نوزائیدہ بچہ اور پتھر کا بینچ


میرے پاس آنے سے قبل جس ڈاکٹر صاحبہ کے پاس یہ لوگ گئے تھے، انہوں نے بھی بجائے مریض کو یہ باتیں سمجھانے کے الٹا مہنگی دوائیں لکھ دی تھیں، جن کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اب مزید دوائیں کھانے کی۔ ضرورت نہیں ہے۔ ان دواؤں کے کھانے سے دوا بنانے والی کمپنی کے علاوہ کسی کا بھی فائدہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو تعویذ، پانی والے بابے کا پانی اور روحانی علاج سب ہی بے کار تھا، مگر مریض کو یہ بتانا اس سے بھی زیادہ بے کار ہے۔ کیوں کہ یہ تو مریض کے اعتقاد کا مسئلہ ہے اور جس کا اعتقاد ہے میں اس میں کون بولنے والا ہوتا ہوں، لہٰذا اس سلسلے میں خاموش ہی رہا تھا۔

وہ لوگ دو ہفتے بعد پھر آئے تھے۔ ویسے ہی پریشان۔ میں نے ان کا خود اپنی مشین پر الٹرا ساؤنڈ کیا۔ زمان اور اس کی بیوی کو بچے دانی میں تیرتے، گھومتے ہوئے بچے کی تصویر دکھائی، پھر انہیں دکھایا تھا کہ بچے کا دل بن چکا ہے اور الٹرا ساؤنڈ کی اسکرین پر زور زور سے اوپر نیچے جھکولے لے لے کر دھڑک رہا ہے۔ میرے خیال میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور یہی امید کی جاتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی ہو گا۔ میں نے پہلی دفعہ اس لڑکی کے چہرے پر اطمینان کا ایک سایہ سا پڑتا ہوا دیکھا۔ ایسا لگا کہ وہ سوچ رہی ہے کہ اس کی شادی بچ گئی ہے۔ زندگی بچ گئی ہے۔ اسے سب کچھ مل گیا ہے۔

جاتے جاتے زمان نے بڑی عقیدت سے میرا ہاتھ پکڑا تھا۔ اس کا بس چلتا تو شاید وہ چوم بھی لیتا۔ میں نے اب ان دونوں کو چار ہفتے کے بعد بلایا تھا۔

چار ہفتوں کے بعد وہ لوگ پھر آئے تھے۔ میری کلینک بھری ہوئی تھی، مریضوں کے ازدحام میں پھنسا ہوا تھا۔ ان کی باری پر میں نے انہیں دیکھا، بظاہر ہر بات درست تھی۔ اس کا وزن بھی بڑھا تھا۔ بلڈ پریشر بھی ٹھیک تھا اور خون پیشاب کے ٹیسٹ میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں تھی کہ پریشان ہوا جاتا۔ میں نے دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کیا تھا جس میں مجھے احساس ہوا تھا کہ بچہ دانی کا منہ جس کو سختی کے ساتھ بند ہونا چاہیے، وہ اتنی سختی سے بند نہیں تھا۔ الٹرا ساؤنڈ پر ہی مجھے پتا لگ گیا تھا کہ ہونے والا بچہ لڑکا ہے۔

پہلی والی بات ذرا بری خبر تھی۔ سولہویں سترہویں ہفتے میں بچہ دانی کے منہ کا اس طرح سے کھلنا مناسب نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جب بچے کا وزن بڑھے گا، تو اس کے بوجھ سے بچہ دانی کا منہ مزید کھل جائے گا اور شاید حمل چالیس ہفتے مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے، جس کا نتیجہ وقت سے پہلے ہونے کی صورت میں نکلے گا اور بچہ نہیں بچ سکے گا۔

دوسری بری خبر یہ تھی کہ ہونے والا بچہ لڑکا تھا۔ لڑکیاں سخت جان ہوتی ہیں، خاص طور پر اگر نوزائیدہ ہوں۔ اور وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں لڑکیوں کے بچنے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔ وہ زمانے کے سرد و گرم سہنے کو تیار ہوتی ہیں۔ بظاہر نرم و نازک مگر حقیقت میں مضبوط، برداشت کرنے کو تیار۔ لڑکے اور خاص طور پر یہ نوزائیدہ اور کچے تو بہت کمزور ہوتے ہیں۔ میرے لئے پریشانیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔

میں نے دونوں کو سمجھایا کہ کیا مسئلہ ہے او ر صابرہ سے میں نے کہا کہ ہفتے کے دن اسے آنا ہو گا۔ آپریشن تھیٹر میں اسے بے ہوش کر کے اس کی بچہ دانی کے منہ پر ٹانکے لگا دیے جائیں، تا کہ اگر منہ کھلنے والا ہو تو نہ کھلے۔ وہ دونوں پریشان ہو گئے۔ بات تو پریشانی ہی کی تھی۔

جاپان، آسٹریلیا، یورپ اور امریکا میں تو چھبیس اور اٹھائیس ہفتوں کے بچے بھی بچ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑا مسئلہ ہے۔ سوائے چند ایک پرائیویٹ اسپتالوں کے، ان کچے بچوں کا کہیں اور علاج نہیں ہو سکتا۔

ہفتے کے دن صابرہ اسپتال میں داخل ہو گئی۔ خاندان کے بیس پچیس آدمی ساتھ ساتھ تھے۔ کوئی آیت کریمہ پڑھ رہا تھا، کوئی پنج سورہ لئے بیٹھا تھا۔ دس منٹ کا آپریشن تھا، ٹانکا لگانے میں وقت کتنا لگتا ہے۔ وہ اسپتال میں دو دن رہنے کے بعد گھر چلی گئی تھی۔

دو ہفتے کے بعد وہ دونوں پھر آئے تھے۔ صابرہ نے بتایا تھا کہ بچے کی حرکت اسے محسوس ہونے لگی ہے۔ نہ کوئی درد اٹھ رہا ہے اور نہ کوئی خون گیا ہے۔ وہ دونوں اچھے موڈ میں تھے اور ان کے حوصلے بلند تھے۔ صابرہ کی ہر چیز ٹھیک تھی۔ میں نے دونوں کو تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف انتظار کریں۔ میں نے دیکھا کہ دونوں میاں بیوی نے ایک طرح کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ یہ کیا ہے، میں نے پوچھا تھا۔ یہ ہمارے ایک جاننے والوں نے ایک پٹھان سے لیا ہے، بہت خاص پتھر ہے۔ یہ خاص طور پر ہمارے لئے بنوایا ہے۔ زمان کی انگوٹھی میں سفید پتھر تھا اور صابرہ کی انگوٹھی میں ہرے رنگ کا ذرا بڑا سا پتھر تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ پتھر نیچے سے ہر وقت جسم کو چھوتا رہتا ہے اور بچے کو جانے والا خون بھی اس پتھر کو چھوتا ہوا جاتا ہے۔ بنانے والے نے بتایا تھا کہ اس کا اثر بچے پر پڑے گا اور بچہ وقت پر ہی پیدا ہو گا۔

مجھے پتا تھا کہ ان بے جان پتھروں سے کچھ نہیں ہوتا، مگر مریض کی ذہنی تسلی سے کبھی کبھی جسمانی تکلیف بھی ختم ہو جاتی ہے، یہ سوچ کر میں نے کچھ نہیں کہا۔ دنیا جب سے بنی ہے انسان بے جان پتھروں ہی کو مالک و مختار سمجھتا رہا ہے۔

وہ دونوں پڑھے لکھے نہیں تھے۔ زمان اسکول سے بھاگ گیا تھا۔ باپ کی سبزی کی دکان پر بھی نہیں بیٹھا تھا۔ اسے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں کام کرنے کا شوق تھا۔ کوئی سرکاری کام مل جائے۔ اس سبزی کی دکان پر نہیں بیٹھنا تھا۔ اسے آفس میں کام کرنا تھا، چاہے چپراسی ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ ایک سال کی تنخواہ رشوت میں دے کر سفارش کے بعد اسے ”کے ایم سی“ کی نوکری مل گئی تھی اور وہ اسی میں خوش تھا۔ ”کے ایم سی“ میں کام ہی کیا تھا۔ کچھ کام، کچھ یونین بازی، دن بھر پان کھانا اور شام کو گھر آ جانا۔ مگر وہ گھر کا بڑا تھا۔ سارے گھر کی نظر اس پر تھی۔ پڑھا لکھا نہ ہونے کے با وجود اچھی بات یہ تھی کہ وہ دونوں میری بات پر آنکھ بند کر کے عمل کرتے تھے۔ ہمیشہ کلینک میں آتے رہتے تھے۔ موسم کیسا بھی ہو، چاہے شہر میں بسوں کی بندش ہو، یا پہیہ جام ہڑتال ہو دوسرے دن وہ آ جاتے تھے۔ اس نے رفیق کے کارڈ کو پلاسٹک کوڈ کروا لیا تھا اور ہر بار مجھے رفیق کا سلام ضرور کہتا تھا۔

اٹھائیس ہفتے تک سب کچھ ٹھیک تھا وہ دونوں دو دن پہلے مجھے دکھا کر گئے تھے، ہر چیز ٹھیک تھی صابرہ کا وزن، بلڈ پریشر، خون، پیشاب کا ٹیسٹ بچے کی حرکت مگر اس روز صبح صبح وہ جیسے ہی اٹھی تھی، اسے لگا تھا جیسے سارا پانی خارج ہو گیا ہے۔ وہ چیخ مار کر بیٹھ گئی تھی۔ کپڑے شرابور تھے۔ مگر اسے کوئی درد نہیں ہو رہا تھا۔ ٹیکسی میں بٹھا کر وہ لوگ اسے اسپتال لائے تھے۔ جو خطرہ تھا، وہی ہوا تھا۔ بچہ وقت سے پہلے دنیا میں آنے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اسے داخل کر لیا اور انہیں بتایا تھا کہ صابرہ کو دوائیں دی جا رہی ہیں کہ درد نہ شروع ہوں، مگر ایک دن یا دو دن میں درد شروع ہو جائیں گے اور بچہ وقت سے پہلے دنیا میں آ جائے گا۔ مجھے پتا نہیں ہے کہ بچہ کیسا ہو گا، مگر ایسے بچوں کی انتہائی نگہداشت کے کمرے میں رکھنا پڑتا ہے، تا کہ بچے کو مناسب طریقے سے گرم رکھا جا سکے۔ اس کو سانس لینے میں جو مشکل ہوتی ہے، اس کے لئے مشین سے سانس لینے کا انتظام ہو سکے۔ ہمارے اسپتال میں یہ انتظام نہیں ہے، نہ میرے پاس انتہائی نگہداشت کا کمرا ہے، نا ہی سانس کی مشین اور نہ ایسے بچوں کو دیکھنے والی تربیت یافتہ نرس۔ بچے کے پیدا ہونے کے بعد ہی اس سلسلے میں جو کچھ ہو گا، وہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے تسلی دی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3