نوزائیدہ بچہ اور پتھر کا بینچ


ان لوگوں کی تمام تر دعاؤں، تعویذوں، طرح طرح کے پتھروں، پھونکے ہوئے پانی پلانے اور میری دواؤں کے باوجود دوسرے دن صابرہ کے درد شروع ہو گئے اور چار گھنٹے کے اندر اندر ایک چھوٹا سا بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ بچوں کے ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا کہ بچے کو سانس لینے کی مشین کی ضرورت پڑے گی۔

میں نے زمان کو صورت حال سمجھائی۔ آغا خان اسپتال اور حبیب میڈیکل سینٹر میں یہ سہولت موجود تھی۔ مگر تقریباً پانچ ہزار روپے روز کا خرچ تھا۔ میں نے بچوں کے سرکاری اسپتال میں فون کیا، تو ان لوگوں نے بتایا کہ ان کے پاس دو ہی مشینیں ہیں اور ان دونوں پر پہلے ہی سے بچے موجود ہیں۔ اگر وہ صحیح ہو گئے تو پھر زمان کے بچے کے لئے جگہ ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی وہاں کی ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ فی الحال ان بچوں کو ڈسچارج نہیں کیا جائے گا۔

سول اسپتال کے بچوں کے وارڈ سے بھی جواب مل گیا تھا۔ ان کے پاس تو خالی مشین تو تھی مگر مشین کے ساتھ بیٹھنے والی تربیت یافتہ نرس نہیں تھی۔ پاکستان واپس آنے کے بعد شروع شروع میری سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر یہ لاکھوں کروڑوں کی مشین خریدنے کا کیا فائدہ، جب ان مشینوں کے ساتھ بیٹھنے والا، ان کو چلانے والا، ان کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بعد میں میری سمجھ میں آ گیا تھا، کسی کو تربیت دینے میں کمیشن نہیں ملتا، صرف تھکن ہوتی ہے اور مشینوں کو خریدنے میں کمیشن ملتا ہے۔ ہر موقع پر ہر لحظہ اور ہر ایک کو اوپر سے لے کر نیچے تک۔ سول اسپتال کی ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا اور ہمارے یہاں بھیجنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہم سے اچھا تو ماں خود دیکھ لے گی۔

میری ساری کوشش نا کام ہو رہی تھی۔ زمان نے کہا تھا کہ اس کے بچے کو آغا خان اسپتال میں بھیج دیں، وہ روپوں کا انتظام کرے گا، قرض لے گا، زیور بیچے گا۔

میں نے حبیب میڈیکل سینٹر فون کر کے بات کی، شہر کے اسپتال میں کبھی کبھی غریبوں کے نوزائیدہ بچوں کا ڈاکٹروں کی سفارش پر فری میں بھی علاج ہو جاتا تھا، مگر ان کی بھی ساری مشینوں پر پہلے سے بچے موجود تھے اور فوری طور پر کسی بھی رسپائریٹر کے خالی ہونے کی امید نہیں تھی۔ آغا خان اسپتال میں ایک مشین خالی تھی۔ میں نے اسپتال کی ایمبولینس میں اپنے اسپتال کی نرس کے ساتھ بچے کو وہاں بھیج دیا تھا۔

پھر وہی سب کچھ ہوا جو ایسے حالات میں ہوتا ہے۔ ایسے بچے کمزور ہوتے ہیں، ان کے جسم میں مدافعت نہیں ہوتی۔ زندہ رہنے کی خواہش ہوتی ہے، وہ کوشش بھی کرتے ہیں مگر ماحول انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے، اس بچے کو بہت کچھ ملا تھا۔ مہنگے ترین انجیکشن، پھیپھڑوں کو سنبھالنے کے لئے دوا، پھر انفیکشن سے لڑنے کے لئے مہنگی ترین اینٹی بائیوٹک دوائیں۔

زمان نے پہلے قرض لیا، پھر بیوی کے زیورات بیچے، بارہ دن کے علاج میں ان کے گھر کا سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ پھر بچے کے پھیپھڑوں سے مشین نکالی گئی تھی۔ وہ کمزور تھا مگر اب خود سانس لے رہا تھا۔ زمان کے پاس بھی سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ بچے کو اب صرف نرسری کی ضرورت تھی۔ آغا خان اسپتال سے مجھے فون آیا کہ میں اسے اپنے اسپتال کی نرسری میں رکھ لوں، تھوڑے دنوں کے بعد بچے اس قابل ہو جائے گا کہ گھر پر ماں کے پاس رہ سکے۔

صابرہ اور زمان دونوں ایمبولینس میں بچے کے ساتھ آئے تھے۔ صابرہ کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ زمان کے بڑھے ہوئے شیو والے چہرے پر تھکن نمایاں تھی، کپڑوں میں ملفوف بچے کو اس نے بڑی احتیاط سے بڑے پیار سے اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔

اس نے بڑے خلوص و عقیدت سے مجھ سے ہاتھ ملایا تھا۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ میں نے بچے کو بچایا ہے۔ حالاں کہ بچہ تو ان مشینوں نے بچایا تھا۔ ان مشینوں پر کام کرنے والی نرسوں نے ڈاکٹر نے بچایا تھا اور ان مہنگی ترین دواؤں نے بچایا تھا۔ ان چیزوں کے لئے زمان کے خاندان نے اپنا خاصہ کچھ بیچ دیا تھا۔ زیور بیچ دیے تھے، قرض لیا تھا اور نہ جانے کتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ راتیں جاگ جاگ کر روئے تھے اور دن اضطراب میں کاٹے تھے۔ میں نے بچے کو نرسری میں داخل کر لیا۔

مجھے یاد ہے کہ بدھ کا دن تھا۔ صبح تین بجے تھے۔ مجھے اسپتال سے فون آیا۔ نیند میں، میں نے ریسیور اٹھایا تھا۔ مجھے کچھ اور سمجھ نہیں آیا، صرف گرم سیسے کی طرح الفاظ میرے کانوں میں گھسے تھے، ”بے بی زمان مر گیا ہے۔“

میں جب اسپتال پہنچا، تو وہ دونوں میاں بیوی باہر ہی کھڑے تھے۔ بار بار ہاتھ مل رہے تھے۔ ”وہ بالکل ٹھیک تھا، ڈاکٹر صاحب۔ نہ جانے کیا ہو گیا، کیسے مر گیا!“ وہ دونوں بے یقینی کی کیفیت میں کبھی مجھے دیکھ رہے تھے، کبھی نرسری کے شیشے کی دیوار دیکھ رہے تھے۔

بچہ بالکل ٹھیک تھا، مگر رات کو کسی وجہ سے الٹی ہوئی، جو نرس رات ڈیوٹی پر تھی، وہ بارہ بجے کے بعد بچے کے پاس بیٹھنے کے بجائے کرسیاں جوڑ کر سو گئی تھی۔ بچے نے الٹی میں جو کچھ نکالا تھا، اسے سانس کے ساتھ پھیپھڑے میں لے لیا تھا اور آہستہ آہستہ نیلا پڑا شروع ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر ایک اور نوزائیدہ بچے کو لے کر نرسری میں آئی، تو دیکھا کہ نرس سو رہی ہے اور بچہ نیلا پڑ گیا ہے۔

مجھے ایسا لگا، جیسے میرا دل رک جائے گا۔ ”بچہ مرا تو نہیں تھا، صرف نیلا ہی پڑا تھا، تم نے اسے سنبھالا کیوں نہیں؟ آکسیجن کیوں نہیں دی؟ تم تو سمجھ دار ڈاکٹر ہو۔“ میں غصے سے چیخ پڑا۔

وہ ڈاکٹر تھوڑی دیر خاموش رہی، نظر نیچے کیے ہوئے۔ میں دوبارہ چیخنے والا تھا کہ وہ بولی، ”میں نے آکسیجن دیا تھا سر، مگر آکسیجن ختم ہو چکی تھی۔ سارے سلنڈر خالی تھے۔“

میں زمان کو کبھی بھی بچے کے مرنے کی وجہ نہیں بتا سکا۔ اس سے بات کرتے وقت میرے گلے میں جیسے پھندا پڑ گیا تھا۔ میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ سکا تھا، خدا کی مرضی تھی زمان، خدا کی مرضی تھی۔ اندر میرے بہت اندر مجھے پتا تھا کہ خدا کی مرضی نہیں تھی لیکن اس کے علاوہ میں کچھ اور کہ بھی نہیں سکتا تھا۔

وہ دونوں چھوٹے سے بچے کی نعش سینے سے لگائے، روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ، میرے سامنے سے چلے گئے۔

کئی ہفتوں بلکہ کئی مہینوں کے بعد ایک دن، پھر مجھے بہت سویرے سویرے اسپتال جانا پڑ گیا تھا۔ میں گاڑی کھڑی کر کے نیچے اترا ہی تھا کہ سامنے بینچ پر بیٹھا ہوا وہ نظر آیا۔ صبح ہونے سے پہلے کے ہلکے ہلکے اندھیرے میں۔ میں فوراً ہی اسے پہچان گیا۔ ”تم یہاں اتنے سویرے سویرے کیسے خیریت تو ہے زمان؟“ میں نے پوچھا تھا۔

اس نے مجھے تشکر بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ ”آج بدھ ہے نا۔ اسی وقت منا یہاں مر گیا تھا۔ میں نے اسے اپنی گود میں اٹھایا تھا، سینے سے لگایا تھا اور اس کی لاش کو گھر لے گیا تھا۔ اس جگہ تھوڑی دیر پتھر کے اس بینچ پر میں اور صابرہ بیٹھ کر روئے تھے۔ پھر چلے گئے تھے۔ یاد ہے ناں آپ کو؟ میں تو ہر بدھ کی صبح یہاں آتا ہوں۔ منے کو یاد کرنے۔ وہ مجھے بہت یاد آتا ہے، ڈاکٹر صاحب۔ اسی پتھر کے بینچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ آہستہ آہستہ میرے گریبان کے بٹنوں کے درمیان سے گزر کر میرے سینے کے بالوں کو دھیرے دھیرے چھیڑ رہے ہیں۔ میں اسے اٹھا کر چومتا ہوں۔ اپنے سینے سے لگا کر بھینچتا ہوں۔ اپنے گالوں کو اس کہ پھول جیسے نرم نرم گالوں پر رکھ لیتا ہوں۔ میرے سینے میں جیسے ٹھنڈک پڑ جاتی ہے اور دل زور زور سے دھڑکتا ہے، جیسے کہ رہا ہو میرا منا، میرا منا۔“

میں پھر ساکت ہو گیا تھا۔ کسی نے میرے سر پر ہتھوڑے مارے تھے۔ شن شن شن، آکسیجن، آکسیجن، آکسیجن۔ شاید مجھے بھی آکسیجن کی ضرورت تھی۔

میں اس کا ہاتھ پکڑ کر نا چاہتے ہوئے، بے ساختہ پوچھ لیا تھا، ”آخر کیوں؟“

”بہت سکون ملتا ہے، مجھے یہاں پر۔ قبرستان سے بھی زیادہ۔ ہر چیز مجھے منے کی یاد دلاتی ہے۔ اسپتال کی دیواریں، نرسوں کی آوازیں، ڈاکٹر کا غصہ، نرسری کی روشنی اور صبح ہونے سے پہلے کا ہلکا ہلکا اندھیرا۔“ اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ کھڑکی سے چھن چھن کر آنے والی روشنی میں اس کا چہرہ پرسکون تھا، میرے اندر کے سیلاب سے نا آشنا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3