کراچی یونیورسٹی کی اندھیری سڑک پر ہراسانی کے مبینہ واقعات اور سوشل میڈیا پر ردعمل


’کیا مجھے یونیورسٹی جاتے ہوئے پریشان ہونا چاہیے؟‘

یہ وہ سوال ہے جو گذشتہ روز پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی جامعہ کراچی میں پیش آنے والے ہراسانی کے مبینہ واقعے کے بعد کئی طلبا اور طالبات کی زبان پر ہے اور ہیش ٹیگ ’کراچی یونیورسٹی از ناٹ سیف‘ (کراچی یونیورسٹی محفوظ نہیں) پر ہونے والی بحث پاکستان کے ٹاپ ٹوئٹر ٹرینڈز میں شامل ہو گئی۔

یہ ٹرینڈ اس وقت شروع ہوا جب ایک طالب علم نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اور ان کی ایک ساتھی کو رات کے وقت کئی موٹرسائیکل سواروں نے کراچی یونیورسٹی کے کیمپس کے اندر ہراساں کیا اور وہ بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچا کر نکلے۔

شہیر علی نامی ان طالبِ علم نے مبینہ طور پر اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اسے حال ہی میں لاہور تا سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے ریپ سے تشبیہ دی۔

انھوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ اپنے ایک دوست کی سالگرہ کی تقریب سے لوٹ رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کی دو دوست بھی تھیں جن میں سے ایک کو انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے گرلز ہاسٹل جانا تھا۔ شہیر نے انھیں تقریباً رات کے ساڑھے گیارے بجے آئی بی اے پہنچا دیا اور پھر دوسری دوست کے ہمراہ جامعہ کراچی کے مسکن گیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔

واضح رپے کہ کراچی یونیورسٹی کا مسکن چورنگی کی جانب موجود گیٹ آئی بی اے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سڑک کسی کسی جگہ خراب حالت میں ہے اور سنسان ہے۔ اسی سڑک پر کراچی یونیورسٹی کا اپنا بزنس سکول، آئی بی اے کے گرلز اور بوائز ہاسٹل، اور انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز بھی واقع ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طلبہ تنظیمیں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری؟

جنسی ہراس: الزامات کی شفاف تحقیقات کیسے ممکن؟

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

خواتین ہراسانی کے خلاف آواز کیسے بلند کر سکتی ہیں؟

ان کے مطابق راستے میں چار موٹر سائیکلوں پر سوار تقریباً 10 کے قریب افراد نے ان کی گاڑی کو روک کر گھیر لیا اور ’باہر نکلو، باہر نکلو‘ چیخنے لگے۔

’اس وقت ہر طرف گھپ اندھیرا اور سناٹا تھا اور اس پاس صرف جھاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے اپنے حواس قابو کیے اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ جب ہم آئی بی اے بوائز ہاسٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے دوبارہ گاڑی کا گھیراؤ کر لیا اور چیخنے لگے کہ ’لڑکی کو باہر نکالو، گاڑی روکو۔ باہر آؤ‘۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس وقت ہم کس حالت میں تھے، میری دوست تو ابھی تک سو نہیں سکی۔‘

شہیر علی نے پوسٹ میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر وہ افراد گاڑی کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقیناً ان کو مار پیٹ کر پھینک دیتے، جس کے بعد سب جانتے ہیں کہ لڑکی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور مسکن گیٹ پر پہنچ کر چوکیداروں کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لڑکے 15 سے 25 برس کے درمیان لگ رہے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں وحشت عیاں تھی۔

شہیر نے لکھا کہ انھوں نے آئی بی اے کی انتظامیہ کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا ہے اور ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ ’امید ہے کہ وہ اس معاملے کو رینجرز اور سیکیورٹی والوں کے سامنے اٹھائیں گے۔‘

کراچی یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ 5 اکتوبر کو پیش آیا اور بدھ 7 اکتوبر کو ان کے علم میں لایا گیا۔ ان کے مطابق شہیر نے اس واقعے میں ملوث چند افراد کی شناخت کی ہے جو یونیورسٹی کے اندر موجود آبادی کے رہائشی ہیں۔

’ایوننگ پروگرام نہیں، یہ ہراسمنٹ پروگرام بن گیا ہے‘

شہیر کی پوسٹ منظر عام پر آئی تو جامعہ کراچی کے دیگر طالب علموں نے بھی ماضی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی واقعات بیان کیے۔

ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے ایک طالبہ نے کہا کہ 18 ستمبر کو شام سات بجے کے قریب وہ شبعہ فزیالوجی سے مسکن گیٹ کی طرف آ رہی تھیں کہ آئی بی اے کے قریب ایک آدمی نے اپنی بائیک ان کے قریب روکی اور پیشکش کی کہ وہ انھیں گیٹ تک چھوڑ آئیں گے۔ صارف کے مطابق اس شخص کی عمر 50 برس کے قریب ہوگی۔ تاہم جب طالبہ نے ان سے کہا: ’ایک منٹ رکو، میں تمہاری تصویر بناتی ہوں۔‘ یہ سن کر اس شخص نے بائیک سٹارٹ کی اور وہاں سے نکل گیا۔

’اس دوران اندھیرا ہوگیا تھا۔ جب میں نے کے یو بزنس سکول پار کیا اور آئی بی اے کے پاس پہنچی تو سامنے سے ایک اور بائیک آئی۔ اس کی ہیڈ لائٹس بند تھیں اور وہ شخص مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں سڑک کے دوسری طرف ہو گئی تو وہ چیخا ’او! کہاں بھاگ رہی ہے۔‘

طالبہ کے مطابق اس وقت انھیں سامنے سے آنے والی گاڑی میں اتفاق سے اپنے ایک استاد نظر آئے۔ ’میں نے کہا کہ یہ لٹیرے ہیں، جلدی چلیں۔ وہ لٹیرے ان کی گاڑی کے سامنے بھی آئے۔۔۔ میں اپنے حواس میں نہیں تھی میں صرف یہ دیکھ سکی وہ دونوں شلوار قمیض میں تھے۔‘

طالبہ کے مطابق استاد نے رینجرز کے انچارج کو فون کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور رینجرز نے ان سے بھی واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔

مگر طلبہ ہی نہیں، یونیورسٹی کے اساتذہ بھی ایسے واقعات سے تنگ ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے چیئرمین ڈاکٹر ریاض احمد نے اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں شام کی کلاسیں، یعنی ایوننگ پروگرام اب ’ہراسمنٹ پروگرام‘ بن گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے قبل ان کی ایوننگ شفٹ میں کام کرنے والی ایک ساتھی کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلاس کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے اسی مقام پر ایک موٹر سائیکل سوار نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا اور وہ بمشکل ایک ساتھی استاد کی کار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسکن گیٹ سے آنے والی سڑک پر صرف آئی بی اے کے قریب کچھ روشنی ہے، باقی پوری سڑک پر اندھیرا ہوتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ متعدد بار یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات سے آگاہ کر چکے ہیں تاہم اس ضمن میں اب تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے شعبے سمیت آس پاس کے شعبوں میں ہزار کے قریب طالب علم اور طالبات پڑھتے ہیں جبکہ سیکیورٹی کے لیے صرف ایک چوکیدار موجود ہے۔

’رینجرز صرف طلبا میں تصادم روکنے یا ایڈمن بلاک کے باہر احتجاج کے وقت موجود ہوتے ہیں۔ تین اہلکار وی سی کے ساتھ ہیں اور کچھ گیٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کا باقی یونیورسٹی کی سیکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انتظامیہ کا مؤقف

کراچی یونیورسٹی کی انتطامیہ کے مطابق صبح اور شام کی شفٹ میں کُل 42 ہزار کے قریب مستقل طالب علم پڑھتے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔

کراچی یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان کے مطابق متاثرہ طالب علم کی جانب سے شکایت آئی بی اے کو ای میل کی گئی تھی تاہم متاثرین پولیس یا رینجرز کے پاس یہ شکایت باضابطہ طور پر نہیں لے کر گئے۔

ڈاکٹر معیز نے بتایا کہ انھوں نے شکایت کرنے والے نوجوان کو چند مشکوک لڑکوں کی تصاویر بھیجی تھیں جن میں سے تین کو شناخت کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان لڑکوں کی عمریں 14 سے 15 سال کے درمیان ہیں اور وہ یونیورسٹی کے اندر واقع کالونی کے رہائشی ہیں۔

انھوں نے مسکن گیٹ سے آنے والی سڑک پر اندھیرا ہونے کی اعتراف کیا اور کہا کہ یونیورسٹی کا انجنیئرنگ کا شعبہ اس مسئلے پر پر کام کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تین شفٹ میں 150 کے قریب چوکیدار ہیں اور ہر شفٹ میں پچاس چوکیدار ہوتے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی یونیورسٹی کا ماحول پرامن ہے اور شام سے لے کر رات تک یونیورسٹی میں موجود کالونی کے رہائشی اساتذہ اور ان کے خاندان چہل قدمی کرتے ہیں اور کئی طالبات بھی اسی گیٹ سے آتی جاتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

شہیر کی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد صارفین نے بھی #Karachiuniversityisnotsafe پر خوب بحث کی۔ تحریم فاطمہ ٹوئٹر پر لکھتی ہیں: ’وہ بچ گئے۔ لڑکیوں نے خود کو درندوں سے محفوظ رکھا، لیکن کیا مجھے یونیورسٹی جاتے ہوئے پریشان ہونا چاہیے؟ کیا میں وہاں محفوظ ہوں؟‘

عائشہ نامی صارف جو کہ بظاہر کراچی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی ہیں، نے کہا کہ وہ اکثر رات میں مسکن گیٹ کی طرف جاتی ہیں اور اس واقعے کے بعد وہ بری طری ڈر گئی ہیں۔

حمزہ رفعت نے مطالبہ کیا کہ کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس واقعے کا فوری نوٹس لینا چاہیے ’ورنہ سب کہیں گے کہ کراچی یونیورسٹی غیر محفوظ ہے‘۔

مصباح اصغر نامی صارف نے یونیورسٹی کیمپس میں سٹریٹ لائٹس نصب کرنے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔

ایم طلحہ شاہد لکھتے ہیں کہ اغوا کار، ریسپٹ اور لٹیرے سڑکوں پر آزاد ہیں اور لوگوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے خوفزدہ کر رہے ہیں یہ یونیورسٹی ہے یا جنگل۔ یہ سرکاری یونیورسٹی ہے اور سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp