لیکن ایف آئی اے پینل کوڈ کے سیکشن لگا دیتی ہے تاکہ انھیں گرفتاری کا اختیار مل سکے اور اس معاملے میں بھی 109 کوئی cognisable offence نہیں ہے کہ آپ نے جا کر گرفتار کرنا ہے تو ایف آئی آر کاٹ دی۔‘

امریکی فلم پروڈیوسر ہاروی وائین سٹین

امریکی فلم پروڈیوسر ہاروی وائین سٹین می ٹو مہم کا پہلا بڑا نشانہ بنے

فریحہ عزیز کے مطابق دوسری اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی تحقیقتاتی افسر کو اپنے طور پر نوٹس بھیجنے کا اختیار نہیں ہے۔ ‘تحقیقات کے لیے بھی پیکا کے 2018 کے قواعد میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر noncognisable offence ہے تو سرکل انچارج کی منظوری کے بعد یہ معاملہ مجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے اور ان کے جائزہ لینے کے بعد تحقیقات کی اجازت ملتی ہے تب جا کر آپ کارروائی کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے ایسے کسی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔

فریحہ عزیز بتاتی ہیں کہ انھوں نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ ایف آئی اے کی جانب سے کہاں کہاں قانون کی مبینہ خلاف ورزی کی گئی ہے، اور لوگوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ کہ ایک معاملہ ابھی ٹرائل پر گیا بھی نہیں اور لوگوں کو لاکھ، دو لاکھ روپے ضمانت کروانے، وکیل ڈھونڈنے اور بھاگ دوڑ پر وقت لگانا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بنیادی طور پر اس قانون کو آواز اٹھانے والے افراد کو ہراساں کرنے، پیچھے ہٹنے اور خاموش کروانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو اتنا مجبور کر دیں کہ وہ اپنی بات پر قائم رہنا اور اپنا موقف ثابت کرنا بھی چاہیں تو نہ کر سکیں کیونکہ ہر شخص کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ پورے ٹرائل کو منطقی انجام تک پہنچا سکے۔‘

فریحہ کا کہنا تھا کہ ‘ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ آواز اٹھانے والوں کو اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جائے تاکہ وہ اسے استعمال کرتے ہوئے کہہ سکیں کہ دیکھیں یہ تو جھوٹ بول رہے تھے اور کوئی جاکر نہیں دیکھے گا کہ اس کے پیچھے ایف آئی اے نے طریقہ کار کیا اپنایا تھا۔‘

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ صرف ایک کیس نہیں بلکہ ایک پیٹرن ہے۔ وہ کہتی ہیں ‘جہاں جہاں جنسی ہراسانی اور تشدد کے دعوے کیے گئے، چاہے نام لے کر یا بغیر نام لیے کسی کی حمایت میں بات کی گئی یا کسی نے رپورٹ کیا، ان تمام معاملات میں ہتکِ عزت کے قانون کا استعمال کیا گیا ہے تاکہ کوئی بات بھی نہ کر سکے۔‘

’ہتکِ عزت کا قانون ختم کرنے کی ضرورت‘

فریحہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘چاہے وہ پیکا کا سیکشن 20 ہو یا پاکستان پینل کوڈ کے تحت 499 اور 500 ہو، ہمیں ہتکِ عزت کا قانون ختم کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں تک سول ڈیفرمیشن کا تعلق ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اس کے طریقہ کار کو ٹھیک کریں تاکہ کم از کم شکایت کنندہ اور ملزم دونوں کو قانون کے مطابق برابر کی سطح پر پرکھا جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ریپ اور ہراسانی کے واقعات وقوع پذیر ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لہذا لوگوں کی آسانی کے لیے طریقہ کار متعارف کروانے چاہیئں ‘تاکہ یہ نوبت ہی نہ آئے کہ کسی کو سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑے۔‘

فریحہ سمجھتی ہیں کہ ‘لوگ سوشل میڈیا کا سہارا تبھی لیتے ہیں جب انھیں لگتا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ لیکن اب تو سوشل میڈیا بھی محفوظ نہیں ہے اور آپ کی ایک ٹویٹ کی بنیاد پر آپ پر ہتکِ عزت کا دعویٰ کرکے مجرمانہ دائرہ اختیار میں لایا جا سکتا ہے۔‘

می ٹو

iStock

سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث:

ایف آئی آر کے اندراج کی خبر کے بعد پاکستان میں #LawOnlyForMen اور ایک بار پھر سے #MeToo کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتا رہا جس میں آرا دیتے ہوئے کئی صارفین اس اقدام (ایف آئی آر) کو پاکستان میں ’می ٹو‘ مہم اور خواتین کو دبانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔

تاہم کئی صارفین اسے ایک بہترین مثال مانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے ’پاکستان میں مساوی حقوق کی تحریک ہائی جیک کرنے والے ایسے افراد کو شاید ایک سبق مل سکے جو عورت کارڈ استعمال کرتے ہوئے کسی کا کریئر اور زندگی تباہ کر دیتے ہیں‘ اور ‘حقیقت میں ہراساں ہونے والی خواتین کو نقصان‘ پہنچنے کا ایک ذریعہ بنتے ہیں۔

قانون دان ریما عمر نے ایف آئی آر کے اندراج کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایف آئی اے نے جنسی ہراس کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین اور ان کی ساتھیوں کے خلاف کریمنل پروسیڈنگز کا آغاز کر دیا ہے۔‘

ریما لکھتی ہیں ’ریاست کا پیغام واضح ہے کہ ملک کے جس کریمنل جسٹس سسٹم نے ہماری تاریخ میں خواتین کو احتساب کے مطالبے میں ہمیشہ مایوس کیا ہے، اب وہی سسٹم انھیں خاموش کرانے کے لیے بھی استعمال ہوگا۔‘

عورت مارچ لاہور کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایف آئی آر درج ہونے پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ’یہ ایک المیہ ہے کہ ہراس کے خلاف بولنے والی خواتین کو ہتک عزت کے قوانین کے غلط استعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

طوبیٰ سید کہتی ہیں ’ذرا سوچیے کہ اگر کسی حد تک مراعات یافتہ خواتین کو جن کو انصاف کے نظام اور بہترین وکیلوں تک رسائی حاصل ہے، بدنامی کے ذریعے خاموش کروایا جا رہا ہے تو اس سے ایک عام اوسط طبقے کی پاکستانی عورت کو کیا پیغام ملے گا؟‘

کئی صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر خواتین کو عدالتوں اور تھانوں میں مزید ہراس کا باعث بننے والے رویوں کا سامنا ہو تو وہ سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیں گی، مگر اس ایف آئی آر سے وہ راستہ بھی بند ہو رہا ہے۔

https://twitter.com/UsamaKhilji/status/1310933173623287811

تاہم کئی افراد اس ایف آئی آر کو ایک اچھا اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’می ٹو مہم کا اس طرح غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے ورنہ یہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے گی۔ جیسا کہ اس معاملے میں ایک مثال موجود ہے۔‘

صحافی اقرار الحسن نے علی ظفر کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ’صرف ایف آئی آر درج کروانے میں دو سال لگ گئے، سوچیے انصاف حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔‘

مبین الحق کا کہنا ہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو اور زندگیاں برباد نہ ہوں۔‘

طاہر مجتبیٰ لکھتے ہیں ’ایک الزام کی بنیاد پر علی ظفر کو مرد ہونے کی وجہ سے مسلسل نشانہ بنایا گیا، اب میشا شفیع اور ان کی فیمنسٹ وکلا پر بھی عدالتوں میں دو سال سے اپنائے گئے رویے پر سوال ہونے چاہییں۔ عورت ہونا کسی کو ذاتی مفادات کے لیے پگڑیاں اچھالنے کا لائنسنس نہیں دیتا۔‘

خیر ٹویٹر پر تو درست اور غلط کی یہ جنگ طول پکڑ گئی ہے۔ کئی صارفین پوچھ رہے ہیں کہ می ٹو کا صیحیح استعمال ہو رہا ہے یا غلط اور کیا کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراس کیا جانا کبھی ختم بھی ہو گا یا نہیں۔

کئی افراد یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ علی ظفر اور میشا شفیع کیس میں تفتیش دو سال میں مکمل ہوئی جو کہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ تو ایک عام آدمی کا کتنا وقت لگے گا؟‘

کئی لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ وہ مرد جن کے خلاف جھوٹے مقدمات بنتے ہیں کیا انھیں بھی کبھی کوئی پوچھے گا یا نہیں؟

اور ٹوئٹر صارفین کی ایک بڑی تعداد اس بحث میں اپنی اپنی سوچ کے مطابق رائے دینے میں مصروف ہے۔ البتہ میشا شفیع اور علی ظفر فی الحال دونوں ہی اس معاملے پر سوشل میڈیا کی حد تک تو خاموش ہیں۔

علی ظفر کی پرانی ٹویٹ پر بحث

اس سب معاملے میں علی ظفر کی جانب سے 2010 میں کی گئی ایک ٹویٹ بھی شیئر کی جا رہی جس میں وہ کہہ رہے ہیں ’جب ایک عورت ‘نہیں’ کہہ دے تو اس کا احترام کریں مگر ہار نہ مانیں جب تک کہ وہ ‘کبھی نہیں’ کہہ دے۔ اگر وہ ‘کبھی نہیں’ بھی کچھ متزلزل انداز میں کہے، تب بھی آپ کے پاس موقع تو موجود ہے۔‘

اگرچہ یہ ٹویٹ بعد میں ڈیلیٹ کر دی گئی تھی، مگر یہ تو سوشل میڈیا ہے اور یہاں جواب دینے سے پہلے سکرین شارٹ لیا جاتا ہے۔

اس لیے اب میشا شفیع کے حق میں دلائل دینے والے اس ٹویٹ کو ایک ‘ریفرنس’ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور علی ظفر کے لیے ایک اور اصطلاح ‘ پوٹینشل ہراسر’ استعمال کی جا رہی ہے۔

یاد رہے علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان تنازع اُس وقت سامنے آیا تھا جب میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے ساتھی فنکار پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا اور یہیں سے دونوں کے دمیان قانونی جنگ شروع ہوئی۔

پہلے دونوں میں مخالفانہ بیانات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ بات قانونی نوٹسز تک جا پہنچی۔ اپریل 2018 علی ظفر نے میشا کے خلاف ایک ارب جبکہ میشا شفیع نے علی کے خلاف دو ارب روپے ہرجانے کے الگ الگ دعوے لاہور کی ایک مقامی عدالت میں دائر کر رکھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp